آج میرے دوست ڈاکٹرعاصم حسین جو پی ایس پی میں ہیں
نے ایک تحریر مجھے بھیجی کہ میں اس پر کالم لکھوں آجکل کرونا وارس کے اثرات
سے بچاؤ کے خاطر مزہبی تقریبات حتی کہ جمعہ کی اجتماعی نماز اور دورانیہ کو
کم کرنے کا مشورہ دیا ہے ہے۔کرونا وبا کے پیش نظر سعودی حکوت نے طواف کعبہ
کو کچھ دیر کے لئے روک دیا اور یہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا
کیونکہ سورت الحج میں خداوند کریم کا فرمان ہے۔ وَاِذۡ بَوَّاۡنَا
لِاِبۡرٰهِيۡمَ مَكَانَ الۡبَيۡتِ اَنۡ لَّا تُشۡرِكۡ بِىۡ شَيۡئًـا
وَّطَهِّرۡ بَيۡتِىَ لِلطَّآئِفِيۡنَ وَالۡقَآئِمِيۡنَ وَ الرُّكَّعِ
السُّجُوۡدِ ۞
ترجمہ: یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی
جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ "میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ
کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں
کے لیے پاک رکھو۔ مطلب حرم کعبہ کی صفائی ستھرائی لازم ہے۔ نماز جمعہ میں
بھی صرف صفائی اور سیکورٹی عملے کے چند افراد شاملِ تھے اگر صورت حال یہی
رہی تو انسانی حفاظت کی خاطر حرم کعبے میں لمبے عرصے تک طواف ، عمرے اور
نمازوں پر مکمل پابندی عائد ہوسکتی ہے کیونکہ دو دن بعد سعودی عرب پورے ملک
کو بند کررہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مقامی لوگ بھی عمرے اور زیارت سے محروم
ہو جائیں گے لیکن یہ منظر نامہ ہمارے ہاں کچھ مسلمانوں سے برداشت نہیں ہوا
کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق خانہ کعبہ کا طواف رکنے کا مطلب ہے کہ دنیا رک
گئی۔ اس عقیدے کو درست ثابت کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے ویڈیوز شئیر کی
جانے لگی جس میں پرندوں کا غول خانہ کعبہ کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ سوشل
میڈیا چھوڑیں الیکٹرونکس میڈیا پر یہ ویڈیو بڑے عقیدت سے وائرل ہونے لگی
اور ہمارے بڑے بڑے صحافی سبحان اللہ ، اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے لگے
جن لوگوں نے حرم کعبہ کی زیارت کی ہے ان کو معلوم ہے یہ وہاں کا عام دستور
ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی طواف کعبہ تاقیامت جاری رہے گا اور اس کے رکنے
سے نظامِ کائنات رک جائے گا؟ سعودی عرب کے تحقیقی ادارے دارسلام کے مطابق
خانہ کعبہ کی پہلی بار تعمیر فرشتوں نے کی اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام
نے اسے تعمیر کیا ۔ طوفان نوح میں مکمل طور زمین بوس ہونے کے بعد حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں کی نشان دہی پر اسی جگہ پر دوبارہ تعمیر
شروع کی سوال یہ ہے کہ جب اتنا عرصہ خانہ کعبہ کا وجود باقی نہیں رہا تو
نظام کائنات کیسے چلتا رہا اور تو چھوڑیں دستیاب تاریخ میں نہ صرف طواف
کعبہ چالیس مرتبہ سے زائد رک چکا ہے بلکہ کئی بار تو حج بھی منسوخ ہوچکا ہے۔
برادر یوسف خان کی ایک تحریر کسی دوست نے ارسال فرمائی ہے اس میں چند چیدہ
چیدہ واقعات کا ذکر ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔ (1) 251 ھ یوم عرفہ کے دن
لڑائی کے سبب حج کو ہی معطل کردیا گیا اور حج ادا ہی نہیں ہوا۔ (2) 317 ھ
مطاف میں قرامطہ کی لڑائی اور حجر اسود کی ڈکیتی کے سبب مطاف بند کردیا گیا۔
(3) 372 ھ خلافت بنی عباس و بنی عبید کے وقت عراق میں فسادات کے سبب مکہ کی
حکومت نے عراقیوں کے حج پر مکمل پابندی لگا دی ۔
(4) 428 ھ صرف مصر سے آنے والے حجاج نے حج ادا کیا باقی مقامات کے حجاج پر
پابندی تھی ، (5) 650 ھ میں دس سال کی پابندی کے بعد پہلی مرتبہ اہالیان
