انسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسا نوں کی مددکے
عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام
نے خد مت ِ انسا نیت کو بہترین اخلا ق اور عظیم عبا دت قرار دیا ہے ۔اللہ
تعالیٰ نے انسا نوں کو یکساں صلا حیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن
کے درمیان فرق وتفا وت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کا ئنات رنگ وبو کا
حسن و جما ل ہے ۔
وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت ،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن
یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان
کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔اُس علیم و حکیم
رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس
کا بھی امتحان ہے ۔
وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی
مدداُن کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ
انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں
کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو ۔
مسلم شریف کی روایت ہے،’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ
محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘‘ سبحان اللہ اس رب کو اپنے
بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالا نکہ وہ
سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہر گز نہیں ۔
جب سے کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں اپنے پر پھیلا ئے ہیں۔
دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اس کے سامنے سے گھٹنے ٹیکتی چلی جار ہی ہیں۔ چالیس
لاکھ سے زائد افراد اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ دو لاکھ سے زائد افراد لقمہ
اجل بن چکے ہیں۔ اس وبا کی ایک اور بھیانک سچائی یہ ہے کہ پہلے سے بے
روزگاری سے لڑتی اس دنیا میں اس سال کے وسط تک 305 ملین افراد اپنے روزگار
سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔
آج کی اس کورونائی دنیا میں ہم میں سے اکثریت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے
کہ کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو کورونا کی وبا سے بھی بچائیں اور
اپنے روزگار کے اسباب کو بھی محفوظ بنائیں۔
دوسری جانب پالیسی ساز، تھنک ٹینکس اور ارباب اختیار ایسی پالیسیوں کی تلاش
میں ہیں جن کی مدد سے وبا پر قابو پایا جائے اور اس کے معیشت پر پڑنے والی
منفی اثرات کو بھی مزید بڑھنے سے روکا جائے۔
اس مشکل دور میں کچھ اہل دل حضرات ایسے بھی ہیں جو خاموشی سے دنیا بھر میں
انسانیت کی مدد میں مصروف عمل ہیں۔ ان میں سے ایک رفاہی ادارے آفاق کے روح
رواں جناب محمود الحسن صاحب ہیں۔
محمود الحسن صاحب گزشتہ تیس برس سے لند ن میں مقیم ہیں۔ محمود الحسن صاحب
سماجی خدمات کے چار اداروں کے روح رواں ہیں ۔ ان اداروں میں اسلامک ایڈ،
سرور فاونڈیشن، پریکٹیکل ایکشن اور آفاق شامل ہیں یہ ادارے دنیا کے کم ازکم
دس ممالک میں خوراک، پانی، تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی اور روزگار سے متعلق
خدمات کی فراہمی پر سالانہ 36 ملین پونڈ کے خرچ سے 10 لاکھ سے زائد لوگوں
کی مدد کرتے ہیں۔
یہیں اکتفا نہیں محمود الحسن صاحب 1996 سے لندن کی دوسری بڑی اور یورپ کی
سب سے بڑی مسجد، فنسبری پارک مسجد، کے ٹرسٹی اور ڈائریکٹر ہیں۔
زمانہ طالب علمی سے محمود الحسن صاحب نے بہت متحرک زندگی گزاری ہے۔ ان کے
والد چوہدری علی حسن ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
والد صاحب کی ملازمت کی نویت کی وجہ سے انہیں پنجاب کے مختلف شہروں میں
رہنا پڑا۔ محمود صاحب نے زکریا یونیورسٹی ملتان سے 1986 میں ایم بی اے کیا۔
یونیورسٹی کی تاریخ میں ریکارڈ نمبروں کے ساتھ پہلی پوزیشن لینے پر
یونیورسٹی گولڈ میڈل اور گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے بیرون ملک تعلیم کے
لیئے قائد اعظم میرٹ سکالر شپ سے نوازا گیا۔ محمود صاحب نے امپیرل کالج،
لندن، جو ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں چٹھی پوزیشن پر ہے، سے فنانس میں ایم
بی اے کیا۔
اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتدا زکریا یونیورسٹی اور امپیریل کالج میں
لیکچرر کے طور پر کی اور مختلف بین القوامی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے
1998 سے موجودہ کاروبار اور مختلف سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ محمود
الحسن صاحب نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے۔ وہ اپنے
وقت کا زیادہ تر حصہ انسانیت کی خدمت میں صرف کرتے ہیں۔انسان کہلانے کا وہی
شخص مستحق ہے جو دوسروں کے لیے دل میں درد رکھتا ہو دوسرے سے محبت کا سلوک
رکھتا ہو۔ ان کی مصیبت میں مدد کرتا ہو۔ الغرض’’انسان وہ ہے جو دوسرے کے
لیے جئے۔ اپنے لیے تو حیوان اور کیڑے مکوڑے بھی زندہ رہتے ہیں۔ انسان کو
اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے، اسے تمام جانوروں سے افضل اور برتر
مانا گیا ہے۔ یہ درجہ اور رتبہ اسے صرف اس حالت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ
دوسروں کے غم میں شریک ہو۔
دوسروں کا مصیبت میں ہاتھ بٹائے۔ ان کی مدد اور خدمت کرے۔ خدمت اور ایثار
کا جذبہ ہی انسان کو دوسرے سے افضل بناتا ہے۔
آج کل یہ فیشن بن گیا ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیلائی جائے۔ لٹ گئے۔ مارے
گئے، چور لے گئے۔ ڈاکو لے گئے،غدر مچ گیا، کرپشن کی انتہا ہو گئی، منی
لانڈرنگ کے سوا کوئی کام نہیں کیا گیا۔ حکمران یہی شور مچا رہے ہیں ،ان کی
دیکھا دیکھی میڈیا بھی یہی شور مچا رہا ہے۔
حقیقت اس کے برعکس ہے یہ برائیاں کسی حد تک ضرور موجود ہے۔ ہمارے معاشرے
میں اچھے لوگ زیادہ ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے دنیا میں برائی غالب نہیں
آپارہی کورونا ہو یا انسانیت کو درپیش غربت کا چیلنج یہ لوگ ایک دیوار کا
کام کر رہے ہیں۔
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتاہے
|