اُردو کا مستقبل؟

 کچھ افراد لٹھ اٹھا کر اردو کے پیچھے پڑے تھے،کئی تضحیک پر اُتر آئے، دراصل ایک اخبار کی شہ سُرخی زیرِ بحث تھی، اخبار نے لکھا ’’کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے ایمنسٹی‘‘۔ کسی نے کہا اردو صحافت میں اردو کتنی رہ گئی۔ جواب میں بہت سے لوگوں نے انگریزی کے اِن الفاظ کے اردو لغات میں سے معانی تلاش کئے اور پورے طنزیہ انداز میں منظرِ عام پر لائے۔ کسی نے اپنے تبصرہ میں کہا کہ’’ اردو ارتقائی مراحل میں ہے، یہ انگریزی کے الفاظ اپنے اندر سموتی رہے گی، اگر لوگوں کو ان الفاظ کی اب سمجھ نہیں آتی تو آئندہ آجائے گی‘‘۔ اُردو کی یہ خوبی کہ یہ ہر زبان کو اپنے دامن میں سمو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، بسا اوقات خامی معلوم ہونے لگتی ہے۔اگرچہ اردو کا وجود ہی مختلف زبانوں کے ملاپ سے قائم ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لشکری زبان کہلواتی ہے، اس پر عربی ، فارسی اور انگریزی کے اثرات سب سے زیادہ دیکھنے میں آئے ، ایسا کیوں نہ ہوتا کہ برِ صغیر پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کی زبان کے اثرات کو بھلا کون روک سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو زبان کی مٹھاس میں سب سے زیادہ کردار فارسی اور عربی کا تھا، اور اسے خراب کرنے میں اہم کردار انگریزی کا ہے۔

اردو میں انگریزی کے عمل دخل کو روکنا ممکن نہیں، اور اس کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ بے شمار ایسے الفاظ موجود ہیں، جن کا متبادل ماہرین بھی تلاش نہیں کر سکے۔ اسی لئے عربی اور فارسی کی طرح انگریزی بھی اردو میں شامل ہے۔ مثلاً اگر کسی کو سینئر صحافی کہا جائے تو وہ خوش ہوتا ہے اور اگر بزرگ صحافی کہہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اُردو میں شِیر و شکر ہو جانے والے انگریزی کے الفاظ کے متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی حکومت اردو رائج کرنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے، یا کوئی عدالت اردو کو نافذ کرنے کا حکم صادر کرتی ہے۔ تب جا کر اتھارٹی کے لئے مقتدرہ جیسے الفاظ کشید کئے جاتے ہیں اور سرکاری طور پر حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے۔ کچھ چیزوں کے نام، کچھ اصطلاحات اور روزمرہ کے بہت سے الفاظ اگر انگریزی کے اردو میں داخل ہو گئے ہیں اور انہیں لوگوں نے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ ان کے بدلے میں اردو کا کوئی مناسب لفظ بھی انہیں دستیاب نہیں تو ایسے الفاظ کو کھلے دل سے قبول کیا جانا چاہیے۔

اصل پریشانی یہ ہے کہ اچھی بھلی اردو میں انگریزی کے ایسے الفاظ ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے، جن سے نہ تو عام قاری کو بات کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی جملے کی کوئی ترتیب بنتی ہے۔ اگر مندرہ بالا(زیر بحٹ شہ سرخی) کی جگہ ’’تعمیراتی صنعت میں خصوصی رعایت‘‘ وغیرہ لکھنے کا اہتمام کیا جاتا تو عام آدمی بھی اس کو آسانی سے سمجھ سکتا تھا، مگر اپنے ہاں یہ مسئلہ بھی ہے کہ کسی بڑے کے بیان کا ترجمہ کرنے کی ہمت نہیں کی جاتی، یا ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ، یا بڑے صاحب کی زبان سے جو جملہ نکلا اُس کو تبدیل کرنا بھی خیانت جانا گیا۔ بول چال کی زبان اور ہوتی ہے، خبر کی زبان اور۔ مگر کیا کیجئے کہ خبر بنانے والے اور اس کی تراش خراش کرنے والے گزر گئے۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ، نئے آنے والے ترجمے وغیرہ کے تکلفات میں نہیں پڑتے۔

دنیا چونکہ ’’گلوبل ویلیج‘‘ بن چکی ہے، اس لئے کیا کیا جائے کہ ایک گاؤں میں رہتے ہوئے سماجی روابط بھی رکھنے پڑتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ گھل مل کر بھی رہنا پڑتا ہے، اور اگر پرانے ماحول کو دیکھا جائے تو گاؤں کے نمبردار کی بھی ماننی پڑتی ہے، گاؤں کے معاشی نشیب وفراز کی وجہ سے ہر گھر کی اپنی حیثیت ہوتی ہے۔ یہ سب چلتا ہے، مگر گلوبل ویلیج میں رہتے ہوئے اپنے گھر کو تو اپنی مرضی سے چلایا جاسکتا ہے، گھر میں تو اپنی زبان بولی جاسکتی ہے۔گلوبل ویلیج میں آئے روز نئی نئی اصطلاحیں بھی سامنے آتی ہیں، کوئی نئی چیز بن گئی یا نئی بیماری یا وائرس آگیا، تو ایک ہی نام سے پوری دنیا میں جانا گیا، یہاں تک بھی درست ماناجا سکتا ہے۔ مگراپنی روز مرہ کی زبان کو بہت ہی مشکل انگریزی الفاظ سے آلودہ کرنا یقینا ذہنی غلامی کی علامت ہے۔ جسے انگریزی پر کچھ بھی عبور حاصل ہے اور وہ ذرا درست لہجے میں چار جملے بول لیتا ہے، ہر کوئی اس سے متاثر ہی نہیں مرعوب بھی ہو جاتا ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام میں بھی انگریزی کا بے حد عمل دخل ہے، کبھی ابتدا سے انگریزی تعلیم کا حکم جاری ہو جاتا ہے تو کبھی یہ رعایت چھٹی جماعت تک مل جاتی ہے۔ پھر انگریزی پڑھانے والے بھی واجبی سی تعلیم ہی رکھتے ہیں، نہ اُن کا لہجہ درست ہوتا ہے نہ ہی تلفظ۔ کم تعلیم یافتہ لوگ بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں، جس سے وہ طلبہ کو اپنے جیسا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیتے ہیں۔ اگر اردو کے ساتھ یہی رویہ رہا تو آنے والے وقتوں میں اردو ڈھونڈے نہ ملے گی۔ عجیب بے بسی ہے کہ قوم کو انگریزی آتی نہیں، مگر انگریزی کے پیچھے اپنی زبان بھی گنوا رہے ہیں۔ انگریزی ضرورت ہے، ضرور سیکھیں، پڑھیں، بولیں، مگر خدارا اُردو کا حلیہ نہ بگاڑیں، جہاں تک اردو میں آسان متبادل الفاظ موجود ہیں، اُن کو تو زندہ درگور نہ کریں۔ ہم لوگ مادری زبانوں کو تو نہیں بچا سکے، قومی زبان کو بچانے کی کوئی سبیل نکل آتی۔ خوف آتا ہے، اب نہ اردو لکھائی کا خیال ہے، نہ الفاظ معانی کا کسی کو علم ہے اور نہ ہی گرامر کی کوئی بات دکھائی دیتی ہے، اور تو اور ’’قومی زبان‘‘ کو حکومتی ، عدالتی یا عوامی سرپرستی بھی حاصل نہیں ہے، اردو کے مستقبل سے خوف آتا ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473193 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.