'نجی و غیر نجی تعلیمی نظام''

مجھے شروع سے عادت رہی ہے لوگوں سے ملنا جلنا باتیں کرنا،انکی گزری زندگیوں سے حاصل کیئے گئے انکے تجربات کو بغور سننا،پرکھنا،جانچنا اور اپنی روزمرہ زندگی میں انھیں لاگو کر کے مستفید ہونا
یہ تمام تر کام میری زندگی کے مشاغل میں سے ایک رہے ہیں اور الحمدللہ آج بھی ہیں
کافی عرصہ پہلے ہمارے گاؤں میں ایک پرائیویٹ اسکول کا افتتاح ہوا،شہر والوں کیلیئے تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوتی ہو گی
کیونکہ
وہ کہتے ہیں نا
''گھر کی مرغی دال برابر''
اب جہاں ان گنت اسکولز ہوں وہاں ایک آدھ نئے کے آنے سے بننے سے کیا فرق پڑے گا
مگر یہ ہمارے گاؤں کیلیئے سب نیا تھا کیونکہ ہم نے شروع سے اپنے گاؤں میں ایک ہی سرکاری اسکول دیکھا تھا جس کی حالت کسی گائے بھینس باندھنے والے باڑے سے کم نہ تھی دن میں وہاں بجے پڑھتے تھے سہہ پہر کو لوگوں کی بھینس بکریاں وہاں گھاس چرتی تھیں
خیر پرائیویٹ تو پرائیویٹ ہوتا ہے اسکی بلڈنگ،اسکا باادب با سلجھاؤ سٹاف اسکا اپنا ایک الگ پہچان رکھنے والا یونیفارم ہمارے گاؤں میں چارو اور اسکی دھوم یوں پھیلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کھچا کھچ بچوں کے دخول سے بھر گیا
خیر دن بیتتے گئے
اک دن عادت سے مجبور تحقیقات کی پیاس لیئے میں اس پرائیویٹ اسکول کے مین گیٹ پر جا کھڑا ہوا گیٹ کیپر نے بڑی تپاکی سے میرا استقبال کیا اور مرے آنے کی وجہ جاننے کے بعد مجھے پرنسپل کے آفس تک چھوڑ کر واپس اپنی جگہ آ بیٹھا
پرنسپل سے سلام دعا کے بعد آہستہ آہستہ باتیں کرتے کرتے باتوں سے باتیں نکالتے باتوں کا پہلوں بدلتے میں آن اس سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی نظام کے دہانے پر کھڑا ہوا
آپ کو بتاتا چلوں
''مجھے خداداد صلاحیت بھی عطا ہے میں آدمی کے چہرے پر سے اسکے دل کا حال جان لیتا ہوں''
چونکہ مجھے اپنی تحقیق کی گہرائی میں جانا تھا اور اس کیلیئے ضروری تھا اس گہرائی کو بھانپنے کیلیئے اس میں چھال لگانا
پرنسپل صاحب سے باتیں کرتے کرتے میں نے بچوں اور باقی ٹیچرز سے ملنے کی خواہش ظاہر کر دی
کیونکہ مجھے جاننا تھا کہ آخر کیا ہوتا ہے ایسا ان پرائیوٹ اسکولوں میں جو سرکاری میں نہیں ہوتا
یہ سننا تھا کہ انکے ماتھے کے شکن ایک دم سے سکڑ کر پل بھر میں ٹھیک ہو گئے
پھر مجھے ''شؤر'' کہہ کر آفس کا بیک ڈور اوپن کر کے ''لیٹس کم''کہہ کر آگے بڑھ گئے میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا
جونہی اسکول کے گراؤنڈ میں انٹر ہوا تو مانو کہ روح خوش ہو گئی ہو کیا ویل ڈریسنگ بچے شرٹ پینٹ میں ڈالے گلے میں ٹائی لگائے ادھر ادھر پھر رہے تھے چونکہ جب ہم داخل ہوئے وہ ''ریسس'' ٹائم تھا بچوں کے جھنڈ سے نکلتے انکے چہرے کی مسکان دیکھتے ہم لوگ آگے بڑھتے چلے گئے
یہاں تک کہ ہم لوگ ٹیچرز کے ٹیبل کے عین پاس پہنچ کھڑے ہوئے پرنسپل صاحب میرا تعارف کرواتے ہوئے گویا،ہوئے یہ صاحب آج ہمارے اسکول کا نظم و ضبط چیک کرنے آئے ہیں خیال رہے انھیں کسی قسم کی دقت نہ ہو
تمام ٹیچرز نے طے دل سے میرا استقبال کیا اور ادھر خود کے پاس ہی میرے لیئے ایک کرسی کا انتظام کیا
وہاہی بیٹھے گپے ہانکتے ریسس ٹائم اوور ہو گیا سبھی ٹیچرز نے مجھ سے اجازت چاہی اور میں وہاں سے اٹھ کھڑا ہو کر دوبارہ پرنسپل آفس کی جانب کو ہو لیا
ابھی ایک ''مین چیز''باقی تھی اور وہ تھی ''اخراجات'' کہ درجہ اول سے لے کر درجہ دہم تک کے بچہ کے کتنے اخراجات ایک بچہ کے والدین ادا کرتے ہیں
کیونکہ پرائیویٹ اسکولز و کالجز کا باقاعدہ ایک ''پراسپیکٹس'' ہوتا ہے جس پر اس اسکول اس کالج کے تمام تر اخراجات کی تفصیل درج ہوتی ہے
پرنسپل صاحب نے مجھے تھماتے ہوئے خود کسی کام میں جت گئے
میں نے کتاب ہاتھ میں تھامے اسکے پنے الٹنے لگا کچھ پل پڑھنے کے بعد کتاب کو سامنے رکھے میز پر رکھ کر پرنسپل صاحب سے اجاز لے کر وہاں سے روانہ ہو گیا
اب میرا اگلا قدم سرکاری اسکول کی جانب تھا کیونکہ مجھے دونوں اسکول کا موازنہ کرنا تھا کہ آیا کہ کیا ہے ایسا پرائیویٹ اسکول میں جو سرکاری اسکول میں نہیں
اگلے دن صبح صادق قریب نو بجے کے میں سرکاری اسکول کے گیٹ پر کھڑے گیٹ کیپر سے مصافحہ کر رہا تھا
مگر اس مصافحہ اور اس پرائیویٹ اسکول کے گیٹ کیپر کے ساتھ کیئے گئے مصافحہ اور ملنے والی تپاکی میں زمین و آسمان کا فرق تھا
جیسا کہ آپ جانتے ہیں سرکاری اسکولز میں بن اجازت کے بھی ہر کوئی داخل ہو سکتا ہے میں گاؤں کے سرکاری اسکولوں کی بات کر رہا ہوں شہر والوں کی نہیں وہاں کے رولز الگ ہیں مگر وہ رولز ہمارے گاؤں میں لاگو نہیں ہوتے
خیر دروازے سے داخل ہو کر جونہی چارو اور نظر دوڑائی سامنے رنگ برنگے ہرے،پیلے،نیلے رنگوں سے آنکھیں تلملا اٹھیں حالانکہ سرکاری اسکول کا بھی پراپر ایک یونیفارم ہوتا ہے مگر سرکاری ہوتا ہے نا شاید اس لیئے کوئی اسے پہننا گوارا نہیں کرتا
ادھر ادھر دیکھتے چلتے چلتے سامنے جھنڈ کی شکل میں کرسیوں پر بیٹھے ٹیچرز کے پاس جا پہنچا سلام دعا کے بعد ایک جاننے والے ٹیچر کے علاوہ مجھے وہاں کسی نے منہ لگانا بھی گوارہ نہ سمجھا
اسی سی بچوں کی تعلیمی نظام کی رپورٹ لے کر تحقیق کی آدھ ادھوری پیاس بجھی چھوڑ جیسا منہ لے کر گیا تھا ویسا ہی لے کر گھر کو لوٹ آیا
مجھے فرق صاف پتہ چل چکا تھا کہ آخر وہ کیا ایسی وجہ تھی جس کی بدولت سب کی توجہ اس پرائیویٹ کی جانب مبذول تھی
وہ تھا ''نظم و ضبط'' وہ تھے ''قوائد و قوانین'' وہ تھا ''با سلجھاؤ سٹاف'' وہ تھا ''دل بہلاؤ رویہ''یہ سب چیزیں جب ایک انسان کو ایک چھت تلے مل جاویں نا تو انسان اس چھت کا دل و جان سے گرویدہ ہو جاتا ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ سرکاری اسکولز میں تعلیم نہیں ہے مگر وہاں مطمئنی نہیں ہے جب والدین بچے داخل کروانے جاتے ہیں نا تو ایک با منظم برتاؤ بچوں کے والدین کو اس بات پر رضامند کر دیتا ہے کہ ہاں یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمارا بچہ پرسکون ہو کر پڑھ سکے گا رہ سکے گا
مگر ہمارے سرکاری اسکولوں کے ٹیچرز کو نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم پر احسان کر رہے ہیں جو بچوں کو پڑھا رہے ہیں آخر وہ کیوں یہ نہیں سوچتے کہ جو تنخواہ حکومت انھیں دیتی ہے وہ اسی بات کی دیتی ہے کہ ان بچوں کا مستقبل سنوارا جائے نہ کہ یہ سوچتے ہوئے بگاڑا جائے کہ
''ہمیں تو مہینہ کے آخر میں تنخواہ مل جانی ہے یہ جائیں بھاڑ میں''
جانتے ہو ہر والدین کا خواب ہوتا ہے
کہ اسکا بچہ بھی پرائیوٹ اسکول و کالجز میں پڑھے مگر جب جیب ساتھ نہ دے پھر یہ سوچ کر کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ تو ہونا بہتر ہے ان کے پاس بچتا ہے سرکاری سکول کا آپشن
جانتے ہو
ہم بچپن سے اک تین لفظی قول سنتے آ رہے ہیں
''تعلیم زیور ہے''
مگر کس کیلیئے صرف پیسوں والوں کیلیئے؟؟ یا اپروچ والوں کیلیئے؟؟کیا صرف وہی اسے زیب تن کر سکتے ہیں؟؟؟جہاں دیکھو اسکول و کالجز کی فیسز ہیں کہ سر چڑھ کر بول رہی ہیں
میں التجا کروں گا ان پرائیوٹ اسکولز سے کہ اپنی فیسز اس قدر مناسب کر لیں کہ ایک دیہاڑی دار بندہ بھی اگر آپ کے اسکول میں اپنے بچے کو پڑھانا چاہے تو با آسانی پڑھا سکے۔۔۔۔۔

 

Saleem Saqi
About the Author: Saleem Saqi Read More Articles by Saleem Saqi: 21 Articles with 29284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.