اس شہر میں اس مزدور جیسا کوئی دربدر نہیں جس نے سب کے
گھر بنائے اس کاکوئی گھر نہیں
پتیل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
ہر سال یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے، یہ دن امریکہ کے شہر شگاگو میں
1884ء میں سرمایہ دار کے خلاف محنت کشوں کی کوشش کو یاد دلاتا ہے، جان دینے
والے مزدوروں نے اپنا حق مانگا اور تسلیم کروایا۔ان کے خون،کوشش، قربانی
اور پسینے نے اس د ن کی بنیاد رکھی۔ یوم مزدور یعنی مزدور کا دن، آسان
الفاظ میں جو سرمایہ دارانہ نظام کو مزید طاقتور بنانے میں جس کا مین کردار
ہے وہ ایک مزدور ہے، یہ وہ مزدور جس کا روزانہ کسی نہ کسی شکل میں استحصال
ہوتا رہتا ہے۔ اور وہ بیچارہ سہنے پر بھی مجبور ہے۔ سال میں بہت سے دن
منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں کی یاد میں کہیں پھول پیش کیئے جاتے ہیں، کہیں کیک
کاٹے جاتے ہیں تو کہیں سلام پیش کیئے جاتے ہیں۔ لیکن مزدور کے عالمی دن کے
موقع پر مزدور وں کو پھول پیش کرنے یا ان کی عظمت کو سلام کرنے کے لیے کبھی
کوئی سرمایہ دار سامنے نہیں آیا اگر نہیں تو پھر یہ یوم مزدور کس بلا کا
نام ہے۔ عین ممکن ہے یوم مزدور کے روز ترقی یافتہ قومیں، مزدور کو انسان
اور صنعت کاری کا ایک اہم پروزہ جانتے ہوئے مزدور کی عظمت اور اس کی محنت
کو سراہا جاتا ہو لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مزدوروں کے گلوں میں پھولوں کے ہار ہوں کے ان کے
گھروں میں ایک ایک ماہ کا راشن پہنچایا جائے اور ان کو محسوس ہو کہ وہ بھی
معاشرے کا ایک کارآمد کارکن ہے، سرمایہ دار اس کی قدر کرتا ہے، لیکن یہ
کیسا مزدور ڈے ہے کہ مزدور آج بھی اپنے پاپی پیٹ اور بچوں کے بہتر مستقبل
کی خاطر مزدوری کے لیے مزدوری کے اڈوں پر کھڑا ہے کہ کوئی اسے مزدوری کے
لیے لے جائے تاکہ شام کو واپسی پر اپنے بچوں کی ننھی خوشیایوں کی تکمیل کر
سکے۔ جس معاشرے میں جس کردار کو سرہانے کی بجائے کمّی کمینہ کہہ کر پکارا
جائے اور معاشرے میں اس کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہو اسے یوم مزدورکہا جا
تا ہے۔ مزدور تو وہ جس کے ہاتھ رب کریم نے سونے سے زیادہ قیمتی بنائے ہیں،
کیونکہ اس کے ہاتھوں ایسا ہنر تھما دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ کھیت
کھلیان ہوں، چارہ کاٹنا ہو، ہل چلانا ہو، فیکٹری کی آگ چھوڑتی ہوئی بھٹی ہو،
سورج کی دوزخ نما گرمی ہو، یہ مزدور ہر جگہ ہمت و حوصلہ سے اپنا کام کرتا
ہے، اس سے کام لینے والے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں برجمان ہو تے ہیں، سرمایہ
دار ا یک ٹھنڈی گاڑ ی سے نکل کردوسری پھر ٹھنڈے گھر میں داخل ہو جاتا ہے وہ
کیا جانے مزدوری کیا چیز ہے اور چلا ہے منانے یوم مزدور۔ ملک و قوم کی ترقی
مزدور کی عزت و عظمت میں ہے، آج بے شمار فیکٹریاں، ملیں، بڑی بری صنعتیں،
ہرے بھرے کھیت کھلیان یہ سب ایک مزدور کے مرہونے منت ہیں۔ لیکن انہی سرمایہ
داروں نے مزدور کو سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اربو ں
کھربوں منافع کمانے والے مزدور کے بچے کی فیس دینے سے قاصر ہے، آخر ایسا
کیوں ہے؟ ہم توایک اسلامی معاشرہ میں بندھے ہوئے ہیں،جس کا اللہ نبی ﷺ نے
فرمایا ہے محنتی اللہ کا دوست ہے۔ اے سرمایہ داروں اللہ کریم تو اسے اپنا
دوست بنا رہا ہے تمہیں اس کی ضروریات پوری کرکے دوست بنانے میں کیا حرج ہے۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ اس کے رویے میں سختی کیوں آجاتی ہے۔ اس کے سخت رویے بھی
تو ہم ہی پیدا کرتے ہیں۔ باہرنکل کر دیکھوں جن کا آج دن منایا جارہا ہے وہ
اس دن بھی مزدوری کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں، یہ سرمایہ دارانہ نظام
کے منہ کے اوپر زور دار تمانچہ ہے۔ لیکن اس کی گونج سنائی نہیں دیتی۔ میری
تمام اہل ثروت سے درخواست ہے وقت نکال کر جس کے امتی ہونے پر ہم فخر کرتے
ہو، اس سرکار کی احادیث مبارکہ کو پڑھا کرو کیونکہ دنیا کا مال دنیا میں ہی
رہ جانا ہے۔ چند احادیث پیشِ خدمت ہے۔ ۱۔ یہ تمہارے بھائی ہیں اللہ نے
انہیں تمہارے ماتحت بنا دیا ہے، ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاؤ، وہی پہناؤ جو
خود پہنو، ان سے ایسا کام نہ لو جس سے وہ بالکل نڈھال ہو جائیں، اگر ان سے
زیادہ کام لو تو ان سے اعانت کرو(بخاری و مسلم)۔۲۔ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا!مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔۔۔۔
جب ابوبکر صدیق ؓ سے پوچھا گیا کہ تنخواہ کتنی ہونی چاہیے؟ آپ ؓ نے فرمایا
جتنی ایک مزدور کی ہے، اگر اس سے گزارا نہ ہوتو مزدور کی تنخواہ بڑھا دی
جائے۔ کیاہم اس اسلامی معاشرہ میں ایسا عملی طور پر کر رہے ہیں۔ ہمیں
پیدائشی طور پر مزدور کا حق کھانا سکھایا گیا۔ لعنت ہو ایسے عہدیدار پر جو
لاکھوں کی تنخواہ لے کر مزدور سے رشوت مانگتا ہے، اور پھر رزق حلا ل کا
دعویٰ کرتے ہوئے پرسکون زندگی کا مسافر ظاہر کرتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں مزدور
کی قدرکرنے اور اس کے معاشی استحصال کرنے کی بجائے اس کا بازو بننے کی
توفیق عطا فرمائے، اگر مزدور نہیں ہو گا تو ہمارے کھیت، کھلیان، فیکٹریاں،
صنعت سازی زوال پذیر ہوجائے گی، ہماری سیاست اگر ہے تو بھی انہی کی بدولت
ہے۔گلیوں اور بازاروں، ورکشاپس اور بھٹہ پر مزدور کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے
ننھے ہاتھوں والے مزدوری کر رہتے ہوتے ہیں۔ وہ ماں کے لعل اور باپ کے ہیرے
ہیں جو مٹی میں رول دئیے گئے ہیں۔ آؤ چائلڈ لیبر کو ختم کریں تاکہ یہی بچے
بڑھے ہو کر ملک و قوم کا سرمایہ بنیں۔ شکریہ
|