بغداد عراق حج ادا کرنے حجاز مقدس آئے، (6) 655 ہجری میں اہلِ حجاز یعنی
مکہ و مدینہ و ارد گرد میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر حج ادائیگی پر
پابندی لگا دی گئی اور اہل حجاز نے حج نہیں کیا ، (7) 1814 ع میں مکہ اور
حجاز میں طاعون کی وباء پھیل گئی اور طاعون کے مرض سے 8 ہزار سے زائد افراد
ہلاک ہوئے جس کے بعد مسجد حرام کو عبادت کے لئے مکمل بند کردیا گیا تا
وقتیکہ طاعون کا مرض مکمل طور پر ختم نہ ہوگیا، (8) 1831 ع بموافق 1246
ہجری میں ہندوستان سے ایک حاجی وبائی مرض کے ساتھ مکہ آیا جس نے دنیا بھر
سے آئے حجاج کو لپیٹ میں لیا اور ٹوٹل حجاج کا ایک تہائی حصہ اس مرض سے
وفات پا گیا ۔ (9) 1837 موسم حج میں ایک شدید قسم کے وائرس نے حملہ کیا
وائرس تین سال تک مسلسل حجاز کے لوگوں کو متاثر کرتا رہا 1840 میں جا کر
ختم ہوا۔ (10 1845 کورونا وائرس کے بھائی کولیرا وائرس نے حجاج پر حملہ کیا
اور پھر 1850/1865 / 1883 ایام حج میں حجاج پر حملہ آور ہوتا رہا ، (11)
1858 میں اہالیان حجاز پر شدید وبائی امراض نے حملہ کیا اور اہل حجاز
زندگیاں بچانے کے لئے مصر کی طرف ہجرت کرنے اور علاج کرانے پر مجبور ہوئے۔
(12) 1864 عمرہ زائرین پر وائرس کی وباء نے حملہ کیااور اس قدر شدید وائرس
تھا کہ یومیہ معتمرین کے مرنے کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی تھی جس کے
ازالے کے لئے مصر سے بڑی تعداد میں اطباء کو بلایا گیا، (13) 1892 کولیرا
وائرس نے ایک بار پھر موسم حج میں حجاج کو نشانہ بنایا اس مرتبہ وباء نے
یوں اموات پھیلائی کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو بے کفن و دفن چھوڑ
کر بھاگنے لگے میدان عرفات میں گِدھوں کے غول جمع تھے مر جانے والے حجاج کی
ہڈیاں مہینوں بعد منٰی کے میدان سے بھی ملتی رہیں ، (14 ) 1895 میں مدینہ
المنورہ سے آئے حجاج ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہوگئے اور کئی کی حالت مکہ
پہنچتے اتنی نازک ہوگئی تھی کہ منیٰ تک پہنچ ہی نہیں پائے اس سال منی کا
قیام حج کے دوران نہیں ہوا، (15) 1987 میں موسم حج میں حجاج کرام میں ہیضہ
کی وباء پھیل گئی اور ہیضہ کے سبب 10000 حجاج فوت ہوگئے اور اس دوران بھی
حرم کو وباء سے پاک کرنے کے لئے بند کیا گیا، خانہ کعبہ شعار اللہ یعنی
اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔ خدا کی خدائی چلتی رہے گی جب تک رب چاہے۔
حضرت عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا ۔"میں خوب جانتا ہوں کہ تو
پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی
تجھے بوسہ نہ دیتا" خانہ کعبہ تو مٹی اور پتھروں کی ایک عمارت ہےجسے کرونا
وائرس سے کچھ نہیں ہونا۔ اس وقت خلق خدا اس وبا سے مر رہی ہے۔ آئیے ان کے
دعا اور عملی اقدامات کریں جس کے بارے میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم
نے طواف کے دوران کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔ کہ’’کتنا
پاکیزہ ہے تُو، اور کیسی خُوش گوار ہے تیری فِضا، کتنا عظیم ہے تُو اور
کتنا محترم ہے تیرا مقام، مگر اُس خُدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد ؐ کی
جان ہے۔ ایک مسلمان کی جان ، مال اور خون کا احترام اﷲ کے نزدیک تیری حرمت
سے زیادہ ہے۔‘‘ (ابن ماجہ) یہ تھے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم واقعی
دنیائے عالم کے لیے سراپا رحمت ۔۔ اے کعبے کے رب تو اپنے مخلوق کو اس عذاب
سے نجات دلا دے ۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ |