علاماتِ نفاق-۴

(۶۱)حادثاتِ زمانہ سے خواہ مخواہ ڈرنا
ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” وہ ہر خوف کی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔“

یعنی منافق ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں اور وہ بھی دنیاوی معاملات میں مثلاً اگر قیمتیں چڑھ جائیں تو محفلوں میں بیٹھ کر واویلا کرتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ سنا تم نے کہ چاول اور چینی کا نرخ کس قدر بڑھ گیا ہے؟ بس انہیں تو کھانے پینے کا خیال رہتا ہے، انہیں دعوتِ دین یا نصرتِ اسلام کی قطعاً فکر نہیں، اور نہ ہی انہیں غلط کاموں کو ختم کرنے کی فکر ہے اور نہ ہی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کا خیال ہے۔ ان کی ساری سوچ مارکیٹ کے ریٹوں، درختوں، خبروں، بارشوں، رات کو کھلی رہنے والی ڈسپنسریوں اور زمینی درجہ حرارت کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ان کا سارا دین ہی یہی ہے۔ دنیاوی آسائشوں کا حصول ان کا مقصدِ حیات ہے اور ایسی ہی خبروں سے ان کی خوشی یا غمی وابستہ رہتی ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ لوگ دین، رسالت، مساجد، قرآن کریم، سنتِ مطہرہ، سیرت طیبہ، علماء کے وجود ،داعی حضرات اور مجاہدین کو پا کر خوش ہوں چاہے دنیا کی آسائشیں حاصل ہوں یانہ ہوں۔ کیوں کہ اس دنیا کے معاملہ تو کافر ہر میدان میں ہم سے آگے ہیں۔ تم اگر پختہ مکان میں رہ رہے ہو تو کافر فلک بوس عالی شان بلڈنگوں میں رہ رہے ہیں، تم اگر ایک عام گاڑی میں سوار ہو سکتے ہو تو کافر اپنے ہی ملک میں بنی ہوئی عالی شان گاڑیوں میں سواری کر تے ہیں اور ان کی یہ سہولیات اسی دنیا تک محدود ہیں آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں اس لیے دنیا میں ان کو برتری دیدی جاتی ہے بلکہ قرآن کریم نے تو اس سے بھی بڑھ کر ایک بات بتائی ہے،فرمایا: ” اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے(یعنی دھوکے میں کافر بن جائیں گے) تو ہم اللہ سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں، سب چاندی اور سونے کے بنا دیتے ، یہ تو محض حیاتِ دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لئے ہے۔“

ان کے خیال میں صرف کھانے پینے کا نام ہی نعمت ہے۔ بلاشبہ یہ نعمت ہے بشرطیکہ یہ وسائل زندگی اطاعت خداوندی کے معاون بنیں۔ البتہ اگر ان نعمتوں میں پلنے والا نماز چھوڑ بیٹھے، گھر میں اسلامی ماحول نہ رکھے، پردے کا خیال نہ رہے، موسیقی سے اپنے آپ کو نہ بچائے ،مسلمانوں کی پردہ داری اس کے ہاتھوں چاک ہو، پھر یہ کھانا پینا نعمت کہاں رہے؟ ڈھورڈنگر بھی کھاتے پیتے ہیں لیکن نعمت ایمان سے محروم۔ اسی لئے تم منافقوں کو دیکھو گے کہ ناگہانی حادثات سے ڈرتے رہتے ہیں۔

ان کے برعکس مومن کا معاملہ یہ ہے کہ جان کو ہتھیلی پر رکھے رہتا ہے۔ کیونکہ مومن نے تو اپنی جان پہلے ہی اللہ کے ہاتھ فروخت کر رکھی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:” حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جان اور مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں....“

اسی لیے حضرات صحابہ کا حال یہ تھا کہ تلواریں سونتی ہوئی ہیں، جانیں ہتھیلیوں پر رکھی ہوئی ہیں اور دورانِ جنگ قہقہے لگ رہے ہیں۔ اور ادھر منافق کا حال یہ ہے کہ جنگ ہزار کلو میٹر پر لڑی جا رہی ہوتی ہے اور وہ خوف کے مارے کانپ رہا ہوتا ہے اور جان حلق میں پھنسی ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ ڈگمگایا رہتا ہے۔

(۷۱)برائی کا حکم دینا اور اچھائی سے روکنا
منافقین سے متعلق اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:ترجمہ: وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں۔(التوبہ ۷۶)

