جب تک ہم نے اسلامی تعلیمات کو تھامے رکھا تب تک ہم زندگی
کے ہر شعبے میں کامیاب رہے۔وہ بھی وقت تھا کہ جب رشتوں اور تعلقات کو ہر
ممکن حد تک نبھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ برداشت ہر رشتے کا لازمی جزو ہوا
کرتی تھی۔ عفو و در گزر سے کام لینا انسان کی طبیعت کا لازمی حصہ خیال کیا
جاتا تھا۔ امیری غریبی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔حرص و ہوس باعث ننگ و عار
تھی لیکن دور حاضر میں سب معاملات بالکل اس کے برعکس ہیں۔حقوق کا ہمیں پتا
ضرور ہے لیکن صرف اپنے حقوق کا، ہمیں غلطیاں نظر آتی ہیں مگر دوسروں کی،
برداشت کرنے کی ترغیب ہم آج بھی دیتے ہیں مگر دوسروں کواس سب کی وجہ سے
سماجی بیماریوں نے جنم لیا ہے، سماجی رویوں میں ہونے والی ابتر تبدیلی
دیکھی گئی ہے، رشتے خاندان اور نسلیں متاثر ہو رہے ہیں اور سب سے اہم رشتہ
جس سے نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور جس سے ایک منظم معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ
ہے زوجین کا رشتہ،جو کہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ سیکھایا
جاتا تھا کہ ہر رشتے کی مضبوطی اور اسکا حسن ایک دوسرے سے در گزر کرنے اور
ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہیاور اب یہ سکھایا جاتا ہے کہ دبنے اور
جھکنے کی بالکل ضرورت نہیں، ابھی ہم زندہ ہیں۔۔۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ جب دو لوگ آپس میں ایک رشتے میں بندھ جاتے ہیں
تو ساتھ ہی دو خاندان بھی آپس میں جڑ تے ہیں، جن کا رہن سہن تک الگ ہوتا
ہے،طور طریقے بھی جدا ہوتے ہیں اور اسی بات کے پیش نظر دونوں طرف برداشت کا
ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ ہم کسی کو مکمل تبدیل نہیں کرسکتے لیکن اس کی عادتوں
کو برداشت ضرور کرسکتے ہیں یاد رکھیے! آگے بڑھنے کے لیے ہمیں سابقہ رہن سہن
کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور عمومی طور پر بھی دیکھا جائے تو اگر ہم ماضی
کو حال میں جینا چاہیں تو ہم پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ ہم انسان ہیں اور
انسان کی زندگی اگر ایک ہی حالت میں رہے تو وہ خود بھی بیزار ہوجائے گا۔ جب
آپ ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں تو ایک دوسرے کو سمجھئے، ہر بات کو شکایتی
رنگ دینے سے بھی یہ رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ہمیں نکاح کی اہمیت کو سمجھنا
ہوگا۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ یہ رشتہ ہماری زندگی میں کس طرح سکون کا باعث بنے
گا؟آخر ہم کب تک میرے حقوق، میرے حقوق کا راگ الاپتے رہیں گے؟ہمیں خود سے
سوال کرنا ہے کہ کیا ہم خود دوسروں کو ان کے حقوق دیتے ہیں؟کیا ہم اپنی ذمہ
داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں؟اسلیے سب سے پہلے ہم اس رشتے کی
اہمیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کائنات میں اﷲ رب العزت نے جس رشتے کو سب سے
پہلے وجود بخشا وہ زوجین کا ہی رشتہ تھا اور اسی بات سے اسکی اہمیت کا
اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے
تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے
]دنیا میں[ بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ النساء: 1
اﷲ تبارک و تعالی نے قرآن حکیم میں زوجین کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے سورۃ
البقرۃ آیت نمبر 187 میں ارشاد ہوتا ہے
(وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم انکے لیے لباس ہو)
مفسرین نے لباس کو پردہ،زینت اور راحت سے تعبیر فرمایا۔ جس طرح لباس عیبوں
کا پردہ رکھتا ہے اور زینت بنتا ہے اور سردی اور گرمی سے بچاتا ہے، اسی طرح
میاں بیوی کا تعلق ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں دونوں ایک دوسرے
