حج درخواستیں اور فرضیت حج

 حج 2020ء سرکاری اسکیم کے تحت زندگی کے سب سے مقدس ترین سفر کے لئے حج درخواستوں کی وصولی کا آغاز ہو چکا ہے ۔جس کا دورانیہ 25فروری سے 6مارچ تک ہو گا۔ حکومتی قرعہ اندازی کی بنیاد پر کامیاب امیدواروں کی فہرست کا اعلان ہوگا۔حج پر جانے کے لئے سب سے بڑا سرمایہ سچی طلب اور بار بار گڑگڑا کر دعا مانگنا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے محض دعاؤں اور سچی لگن سے کم وسائل کے باوجود کئی بار حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کی ہے اور کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اتنے وسائل اورمال ودولت ہے کہ وہ ہرروز بیت اﷲ کی زیارت کے لئے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں ،کئی کارخانوں،جائیداد اور فیکٹریوں کے مالک ہیں لیکن ان کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی۔بیت اﷲ شریف میں اﷲ تعالی نے ایسی کشش اور جاذبیت رکھ چھوڑی ہے کہ جب کوئی حج اور عمرہ پہ جانے والا اس پر پہلی نظر ڈالتا ہے تو لاکھوں روپے کاخرچ بھول جاتا ہے اور رشک بھری نظروں سے دیکھ کر کہتا ہے کہ اے میرے مولا! تو نے مجھے کہاں لاکر کھڑا کر دیا، شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا

’’حج ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی ’’ ارادہ کرنا‘‘ ہے شرعی طور پر آدمی بیت اﷲ کے طواف ،صفا ومروہ کی سعی اور منٰی وعرفات ومزدلفہ کی حاضری کاارادہ لے کر اپنے گھر سے مکہ مکرمہ کی طرف نکلے ۔دین اسلام میں حج اعلی ترین عبادت ہی نہیں بلکہ کئی ایک عبادات کا مجموعہ ہے۔بلوغت کے بعد زندگی بھر میں صرف اور صرف ایک دفعہ مسلمان ،آزاد،عاقل ،بالغ ،تندرست اورصاحب استطاعت پر فرض ہے۔جس شخص کے پاس حج پر جانے یا حج کی درخواستیں وصول کئے جانے کے وقت ضرورت اصلیہ(گھر،لباس،سواری،گھریلو سامان اور قرض وغیرہ) سے زائد اور اپنی غیر موجودگی میں اہل وعیال کے ضروری اخراجات کے علاوہ اتنا مال ہو کہ عادت اور حیثیت کے مطابق بیت اﷲ آنے جانے کے سفری اخراجات اور زاد راہ کے لئے کافی ہوتو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے ۔عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم کے اور عدت میں سفر کرنا جائز نہیں اس لئے وہ حج ادا کرنے پر اس وقت قادر سمجھی جائے گی جبکہ اس کے ساتھ شوہر یا کوئی شرعی محرم حج کرنے والا ہو ،خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کررہا ہو یا یہ عورت اس کے سفر کا خرچ برداشت کرے اور وہ عورت عدت میں بھی نہ ہو۔ لہذااس سال 2020ء کے مطابق اگر اس آدمی کے پاس مذکورہ ضروری اخراجات کے علاوہ سرکاری حج اسکیم کے تحت تقریباپانچ لاکھ روپے ہوں تو اس پر حج فرض ہے ۔جب یہ حج فرض ہو جائے تو اب شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس فریضے کو جلد سے جلد تر ادا کیا جائے ،بلاوجہ حج فرض کو موخر کرنا درست نہیں،کیونکہ انسان کی صحت ، فرصت زندگی اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں،اس لئے خودساختہ مجبوریوں کی وجہ سے حج میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،خود سرکار دو عالم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے جلدی کرنی چاہیے کیونکہ اسے کوئی مرض لاحق ہو سکتا ہے،سواری گم ہو سکتی ہے اور کوئی مجبوری پیش آسکتی ہے ‘‘۔