فقہ، اجتہاد اور تقلید ۔ ۲

فقہ اور اصول فقہ پر گفتگو کرنے کے بعد اب میں اجتہاد و تقلید کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرتا ہوں۔

اجتہاد
اجتہاد ازروئے لغت جہد، بمعنی "طاقت و مشقت" سے ماخوذ ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے مفہوم میں مشقت و طاقت اٹھانے میں انتہا کو پہنچنا بھی بتایا ہے۔ لسان العرب للامام علامہ ابن منظور میں اجتہاد کا مرادی مفہوم یہ بتایا ہے کہ حاکم کے پاس پیش آنے والے معاملے کو بطور قیاس کتاب و سنت پر پیش کرنا، نہ کہ اپنی ذاتی رائے جو کتاب و سنت کی روشنی میں نہ ہو۔

اور اصطلاح اصول میں کسی قضیہ کا حکم شرعی ظنی حاصل کرنے میں طاقت صرف کرنے کا نام اجتہاد ہے۔

اجتہاد کی حجیت
یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جب کسی مسئلے میں قرآن کریم یا سنت ثابتہ کوئی قطعی اور دو ٹوک فیصلہ صادر فرما دے تو پھر کسی کے لئے اجتہاد کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اجتہاد کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں قرآن و سنت میں صریح و منطوق اور واضح و قطعی حکم نہ ملے اور اجماع امت بھی نہ ہو۔ ایسی صورت میں اجتہاد کا حجت شرعیہ ہونا صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور ہر زمانے کے علمائے امت کے نزدیک مسلم ہے اور یہ چاروں مکاتب فکر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ان سے منسلک اہل سنت و جماعت کا اتفاقی مسئلہ ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اجتہاد کسی حکم مستقل کے اثبات کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دراصل قرآن و سنت کے جو احکام عام عقلوں کے لحاظ سے غیر ظاہر ہوں، متعلقہ پیش آمدہ مسئلے میں انہیں ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

تقلید
علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی تقلید کا لغوی معنی لکھتے ہیں:کسی کے گلے میں ہار ڈالنا، حاکموں کا کسی کے ذمہ کوئی کام سپرد کرنا، اونٹنیوں کے گلے میں کوئی ایسی چیز لٹکانا جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ ھدی ہیں۔

علامہ سید علی بن محمد جرجانی تقلید کا اصطلاحی معنی لکھتے ہیں:انسان اپنے غیر کی اس کے قول اور فعل میں اتباع کرے، اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ برحق ہے، دلیل میں غور و فکر اور تامل کیے بغیر، گویا کہ اتباع کرنے والے نے اپنے غیر کے قول اور فعل کا قلادہ (ہار) اپنے گلے میں لٹکایا اور بلا دلیل غیر کے قول کو قبول کرنا تقلید ہے۔

علامہ بحر العلوم لکھتے ہیں:بغیر حجت اور دلیل کے غیر کے قول کو قبول کرنا تقلید ہے۔ حجت سے مراد کتاب، سنت، اجماع اور قیاس ہے، ورنہ مجتہد کا قول مقلد کی دلیل ہے، جیسے عام آدمی مفتی اور مجتہد سے مسئلہ معلوم کرتا ہے۔

علامہ بحرالعلوم کی اس عبارت سے پتہ چلا کہ مجتہد کا قول مقلد کے لیے دلیل شرعی کے قائم مقام ہے کیونکہ وہ خود مصادرِ شریعت سے استنباطِ مسائل پر قدرت نہیں رکھتا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک علم طب سے ناواقف شخص طب کی کتابیں خرید کر اور ان کا مطالعہ کر کے اپنا علاج خود تجویز کرنے کے بجائے کسی طبیب کے علم اور تجربے پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے مشورے پر عمل کرے اور اس کی تجویز کردہ دوا استعمال کرے۔