کے لیے پردہ، راحت اور زینت ہیں۔قرآن نے یہ واضح کیا کہ زوجین ایک دوسرے کے
لیے باعث راحت و سکون ہیں، ایک دوسرے کے ہم راز اور ہم درد ہیں، ایک دوسرے
کے عیوب کا پردہ رکھنے والے ساتھی ہیں، لیکن جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے
ہیں تو فی زمانہ ہمیں زوجین کے درمیان بے سکونی نظر آتی ہے اور وجہ یہی ہے
کہ زوجین جہاں بھر میں ایک دوسرے کے عیوب گنواتے پھرتے ہیں کہ فلاں کی بیوی
جھگڑالو یا فلاں کا شوہر بد شکل ہے حالانکہ قرآن کریم میں ارشاد بابرکت ہے۔
اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو
ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اﷲ نے اس میں بہت بھلائی رکھ
دی ہو النساء: 19
میاں اور بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کی اچھائی کو دیکھیں،باہمی
اختلافات کو شروع میں ہی ختم کریں اور ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا
بھر پور خیال رکھیں۔بیوی کو چاہیے کہ جو بات شوہر پر ناگوار گزرتی ہے اسے
چھوڑ دے، جس شخص کا گھر میں آنا شوہر کو ناپسند ہو اسے مت آنے دے، اسی طرح
شوہر کو بھی چاہیے کہ ہر وہ چیز ترک کردے جو اسکی بیوی کی طبیعت پر ناگوار
گزرے، غصہ چھوڑ کر پیار و محبت سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے۔یاد
رکھیے، زوجین کے رشتے کی بنیاد اعتماد اور بھروسے پر قائم ہے، اور تو اور
یہ اس کا خاصہ اور حسن ہے۔ جہاں اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہو وہاں یہ
رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ ہر کام میں ایک دوسرے سے
مشورہ لیں۔بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال،اسکی عزت کی حفاظت
کرے،اور خاوند بھی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس کی ضروریات کا خیال
رکھے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
نیز عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسے کہ مردوں کے عورتوں
پر ہیں، اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔ (البقرۃ: 228)
مفسرین کہتے ہیں کہ: بیوی کا حسن معاشرت سے متعلق خاوند پر اتنا ہی حق ہے
جتنا خاوند کا بیوی پر ہے، البتہ خاوند کو بیوی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔اس
رشتے کی دوسری اور اہم خوبصورتی جو اس کی پائیداری کا لازمہ بھی ہے وہ ہے
صبر اور درگزر۔صبر، برداشت، در گزر یہ وہ اہم ستون ہیں جو کسی بھی رشتے کو
قائم رکھنے اور کی خوشحالی کا سبب بنتے ہیں۔ کڑے سے کڑے وقت میں پیا جانے
والا صبر کا ایک گھونٹ آپکی زندگی میں ایک ایسا رس گھولتا ہے جس کی تاثیر
آپکی روح محسوس کرتی ہے۔دور حاضر میں ان سب کا فقدان ہر جگہ اور ہر رشتے
میں نظر آتا ہے۔ ہماری نئی نسل جذباتی اور جلد بازی جیسی صفات سے متصف نظر
آتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بس ہماری بات سنی جائے، دوسروں کو سننا اور برداشت
کرنا ہم نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ کوئی چیز نا ملے وقت پر تو شوہر غصے سے آگ
بگولہ ہوجاتا ہے، کوئی فرمائش پوری نا ہو تو بیوی میکے سدھار جاتی ہیں۔ آج
کے معاشرے میں طلاق ایک عام بات تصور کی جاتی ہے جہاں مکمل حقوق کا مطالبات
کرنا اہم سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنا اپنا حق
سمجھا جاتا ہے۔ کسی ایک حق کی ادائیگی میں بھی ذرا سی کوتاہی کرنا طلاق کی
وجہ بن جاتا ہے، اب وہ کوتاہی مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سیہو، کھانے
میں نمک تو طلاق، باہر گھومانے لے کر نہیں لے کر جاتے تو طلاق، بیوی کی شکل
اچھی تو طلاق، سوہر کی تنخواہ کم ہے تو طلاق،طلاق ایک ایسا حلال عمل جو اﷲ
کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ ہے، شریعت اس وقت اس کی اجازت دیتی ہے جب اس کی
اشد ضرورت ہو، سماجی برائی، معاشرتی برائی، نان نفقہ نا دینا، فرائض میں
کوتاہی کرنا، حق زوجیت ادا نہ کرنا یہ وہ اسباب ہین جب آپ طلاق لے سکتے ہیں
یا دے سکتے ہیں، لیکن آج دیکھا جائے اس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا
ہے، وجہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نا کرنا ہے۔
سب سے پہلے اچھی بیوی کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔۔ اچھی بیوی وہ ہوتی ہے
• جو اپنے شوہر کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کو اپنا فرض سمجھے
• جو اس کے حقوق کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے
• جو اپنے شوہر کے عیبوں کو نہیں بلکہ اس کی خوبیوں کو آگے رکھے
• جو اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے
• اپنے شوہر اور اسکے گھر والوں کی عزت کو اپنا فرض جانے۔
• شوہر اسکے گھر والوں کی غیبت سے ہر ممکن طور پر بچے۔
• اولاد کی تعلیم اور تربیت بہترین طرز پر کرے
• شوہر کے ہر دکھ درد میں اس کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کے لیے باعث راحت
و سکون بنے
• بے جا مطالبات اور خواہشات سے گریز کرے۔ کچھ نا ملنے پر طنز و طعنوں اور
زبان درازی سے پرہیز کرے
• شوہر کی دل آزاری اور نافرمانی سے بچے۔ شوہر گھر آئے تو مسکراہٹ کے ساتھ
اس کا خیر مقدم کرے
• شوہر جس چیز کو ناپسند کرے اس کو بخوشی چھوڑ دے۔ مشکل وقت میں لعن طعن
اور نا شکری کے الفاظ ادا کرنے سے گریز کرے۔
• بنا اجازت گھر سے باہر قدم نا رکھے۔
بیویوں کو ان ذمہ داریوں کو اپنائیں۔۔ اور ممکن کوشش کریں کہ اپنے رویے سے
شوہر کو تکلیف نا دیں۔
اب ذکر کر لیتے ہیں شوہر کی ذمہ داریوں کا۔۔
• بیوی کی ہر جائز خواہش کو پورا کرے اس کی زمہ داری کو احسن انداز سے سر
انجام دے
• بیوی کی اچھائیوں پر نظر رکھے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو نظر
انداز کرے۔
• غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے پیار محبت سے معاملے کو سلجھانے کی سعی کرے۔
• شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو تحفظ فراہم کرے
• شوہر کوئی ناگوار بات اگر دیکھ لے تو صبر سے کام لے
• شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو دین داری کی تاکید کرے
• اور ہر مصیبت کے وقت اسکا حوصلہ بڑھائے اور اسکا سہارا بنے۔
حل؟
طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات عدم برداشت، اعتماد کا نا ہونا ہے اور
گھریلو ناچاقیاں ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا بھی ایک اہم وجہ
بنتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور شکوک و شبہات جنم
لیتے ہیں، سوشل میڈیا سیکھنے اور سکھانے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے لیکن
اس کا غلط استعمال آپکی زندگی کو تباہ کرسکتا ہے، آپ کے اہم رشتوں کو آپ سے
دور کرسکتا ہے
جو چیز دوری کا سبب بنے اسے چھوڑ دیں، کوشش کیجیے رشتوں کو بچائیے۔ اور ان
تمام لوگوں سے بچیے جو میاں بیوی کے غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں، ایسے لوگوں
کو دخل اندازی کا موقع ہی نا دیں، اپکا رشتہ اس قدر مضبوط ہو کہ کوئی غلط
بات آپ اپنے شوہر اور بیوی کے لیے سن ہی نا سکیں۔۔ ایک دوسرے کو سمجھیے
کیونکہ زوجین سے خاندان بنتا ہے، ایک دوسرے پر اعتماد کیجیے، ایک دوسرے کے
حقوق کی پاسداری کیجیے۔ طلاق سے صرف دو لوگ جدا نہیں ہوتے بلکہ دو خاندان
تباہ ہوجاتے ہیں، بچوں کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔کوشش کیجیے کہ اس معاشرتی
بگاڑ کو یہیں روک دیا جائے۔ معاشرے کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے
یاد رکھیے! ہر رشتہ وقت مانگتا ہے، وقت دیجیے اور زندگی کو پرسکون
بنائیے۔جب تک ہم نے اسلامی تعلیمات کو تھامے رکھا تب تک ہم زندگی کے ہر
شعبے میں کامیاب رہے۔وہ بھی وقت تھا کہ جب رشتوں اور تعلقات کو ہر ممکن حد
تک نبھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ برداشت ہر رشتے کا لازمی جزو ہوا کرتی تھی۔
عفو و در گزر سے کام لینا انسان کی طبیعت کا لازمی حصہ خیال کیا جاتا تھا۔
امیری غریبی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔حرص و ہوس باعث ننگ و عار تھی لیکن
دور حاضر میں سب معاملات بالکل اس کے برعکس ہیں۔حقوق کا ہمیں پتا ضرور ہے
لیکن صرف اپنے حقوق کا، ہمیں غلطیاں نظر آتی ہیں مگر دوسروں کی، برداشت
کرنے کی ترغیب ہم آج بھی دیتے ہیں مگر دوسروں کواس سب کی وجہ سے سماجی
بیماریوں نے جنم لیا ہے، سماجی رویوں میں ہونے والی ابتر تبدیلی دیکھی گئی
ہے، رشتے خاندان اور نسلیں متاثر ہو رہے ہیں اور سب سے اہم رشتہ جس سے
نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور جس سے ایک منظم معاشرہ وجود میں آتا ہے وہ ہے
زوجین کا رشتہ،جو کہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ سیکھایا
جاتا تھا کہ ہر رشتے کی مضبوطی اور اسکا حسن ایک دوسرے سے در گزر کرنے اور
ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہیاور اب یہ سکھایا جاتا ہے کہ دبنے اور
جھکنے کی بالکل ضرورت نہیں، ابھی ہم زندہ ہیں۔۔۔
ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ جب دو لوگ آپس میں ایک رشتے میں بندھ جاتے ہیں
تو ساتھ ہی دو خاندان بھی آپس میں جڑ تے ہیں، جن کا رہن سہن تک الگ ہوتا
ہے،طور طریقے بھی جدا ہوتے ہیں اور اسی بات کے پیش نظر دونوں طرف برداشت کا
ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ ہم کسی کو مکمل تبدیل نہیں کرسکتے لیکن اس کی عادتوں
کو برداشت ضرور کرسکتے ہیں یاد رکھیے! آگے بڑھنے کے لیے ہمیں سابقہ رہن سہن
کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور عمومی طور پر بھی دیکھا جائے تو اگر ہم ماضی
کو حال میں جینا چاہیں تو ہم پیچھے رہ جائیں گے کیونکہ ہم انسان ہیں اور
انسان کی زندگی اگر ایک ہی حالت میں رہے تو وہ خود بھی بیزار ہوجائے گا۔ جب
آپ ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں تو ایک دوسرے کو سمجھئے، ہر بات کو شکایتی
رنگ دینے سے بھی یہ رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ہمیں نکاح کی اہمیت کو سمجھنا
ہوگا۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ یہ رشتہ ہماری زندگی میں کس طرح سکون کا باعث بنے
گا؟آخر ہم کب تک میرے حقوق، میرے حقوق کا راگ الاپتے رہیں گے؟ہمیں خود سے
سوال کرنا ہے کہ کیا ہم خود دوسروں کو ان کے حقوق دیتے ہیں؟کیا ہم اپنی ذمہ
داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں؟اسلیے سب سے پہلے ہم اس رشتے کی
اہمیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کائنات میں اﷲ رب العزت نے جس رشتے کو سب سے
پہلے وجود بخشا وہ زوجین کا ہی رشتہ تھا اور اسی بات سے اسکی اہمیت کا
اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے
تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے
]دنیا میں[ بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ النساء: 1
اﷲ تبارک و تعالی نے قرآن حکیم میں زوجین کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے سورۃ
البقرۃ آیت نمبر 187 میں ارشاد ہوتا ہے
(وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم انکے لیے لباس ہو)
مفسرین نے لباس کو پردہ،زینت اور راحت سے تعبیر فرمایا۔ جس طرح لباس عیبوں
کا پردہ رکھتا ہے اور زینت بنتا ہے اور سردی اور گرمی سے بچاتا ہے، اسی طرح
میاں بیوی کا تعلق ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس ہیں دونوں ایک دوسرے
کے لیے پردہ، راحت اور زینت ہیں۔قرآن نے یہ واضح کیا کہ زوجین ایک دوسرے کے
لیے باعث راحت و سکون ہیں، ایک دوسرے کے ہم راز اور ہم درد ہیں، ایک دوسرے
کے عیوب کا پردہ رکھنے والے ساتھی ہیں، لیکن جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے
ہیں تو فی زمانہ ہمیں زوجین کے درمیان بے سکونی نظر آتی ہے اور وجہ یہی ہے
کہ زوجین جہاں بھر میں ایک دوسرے کے عیوب گنواتے پھرتے ہیں کہ فلاں کی بیوی
جھگڑالو یا فلاں کا شوہر بد شکل ہے حالانکہ قرآن کریم میں ارشاد بابرکت ہے۔
اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو
ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اﷲ نے اس میں بہت بھلائی رکھ
دی ہو النساء: 19
میاں اور بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کی اچھائی کو دیکھیں،باہمی
اختلافات کو شروع میں ہی ختم کریں اور ایک دوسرے کی پسند اور نا پسند کا
بھر پور خیال رکھیں۔بیوی کو چاہیے کہ جو بات شوہر پر ناگوار گزرتی ہے اسے
چھوڑ دے، جس شخص کا گھر میں آنا شوہر کو ناپسند ہو اسے مت آنے دے، اسی طرح
شوہر کو بھی چاہیے کہ ہر وہ چیز ترک کردے جو اسکی بیوی کی طبیعت پر ناگوار
گزرے، غصہ چھوڑ کر پیار و محبت سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے۔یاد
رکھیے، زوجین کے رشتے کی بنیاد اعتماد اور بھروسے پر قائم ہے، اور تو اور
یہ اس کا خاصہ اور حسن ہے۔ جہاں اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہو وہاں یہ
رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے۔شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ ہر کام میں ایک دوسرے سے
مشورہ لیں۔بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال،اسکی عزت کی حفاظت
کرے،اور خاوند بھی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ اس کی ضروریات کا خیال
رکھے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
نیز عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسے کہ مردوں کے عورتوں
پر ہیں، اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔ (البقرۃ: 228)
مفسرین کہتے ہیں کہ: بیوی کا حسن معاشرت سے متعلق خاوند پر اتنا ہی حق ہے
جتنا خاوند کا بیوی پر ہے، البتہ خاوند کو بیوی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔اس
رشتے کی دوسری اور اہم خوبصورتی جو اس کی پائیداری کا لازمہ بھی ہے وہ ہے
صبر اور درگزر۔صبر، برداشت، در گزر یہ وہ اہم ستون ہیں جو کسی بھی رشتے کو
قائم رکھنے اور کی خوشحالی کا سبب بنتے ہیں۔ کڑے سے کڑے وقت میں پیا جانے
والا صبر کا ایک گھونٹ آپکی زندگی میں ایک ایسا رس گھولتا ہے جس کی تاثیر
آپکی روح محسوس کرتی ہے۔دور حاضر میں ان سب کا فقدان ہر جگہ اور ہر رشتے
میں نظر آتا ہے۔ ہماری نئی نسل جذباتی اور جلد بازی جیسی صفات سے متصف نظر
آتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بس ہماری بات سنی جائے، دوسروں کو سننا اور برداشت
کرنا ہم نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ کوئی چیز نا ملے وقت پر تو شوہر غصے سے آگ
بگولہ ہوجاتا ہے، کوئی فرمائش پوری نا ہو تو بیوی میکے سدھار جاتی ہیں۔ آج
کے معاشرے میں طلاق ایک عام بات تصور کی جاتی ہے جہاں مکمل حقوق کا مطالبات
کرنا اہم سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنا اپنا حق
سمجھا جاتا ہے۔ کسی ایک حق کی ادائیگی میں بھی ذرا سی کوتاہی کرنا طلاق کی
وجہ بن جاتا ہے، اب وہ کوتاہی مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سیہو، کھانے
میں نمک تو طلاق، باہر گھومانے لے کر نہیں لے کر جاتے تو طلاق، بیوی کی شکل
اچھی تو طلاق، سوہر کی تنخواہ کم ہے تو طلاق،طلاق ایک ایسا حلال عمل جو اﷲ
کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ ہے، شریعت اس وقت اس کی اجازت دیتی ہے جب اس کی