کیونکہ اگر حج فرض ادا کئے بغیر موت آگئی تواس پر بڑی سخت وعیدیں ارشاد فر مائی گئیں ،کہ آپ ﷺ کا ارشاد عالیشان ہے کہ’’ جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا خطرناک مرض نے حج سے نہ روک رکھا ہو اور وہ حج کئے بغیر مر گیا تو اسے اختیار ہے کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر(امت مسلمہ میں اس کا شمار نہیں،اس کا حج نہ کرنا یہودو نصاری کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ وہ حج نہیں کرتے ) (مشکوۃ) اسی طرح ’’کنز العمال صٖفحہ ۸ پر ہے کہ ’’ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ جس آدمی کو میں نے صحت دی اور رزق بھی دیا پھر اس پر پانچ سال ایسے گزرے کہ اس نے حج نہیں تو وہ میری رحمت سے محروم ہو ا‘‘لیکن اتنی سخت وعیدات کے باوجود آج ہم لوگوں نے حج کرنے کے لئے اپنے اوپر بہت سی ایسی شرطیں اور پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں،بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک ان کے دنیوی مقاصد پورے نہیں ہوتے اس وقت تک حج نہیں کرنا چاہیے مثلا جب تک مکان نہ بن جائے یا جب تک بیٹیوں کی شادیاں نہ ہو جائیں ،جب تک ہماری اولاد کاروبار وغیرہ میں اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہوجائے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک والدین کو حج نہیں کرائیں گے خود ان کا حج ادا نہیں ہو گا یہ سراسر غلط بات ہے اس غلط خیال کی بنیاد پر بوڑھے والدین کو حج کے لئے روانہ کر دیتے ہیں پھر ان ضعیف لوگوں کو حج میں جن پریشانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہیں۔اس لئے اچھی طرح سمجھ لیں اپنے فرض حج کی ادائیگی والدین کے حج پر موقوف نہیں،پہلے اپنا فرض حج کر لینا چاہیے ،اگر والدین کو حج کرانے کاخیال ہے تو ان کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ ضرور جائیں،انہیں دوسروں کے حوالے نہ کریں۔ والدین کو حج کرانے سے اپنا فرض حج ادا نہیں ہو تا ۔ اس کو خود اپنا فرض حج ادا کرنا لازم ہو گا۔ مسئلہ ٭اگر کسی آدمی پر حج فرض تھا لیکن وہ حج کئے بغیر فوت ہو گیا اور اس نے موت سے پہلے حج بدل کرانے کی وصیت کی اور اس نے ترکہ میں اتنی جائیداد یا اتنامال چھوڑاکہ اس کے تہائی سے حج کرایا جا سکتا ہے تو وارثوں کے لئے میت کی طرف سے حج بدل کرانا فرض ہو گا ،اگر ورثا حج بدل نہیں کرائیں گے تو سخت گناہ گار ہوں گے اور اگر ایسے شخص نے کوئی وصیت نہیں کی تو ورثا ء پر اس کی طرف سے حج بدل کرانالازم نہیں لیکن اگر ورثا اس کی طرف سے خود حج بدل کر دیں یا کسی دوسرے کو حج بدل کے لئے بھیج دیں تو اﷲ کی رحمت سے امید کی جاتی ہے کہ مرحوم کا فرض حج ادا ہو جائے گااور وارث کی طرف سے مرحوم پربڑا احسان ہو گا۔ حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فر ما یا اسلا م کی بنیا د پا نچ چیزوں پر ہیں (۱ ) کلمہ شہا دت (۲) نما ز قائم کرنا (۳) ز کوۃ ادا کر نا (۴) حج (۵) رمضا ن کے رو زے رکھنا ٭حج سا ری ز ند گی میں صر ف ایک با ر فر ض ہے ۔حضرت ابو ہر یر ہ ؓ سے روایت ہے ر سول اکرم ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا اور فر ما یا لو گو تم پر حج فر ض کیا گیا ہے لہذا حج کرو ایک آدمی نے پو چھا یا سول اﷲ ﷺ کیا ہر سا ل حج کر یں ؟ رسو ل ﷺ خا مو ش رہے حتی کہ صحا بی نے تین مر تبہ یہ سوال کیا تب آپ ﷺ نے فر ما یا اگر میں ہا ں کہہ دیتا تو تم پر ہر سا ل حج کر نا فر ض ہو جا تا اور تم یہ نہ کر سکتے پھر فرما یا جو چیز میں تم کو بتا نا چھو ڑ دو ۔