مالی منفعت کی ہوس

پاکستان ایک ایسا خطہِ ارضی ہے جس میں چند مخصوص خاندانوں کا سکہ چلتا ہے۔قوانین کا اجراء و نفاذ ان کی میلانِ طبع کے مطابق متشکل ہو تا ہے اور ریاست کے سارے اہم فیصلے ان کی منشاء اور حواہش کے مطابق رو بعمل آتے ہیں۔در اصل یہ چند مخصوص خاندان مقتدر حلقوں کے باجگزار ہوتے ہیں اس لئے وہ ہمیشہ محفوظ و مامون رہتے ہیں۔پاکستان میں اقتدار کے کھلاڑیوں سے باز پرس کا کوئی طریقہ کار (میکنزم) تشکیل نہیں پاسکا۔وقتی طور پر چند چنگاریاں ضرور ارتعاش پیدا کرتی ہیں لیکن فضا میں کوئی واضع شکل اختیار کرنے سے قبل ہی بجھ جاتی ہیں ۔ اشرافیہ کے چالاک افراد ایسے بادِ مرغ نما ہوتے ہیں جوہواؤں کا رخ پہچان کر اپنی اڑانیں بھرتے ہیں۔وہ چند غیبی اشاروں سے اپنے گھونسلوں کا انتخاب کر تے ہیں کیونکہ انھیں قبل از وقت بتا دیا جاتا ہے کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بٹھایا جانا طے پا چکا ہے لہذا وہی گھونسلہ ان کا مقصدو مدعا قرار پاتا ہے جہاں پر ہما کا نزول ہونا قرار پا چکا ہو تا ہے۔انھیں کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا کیونکہ ان کا دامن محبت کے پھولوں سے بالکل تہی ہوتا ہے۔جنرل پرویز مشرف ہو، میاں محمد نواز شریف ہو یا پھر آصف علی زرداری ہو انھیں سب کے ساتھ چلنے کا سلیقہ آتا ہے۔وہ عمران خان کی آنکھ کا کا تارا بھی بن جاتے ہیں اور چوہدری برادران سے بھی اپنے تعلق میں ضعف نہیں آنے دیتے۔وہ متضاد کیفیتوں میں زندہ رہنے کا ہنر جانتے ہیں اسی لئے بقا کی جنگ میں ان کے پاؤں نہیں ڈگمگاتے۔پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے ہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور اگلی کئی دہائیوں تک اس سلسلہ کو دراز رہنا ہے۔اسے کوئی بدل نہیں سکتا کیونکہ بدلنے والوں سے نافذ کرنے والے زیادہ طاقتور ہیں لہذا اس روش کا تسلسل قائم و دائم رہیگا ۔جو کوئی بدلنے کا سوچتا ہے اس کی کشتی بیچ بھنور میں طوفانوں کی نذر کر دی جاتی ہے۔ مقتدر حلقوں کے باجگزاروں میں بزنس مین،کاشتکار ، جاگیردا ر ، صنعتکار ، وڈیرے ، علماء ،صحافی،قلمکاراور سیاستدان ہوتے ہیں لہذا راوی سکھ چین لکھ رہا ہے۔آقا کی جنبش آبرو جو اشارہ کریگی وہی دکھایا جائیگا ،جسے بنا نا مقصود ہو گا اسے بنایا جائیگا اور جسے ہٹا نا مقصود ہو گا اسی کو ہٹایا جائیگا ۔ ایک طے شدہ رحجان(پیٹرن) ہے جو اپنی رفتار سے گامزن ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا خلل اور رخنہ اندازی ناقابلِ برداشت ہے ۔ ہٹائے جانے اور گرائے جانے کے ان کے اپنے طریقے ہیں۔ ہر دفعہ انداز نیا اور اچھوتا ہو تا ہے جسے عوامی اذہان میں کاشت کر دیا جاتا ہے۔میڈیا چونکہ ان کی گرفت میں ہوتا ہے لہذا پروپیگنڈہ اس حد تک کیا جاتا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ ذہین و فطین راہنما کی شہرت داغددار ہو جاتی ہے اور وہ روہا نسا ہو کر رہ جاتا ہے۔اسے خود سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے ؟۔عوامی مینڈیٹ،عوامی رائے،عوامی پسندیدگی ، عوامی محبت اور انتخابی برتری کا زعم ہوامیں تحلیل ہو جاتا ہے ۔ اقتدار کی ہنڈیا ایک ہی جھٹکے سے بیچ چوراہے میں پھوڑ دی جاتی ہے۔کبھی توہینِ عدالت کی تلوار چلتی ہے ، کبھی کرپشن کا سانپ ڈس لیتا ہے اور کبھی پانامہ کا رسہ گلے کا پھندا بن جا تا ہے۔ووٹ کو عزت دو کا نیا بیانیہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن پھر وہی پسپائی لہذا معافی نامہ لکھنے کے بعد زندان سے رہائی کا اذن ملتا ہے۔جو لوگ آہنی ہاتھوں کے باجگزار ہوتے ہیں ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ان کا کام لگائی گئی صدا اور دئیے گے حکم کے اوصاف گنوانا ہوتا ہے۔ حکم کی بجا آوری پر انھیں مالی منفعت اور آسودگی سے نوازا جاتا ہے۔وزارتی قلمدان بخشنے کے ساتھ ساتھ ان کی جیبیں ڈالروں سے بھری جاتی ہیں۔انھیں وزارتوں سے اسی لئے سرفراز کیا جاتا ہے کہ وہ ہاں میں ہاں ملائیں ۔انھیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے تا کہ وہ زیادہ دلجمعی سے اپنا فریضہ سر انجام دیں ۔ انپ نکل جائے تو پھر لکیر پیٹنے سے کیا ہوتا ہے ؟ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔انکوائریاں اور کمیشن بٹھائے جاتے ہیں لیکن ان خاندانوں کی مرکزیت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔وہ بڑے دھڑلے سے دھندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کی جانب دیکھنے کی جرات نہیں کر تا کیونکہ ان کی پیٹھ پر ایسی انجانی طاقت کھڑی ہوتی ہے جس سے سارے خائف ہوتے ہیں اور جس کی قدم بوسی میں ہی سب کی بقا ہو تی ہے ، شوگر مافیا ،کاٹن مافیا،گندم مافیا ،سیمنٹ مافیا، پاور مافیا،آئل مافیا اپنی جگہ پر موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔کاروباری دنیا نفع و نقصان کے اصولوں پر چلتی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں فیصلے کرنے والے معتبر اپنے ذاتی کاروبار سے سودو زیان کے عنصر کو کھرچ کر نکال باہر کریں اور ایک ایسے درویش صفت انسان کا روپ دھارن کر کے نمودار ہوں جس کا مقصدِ اولی انسانیت کی خدمت قرار پائے ۔ اس کی منافع خوری کی جبلت پسِ پشت چلی جائے۔ وہ کاروبار کو خیراتی ادارے کی مانند چلانے کا انداز اپنائے اور ایک مصلح کی طرح سب کچھ دوسروں پر نچھاور کر نے کا رول ماڈل بن جائے ۔ انسانوں کا خون چوسنے والی جونکوں سے انسانی تکریم کی امیدرکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار کو وسعت دینا اور اپنی مالی منفعت کو ہر حال میں قائم رکھنے کی تراکیب اختیار کرنی پڑتی ہیں ۔ان کی ساری پلاننگ منافع سازی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہے جس کیلئے وہ تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے۔ ان کا سارا زور ذاتی منافع پر ہوتا ہے لہذا اس کیلئے وہ جتن کرتے ہیں،اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں ،حکومتی مشینری کو استعمال کرتے ہیں،اپنی سیاسی پوزیشن کا زور آزماتے ہیں، ذاتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہیں اور سرکاری عہدوں کی قوت سے ذاتی منفعت میں رنگ بھرتے ہیں۔ حکومتیں انھیں سہولیات مہیا کرتی ہیں کیونکہ کاروبار کی وسعت میں ریاست کی قوت پنہاں ہو تی ہے۔ہمارے سامنے چین کی مثال ہے جو اپنی تجارتی قوت سے پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور نئی سپر پاور بننے کیلئے پر تول رہا ہے۔ امریکہ سے اس کی مخاصمت کی اصل وجہ تجارت میں اس کی روز افزوں ترقی ہے ۔ کاروبار ی وسعت سے عوام کو روزگار کی سہولت حاصل ہو جاتی ہے لہذا حکومت کی بھی پہلی ترجیح تجارت میں وسعت قرار پاتی ہے۔کاروباری حضرات کو نقصانات کی دلدل سے بچانے کیلئے حکومت انھیں سبسڈی دیتی ہے،ان کیلئے ربیٹ کا اعلان کرتی ہے ، انھیں کم سود پر قرضے فراہم کرتی ہے ، ان کیلئے دلکش پیکج بناتی ہے اور انھیں تمام ممکنہ سہولیات سے نوازتی ہے۔یہ کسی ایک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی ساری ریا ستیں کاروباری حضرات کو لاڈ پیار سے رکھتی ہیں۔بے روزگا ری کے خاتمہ کیلئے کاروباری حضرات ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ابھی چند دن قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے تعمیراتی سیکٹر کیلئے ہوش ربا سہولیات کا اعلان کیا ہے جس کا واحد مقصد اس صنعت کو فر وغ دینا ہے جس کیلئے بلیک منی کی تخصیص بھی ہٹا دی گئی ہے حا لانکہ کل تک عمران خان پچھلی حکومتوں پر بلیک منی کو وائٹ کرنے کی پھبتی کستے رہتے تھے ۔سر پرپڑی تو اپنی ہی تنقید کو پسِ پشت ڈالنا پڑ گیا کیونکہ مراعات کے بغیر کاروباری دنیا کو سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کرنا ممکن نہیں رہا ۔اب اگر کل کو یہی حکومت اپنی دی گئی مراعات سے فیض یاب ہونے والوں کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کر لے تو کیا اسے احتساب کا نام دیا جا سکتا ہے ؟بالکل نہیں لیکن بد قسمتی سے اپنے مخالفین کو اپنی ہی اعلان کردہ مراعات پر مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔،۔

 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.