چنانچہ جب تم اﷲ اور رسولﷺ کی بات انہیں سنانا شروع کرو تو وہ کہتے ہیں بھائی صاحب !ہمیں معاف رکھو، ہمیں آرام سے رہنے دو، ہمیں دین کا خوب علم ہے، ہمیں دین کی تم سے زیادہ سمجھ ہے، الحمدﷲ دین اور علم خوب پھیل چکا ہے، اب معاشرے کے تمام طبقات تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں،اب تم ملاؤں کی بات پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ۔لیکن ان کا علمی مبلغ اتنا ہی ہوتا ہے کہ اگر تم سجدہ سہو کا مسئلہ پوچھ لو تو چٹا جاہل ثابت ہوگا اور اسے دین کے کسی مسئلے کا علم نہیں ہوگا۔ ان کا پروگرام یہی ہوتا ہے کہ برائی اہل ایمان میں پھلے پھولے اور اسلامی شعائر داڑھی ،پردہ،شرعی بود وباش، وغیرہ ختم ہو جائے۔ اسی لیے کچھ مؤلفین و مصنفین نعرہ لگا رہے ہیں کہ عورت کو آزادی ملے، وہ پردے سے باہر نکلے، گانے اور فحش رسالے عام ہوں، نشہ آور چیزوں کا رواج ہو، یہ سب کا سب برائی کا حکم ہے اور بدی سے محبت کا نتیجہ ہے۔ ایسے نفاق زدہ لوگ کسی نیکی اور بھلائی کو پسند نہیں کرتے۔ ان کا پروگرام ہے کہ خیر کی قوت کمزور ہو، علم دین ،علم قرآن وسنت ناپید ہو ،دعوت دین اور جہاد کا کام ٹھپ ہو جائے۔ اگرچہ ان کی یہ آرزوئیں کبھی پوری نہ ہوں گی۔انشاءاللہ

(۸۱) کنجوسی کرنا
اُمور دین اور نیکی کے معاملات میں خرچ کرنے کے سلسلے میں منافق لوگ سب سے زیادہ بخیل ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ ناموری اور شہرت کی خاطر تو ایک ایک شادی میں لاکھوں ،کروڑوں اُڑا دیتے ہیں۔ لیکن اگر تم نے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے ،مسجد کی تعمیر یا جہاد کی خاطر تعاون کا کہہ دیا تو دس روپے نکال کر انہیں گنے گا، ہاتھوں میں مسلے گا، اس کی قبولیت کی دعا کرے گا، اور اس کے بدلے جنت کی دائیں جانب سفید محل کی امید کرے گا۔ منافقین انتہائی تنگ دلی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ان کا حال ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ”( منافق مرد اور منافق عورتیں) اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اﷲ کو بھول گئے تو اﷲ نے بھی انہیں بھلا دیا۔“( التوبہ: ۷۶)

ایسے لوگ قدرت رکھنے کے باوجود بھی نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتے اور ہمیشہ ہاتھ روک کر رکھتے ہیں۔ نفاق کی نشانیوں میں یہ ایک اہم نشانی ہے۔

(۹۱) اﷲ کو بھلا دینا
دنیا میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ اﷲ کے علاوہ ہر چیز اُسے یاد رہتی ہے۔ تم دیکھو گے کہ وہ ہر چیز کو یاد رکھتا ہے بیوی کو،بچوں کو ،گانوں کو، اپنی امیدوں کو اور آرزؤں کو، گویا دنیا کی ہر چیز اسے یاد ہے۔ بس یاد نہیں آتی تو اﷲ کی یاد نہیں آتی، یا کبھی بھولے بھٹکے انداز میں اس کے دل پر اﷲ کی یاد کا گزر ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کا دل دنیا کی محبت سے زنگ آلود ہوکر مر جاتا ہے۔ اﷲ کو بھول جانا منافقوں کی سب سے بڑی کوتاہی اور غفلت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:”یہ منافق لوگ اﷲ کو بھولے تو اﷲ نے بھی انہیں بھلا دیا۔“(التوبہ ۷۶)

دوسری جگہ فرمایا:” شیطان ان پر مسلط ہو چکا ہے اور اس نے اللہ کی یاد ان کے دلوں سے بھلا دی ہے۔“( المجادلہ۹۱)

امام الغزالیؒ فرماتے ہیں: ”جو آدمی کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اس کا تذکرہ بار بار کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اگر مختلف کاموں کے کاریگر اور فنکار ایک گھر میں داخل ہوں تو ہر آدمی اپنے اپنے کام کا تذکرہ کرے گا اور اپنے اپنے کام سے متعلق چیزوں کو غور سے دیکھے گا، اس کا ذکر اس کی زبان پر ہو گا، ایک بڑھئی جب گھر میں داخل ہوگا تو کھڑکیوں اور دروازوں کو غور سے دیکھے گا اور جب رنگ ساز داخل ہوگا تو قلعی اور رنگوں پر غور کرے گا اور جولاہا اور قالین فروش زمین پر دیکھے گا۔ یعنی ہر ایک ہمیشہ اپنے اپنے فن اور پیشے کی بات کرے گا اور جو اﷲ سے محبت کرنے والا ہوگا وہ اﷲ ہی کا بار بار نام لے گا“۔ البتہ منافق کو اﷲ کے ذکر سے اور جو انعامات واعزازات اﷲ کے پاس ہیں ان کے تذکرے سے سخت غصہ اور بغض آتا ہے۔ کیوں کہ وہ ظاہری نفع کا خواہش مند ہوتا ہے جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ کا اصل بدلہ تو آخرت میں ملے گا جس پر منافق کو یقین ہی نہیں ہوتا لہٰذا کبھی کبھی ہی اﷲ کا نام اس کی زبان پر آئے گا۔اس لیے جب وہ اﷲ کو بھول گیا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی اسے بھلا دیتے ہیں اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس کی طرف نظر رحمت وکرم نہیں فرماتے اور اسے حوالہ شیطان کردیتے ہیں۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔آمین
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343776 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.