طبقاتِ مجتہدین
مجتہد کے چھ طبقے ہیں:
۱۔ مجتہد فی الشرع وہ حضرات ہیں جنہوں نے اجتہاد کرنے کے قواعد بنائے، جیسے چاروں امام، یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ
۲۔ مجتہد فی المذہب وہ حضرات ہیں جو اصول میں تقلید کرتے ہیں اور ان اصول سے مسائل شرعیہ فرعیہ خود استنباط کر سکتے ہیں۔ جیسے امام محمد و امام ابو یوسف و امام ابن مبارک رحمہم اللہ تعالیٰ
۳۔ مجتہد فی المسائل وہ حضرات ہیں جو قواعد و مسائل فرعیہ دونوں میں مقلد ہیں، لیکن وہ مسائل جن میں ائمہ کی تصریح نہیں ملتی، ان کو قرآن و حدیث وغیرہ دلائل سے نکال سکتےہیں۔ جیسے امام طحاوی، امام قاضی خان اور شمس الائمہ سرخسی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ
۴۔ اصحاب تخریج وہ حضرات ہیں جو اجتہاد بالکل نہیں کر سکتے، ہاں ائمہ میں سے کسی کے مجمل قول کی تفصیل فرما سکتے ہیں، جیسے امام کرخی وغیرہ
۵۔ اصحاب ترجیح وہ حضرات ہیں جو امام صاحب کی چند روایات میں سے بعض کو ترجیح دے سکتےہیں۔ اسی طرح جہاں امام صاحب اور صاحبین کا اختلاف ہو تو کسی کے قول کو ترجیح دے سکتے ہیں، جیسے صاحب "قدوری" اور صاحب "ہدایہ"
۶۔ اصحاب تمیز وہ حضرات ہیں جو ظاہر مذہب اور روایات نادرہ، اسی طرح قول ضعیف اور قوی اور اقویٰ میں فرق کر سکتے ہیں کہ اقوال مردودہ اور روایات ضعیفہ کو ترک کر دیں، اور صحیح روایات اور معتبر اقوال کو لیں۔ جیسے صاحب کنز اور صاحب درمختار وغیرہ۔

جن میں ان چھ وصفوں میں سے کوئی بھی نہ ہو، وہ مقلد محض ہے، جیسے ہمارے زمانے کے عام علماء کہ ان کا صرف یہی کام ہے کہ کتاب سے مسائل دیکھ کر لوگوں کو بتا دیں۔

تقلید کی ضرورت
جیسا کہ پچھلے کالم میں بیان ہو چکا کہ اگرچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ عزوجل نے اصولی طور پر تمام احکام بیان کر دیئے ہیں، لیکن ہر شخص کے لیے عادتاً ممکن نہیں ہے کہ وہ بذات خود تمام احکام شرعیہ قرآن مجید کی آیات سے مستنبط کر سکے، کیونکہ اول تو قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے لغت عربی، صرف و نحو اور علم بلاغت کو حاصل کرنا ایک طویل اور صبر آزما کام ہے، پھر قرآن مجید میں بعض جگہ تو احکام صراحتاً امر اور نہی کے صیغہ سے بیان کیے گئے ہیں، اور بعض جگہ امر اور نہی کا صیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ مختلف اسالیب سے کسی چیز کا وجوب یا تحریم سمجھ میں آتی ہے جس کو جاننے کے لیے بہت باریک بینی اور دقت نظری کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی قرآن مجید بعض اوقات کسی مسئلہ کی علت بیان کر دیتا ہے اور اس کی شرائط اور موانع ذکر نہیں کرتا، نہ اس کی تمام جزئیات بیان کرتا ہے، اور ان تمام جزئیات اور تفصیلات کو جاننا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یونہی قرآن مجید میں کبھی کوئی حکم اجمالاً بیان کیا جاتا ہے جس کی تفصیل متعین کرنے کے لیے چھان بین کرنا عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے۔

اسی طرح ایک شخص کے لیے احادیث سے احکام مستنبط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ احکام سے متعلق احادیث پر اسے عبور حاصل ہو، کیونکہ جس حدیث پر وہ عمل کر رہا ہے، ہو سکتا ہے دوسری جگہ اس کے خلاف حدیث ہو جس سے وہ حکم منسوخ ہو گیا ہو، یا اس حدیث کے حکم کی تفصیل دوسری حدیث میں موجود ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی مسئلہ میں حدیث نہ ملنے کی بناء پر وہ قیاس کر رہا ہو حالانکہ اس مسئلہ میں حدیث موجود ہو، اس لیے احادیث سے احکام حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ احکام سے متعلق تمام احادیث اس کی نظر میں ہوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث سے احکام حاصل کرنے کے لیے جس وسعت علم اور دقت نظری کی ضرورت ہے یہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں، اس لیے عام آدمی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرے۔

امام غزالی علیہ الرحمہ نے عام آدمی کی تقلید پر دو دلیلیں قائم کی ہیں۔ ایک یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اس بات پر اجماع تھا کہ وہ عام آدمی کو مسائل بتاتے تھے اور اس کو یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ درجہ اجتہاد کا علم حاصل کرے ، اور دوسری دلیل یہ قائم کی ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ عام آدمی احکام شرعیہ کا مکلف ہے، لیکن اگر ہر آدمی درجہ اجتہاد کا علم حاصل کرنے کا مکلف ہو تو زراعت، صنعت و حرفت اور تجارت بلکہ دنیا کے تمام کاروبار معطل ہوجائیں گے، کیونکہ ہر شخص مجتہد بننے کے لیے دن رات علم کے حصول میں لگا رہے گا، اور نہ کسی کے لیے کچھ کھانے کو ہو گا نہ پہننے کو اور دنیا کا نظام برباد ہو جائے گا اور حرج عظیم واقع ہو گا اور یہ بداہۃً باطل ہے، اور یہ بطلان اس بات کے ماننے سے لازم آیا کہ عام آدمی درجہ اجتہاد کا مکلف ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ عام آدمی درجہ اجتہاد کا مکلف نہیں ہے اور عام آدمی پر مجتہدین کی تقلید لازم ہے۔

تقلید کن مسائل میں کی جائے؟
شرعی مسائل تین طرح کے ہیں:
۱۔ عقائد:
عقائد میں کسی کی تقلید جائز نہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ توحید و رسالت تم نے کیسے مانی، تو یہ نہ کہا جائے گا کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے بتانے سے، بلکہ دلائلِ توحید و رسالت سے۔

امام غزالی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اعتقادی مسائل میں اجتہاد نہیں کیا جاتا کیونکہ ان میں نظریاتی اختلاف جائز نہیں، نہ تمام نظریات حق ہیں، صرف ایک نظریہ حق اور صحیح ہے اور باقی باطل اور غلط ہیں، اور صحیح نظریہ کا حامل ہی فکر صحیح کا حامل ہے اور باقی گنہگار ہیں۔ اس لیے اجتہاد کے دائرہ میں صرف مسائل فرعیہ عملیہ ہیں جن میں اختلاف کرنے والا گنہگار نہیں ہے۔ اگر اس کی فکر صحیح نتیجہ پر پہنچی تو ا س کے لیے دو اجر ہیں، ورنہ ایک اجر ہے۔

۲۔ وہ احکام جو صراحۃً قرآن و حدیث سے ثابت ہوں اور اجتہاد کو ان میں دخل نہ ہو:
صریح احکام میں بھی کسی کی تقلید جائز نہیں۔ پانچ نمازیں، نماز کی رکعتیں، تیس روزے، روزے میں کھانا پینا حرام ہونا، یہ وہ مسائل ہیں جن کا ثبوت نص سے صراحۃً ہے،اس لیے یہ نہ کہا جائے گا کہ نمازیں پانچ اس لیے ہیں یا روزے تیس اس لیے ہیں کہ فقہ اکبر میں لکھا ہے یا امام اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے، بلکہ اس کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل دیے جائیں گے۔

۳۔ وہ احکام جو قرآن یا حدیث سے استنباط اور اجتہاد کر کے نکالے جائیں:
ان میں غیر مجتہد پر تقلید کرنا واجب ہے۔
تقلید کس پر واجب ہے؟
مقلد مسلمان دو طرح کے ہیں، ایک مجتہد دوسرے غیر مجتہد۔ مجتہد وہ ہے جس میں اس قدر علمی لیاقت اور قابلیت ہو کہ قرآنی اشارات و رموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکےاور اس سے مسائل نکال سکے، ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا ہو، علم صَرف و نحو و بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو، احکام کی تمام آیات اور احادیث پر اس کی نظر ہو، اس کے علاوہ ذکی اور خوش فہم ہو۔ جو اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیرمجتہد یامقلد ہے۔ غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے جبکہ مجتہد کے لیے تقلید منع ہے۔
کیا میں تقلید کروں؟

کسی نے بڑی عمدہ بات لکھی کہ اگر میں خود کو مقلد کہوں تو مجھے اندر سے اچھا نہیں لگے گا کہ عقل و شعور ہوتے ہوئے میں دوسرے کا متبع بن جاؤں۔ اور اگر یہ کہوں کہ مجتہد ہوں تو میرا ضمیر میرے جھوٹ پر مجھے ملامت کرے گا۔ موجودہ دنیا میں تقلید و اجتہاد کی ساری لڑائی دراصل انہی دو احساسات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ جنہیں ضمیر کی ملامت پسند نہیں، وہ بخوشی اس کمتر احساس کو قبول کر لیتے ہیں کہ میں دوسرے کا متبع ہوں، اور جن کی انا متابعت کے لئے کسی طور راضی نہیں ہوتی انہیں ناچار ضمیر کی ملامت برداشت کرنا پڑتی ہے۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.