اشد ضرورت ہو، سماجی برائی، معاشرتی برائی، نان نفقہ نا دینا، فرائض میں
کوتاہی کرنا، حق زوجیت ادا نہ کرنا یہ وہ اسباب ہین جب آپ طلاق لے سکتے ہیں
یا دے سکتے ہیں، لیکن آج دیکھا جائے اس کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا
ہے، وجہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا نا کرنا ہے۔
سب سے پہلے اچھی بیوی کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔۔ اچھی بیوی وہ ہوتی ہے
• جو اپنے شوہر کی فرمانبرداری اور خدمت گزاری کو اپنا فرض سمجھے
• جو اس کے حقوق کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے
• جو اپنے شوہر کے عیبوں کو نہیں بلکہ اس کی خوبیوں کو آگے رکھے
• جو اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے
• اپنے شوہر اور اسکے گھر والوں کی عزت کو اپنا فرض جانے۔
• شوہر اسکے گھر والوں کی غیبت سے ہر ممکن طور پر بچے۔
• اولاد کی تعلیم اور تربیت بہترین طرز پر کرے
• شوہر کے ہر دکھ درد میں اس کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کے لیے باعث راحت
و سکون بنے
• بے جا مطالبات اور خواہشات سے گریز کرے۔ کچھ نا ملنے پر طنز و طعنوں اور
زبان درازی سے پرہیز کرے
• شوہر کی دل آزاری اور نافرمانی سے بچے۔ شوہر گھر آئے تو مسکراہٹ کے ساتھ
اس کا خیر مقدم کرے
• شوہر جس چیز کو ناپسند کرے اس کو بخوشی چھوڑ دے۔ مشکل وقت میں لعن طعن
اور نا شکری کے الفاظ ادا کرنے سے گریز کرے۔
• بنا اجازت گھر سے باہر قدم نا رکھے۔
بیویوں کو ان ذمہ داریوں کو اپنائیں۔۔ اور ممکن کوشش کریں کہ اپنے رویے سے
شوہر کو تکلیف نا دیں۔
اب ذکر کر لیتے ہیں شوہر کی ذمہ داریوں کا۔۔
• بیوی کی ہر جائز خواہش کو پورا کرے اس کی زمہ داری کو احسن انداز سے سر
انجام دے
• بیوی کی اچھائیوں پر نظر رکھے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو نظر
انداز کرے۔
• غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے پیار محبت سے معاملے کو سلجھانے کی سعی کرے۔
• شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو تحفظ فراہم کرے
• شوہر کوئی ناگوار بات اگر دیکھ لے تو صبر سے کام لے
• شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو دین داری کی تاکید کرے
• اور ہر مصیبت کے وقت اسکا حوصلہ بڑھائے اور اسکا سہارا بنے۔
حل؟
طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات عدم برداشت، اعتماد کا نا ہونا ہے اور
گھریلو ناچاقیاں ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق سوشل میڈیا بھی ایک اہم وجہ
بنتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور شکوک و شبہات جنم
لیتے ہیں، سوشل میڈیا سیکھنے اور سکھانے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے لیکن
اس کا غلط استعمال آپکی زندگی کو تباہ کرسکتا ہے، آپ کے اہم رشتوں کو آپ سے
دور کرسکتا ہے
جو چیز دوری کا سبب بنے اسے چھوڑ دیں، کوشش کیجیے رشتوں کو بچائیے۔ اور ان
تمام لوگوں سے بچیے جو میاں بیوی کے غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں، ایسے لوگوں
کو دخل اندازی کا موقع ہی نا دیں، اپکا رشتہ اس قدر مضبوط ہو کہ کوئی غلط
بات آپ اپنے شوہر اور بیوی کے لیے سن ہی نا سکیں۔۔ ایک دوسرے کو سمجھیے
کیونکہ زوجین سے خاندان بنتا ہے، ایک دوسرے پر اعتماد کیجیے، ایک دوسرے کے
حقوق کی پاسداری کیجیے۔ طلاق سے صرف دو لوگ جدا نہیں ہوتے بلکہ دو خاندان
تباہ ہوجاتے ہیں، بچوں کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔کوشش کیجیے کہ اس معاشرتی
بگاڑ کو یہیں روک دیا جائے۔ معاشرے کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے
یاد رکھیے! ہر رشتہ وقت مانگتا ہے، وقت دیجیے اور زندگی کو پرسکون بنائیے۔ |