اس با رے میں تم بھی مجھ سے سوال نہ کیا کرو تم سے پہلے لو گ اپنے انبیاء سے ز یا دہ سوال کر نے اور ان سے اختلا ف کر نے کی وجہ سے ہی ہلا ک ہو ئے لہذا جب میں تمھیں کسی با ت کا حکم دوں تو حسب استطا عت اس پر عمل کرو ں اور جب کسی چیز سے منع کرو ں تو رک جا ؤ ۔٭حج مبرور جو نیکیوں سے بھرا ہوا ہو ،جس میں ریا،نام ونمود نہ ہو اور حلال مال سے ہو اس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہین ہے۔ر سو ل کریم ﷺ نے فر ما یا’’ عمرہ ان تما م گنا ہو ں کا کفا رہ ہے جو مو جو دہ اور گز شتہ عمرہ کے در میا ن سر ز د ہو ئے ہیں اور حج مبرور کا بس بد لہ تو جنت ہی ہے ‘‘۔حضرت عمر و بن عا ص ؓ کہتے ہیں میں نبی اکرم ﷺ کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عر ض کیا اپنا داہنا ہا تھ آگے کیجئے تا کہ میں آپ سے بیعت کروں نبی اکرم ﷺ نے اپنا دا ئیں ہا تھ ا ٓ گے کیا تو میں نے اپنا ہا تھ پیچھے کھینچ لیا، نبی اکرم ﷺ نے در یا فت کیا، عمر کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ شرط رکھنا چا ہتا ہو ں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا تم کیا شر ط ر کھنا چا ہتے ہو میں نے عر ض کیا گنا ہو ں کی مغفرت کی۔ تب آ پ نے ار شا د فر ما یا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلا م میں دا خل ہو نا گز شتہ تما م گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے ،ہجرت گز شتہ تما م گنا ہو ں کو مٹا دیتی ہے اور حج گز شتہ تما م گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت ابو ہر یرہ ؓ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فر ما تے ہو ئے سنا ہے جس نے اﷲ تعا لی کی رضا کے لئے حج کیا اور اس دو ران کو ئی بے ہو دہ بات یا گنا ہ نہ کیا ہو وہ حج کر کے اس دن کی طرح گنا ہو ں سے پا ک لو ٹے گا جس طر ح اس کی ما ں نے اس کو جنا تھا٭ پے در پے حج اور عمرہ محتا جی اور فقرکو دور کر تے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ سے روایت کر تے ہیں ’’کہ آ پ ﷺ نے فر ما یا پے در پے حج اور عمرہ کروں بے شک یہ دونو ں فقر اور گنا ہو ں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لو ہے کی میل کیچیل کو دور کر دیتی ہے ۔ایما ن با ﷲ اور جہا د کے بعد سب سے افضل عمل حج ہے ۔نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کو ن سا عمل سب سے افضل ہے آ پ ﷺ نے فر ما یا اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایما ن لا نا کہا گیا اس کے بعد ؟آپ نے فر ما یا اﷲ کی را ہ میں جہا د کر نا ۔کہا گیا اس کے بعد؟ آپ ﷺ نے فر ما یا’’ حج مقبو ل‘‘۔ خواتین، بو ڑ ھے اور کمزور لو گوں کو حج کا ثواب جہا د کے برا بر ملتا ہے ۔حضرت حسن بن علی ؓ کہتے ہیں ’’کہ ایک آد می نبی ﷺ کے پا س آ یا اور کہا کہ میں کمزور دل اور ضعیف آ دمی ہوں آپ ﷺ نے فر ما یا ایسا جہا د کر جس میں تکلیف نہیں ہے یعنی حج ‘‘۔ (طبرانی) ام المو منین حضرت عا ئشہ ؓ سے روایت ہے’’ میں نے عر ض کیا یا رسول ﷺ ہمیں معلو م ہے کہ جہا د سب سے زیا دہ افضل عمل ہے کیا ہم جہا د نہ کر یں آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا نہیں (عورتوں کے لئے ) عمدہ ترین جہا د حج مبرور ہے ‘‘۔
 

Mufti Tanveer Ahmed
About the Author: Mufti Tanveer Ahmed Read More Articles by Mufti Tanveer Ahmed: 21 Articles with 20086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.