کچھ ہفتے قبل تبلیغی جماعت جس طرح لبرل اور شیعہ نوجوانوں
کی تنقید کا نشانہ بنی تھی ایسی ہی صورتحال سے آج کل شیعہ کمیونٹی دوچار ہے
کچھ لوگ اکیس رمضان المبارک کو اہل تشیع کے نکالے گئے جلوسوں کے حق میں لکھ
رہے ہیں تو بہت سارے مخالفت میں ،لوگ جھنجلائے ہوئےہیں اور پورا ملک عجیب
سی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے ۔
سوشل میڈیاء پہ علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب کے حوالے سے ایک خبر ہے کہ "ہرصورت
نماز عید مینار پاکستان پہ ادا کریں گے " ایک ٹی وی شو میں اہل سنت کے
معروف عالم مفتی حنیف قریشی صاحب چیلنج کررہے تھے کہ "اب نماز جمعہ کے
اجتماعات بھی ہونگے اور عید کی نمازکے بھی ، دیکھتے ہیں کون روکتاہے"
دیوبندی حضرات تو اس سے بھی ذیادہ غصیلے جذبات کا اظہار کررہے ہیں اور جمعہ
الوداع اور نماز عید کھل کر ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔
حکومتی جماعت کے رہنماء ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بھی کہہ رہے تھے کہ جب بازار
کھلے ہیں تو مساجد کھولنے میں کیا حرج ہے؟۔ ملک کے نامور صحافی اوریامقبول
جان نے بھی دوغلی حکومتی پالیسی مسترد کرتے ہوئے عوام سے نماز جمعہ اور عید
کے اجتماعات میں شامل ہونے کی اپیل کردی ہے ۔
احباب جانتے ہیں میں نے کبھی مذہبی تفرقہ بازی پہ قلم نہیں اٹھایا، یہ ایسا
موضوع ہے جو مجھے سخت ناپسند ہے میں خود اہل سنت، دیوبندی اور اہل حدیث کے
مدارس میں پڑھ بھی چکا ہوں اور آج بھی ان سب مسالک اور ان کے ماننے والوں
سے گہرا تعلق ہے میرے کئی بہترین دوست شیعہ ہیں بلکہ ایران سے تعلیم یافتہ
اعتدال پسند معروف شیعہ عالم حافظ سید موسی کاظم نقوی سے تو انتہائی گہرے
اور برادرانہ تعلقات ہیں، میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مسالک پہ تنقید سے
گریز سے ہی کروں ۔
حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں یوم علی رضی اللہ عنہ کے جلوسوں نے باقی تین
مسالک کے لوگوں کو شدید غم و غصے میں مبتلا کردیاہے ، ایک عالمی وباء کے
شدید خطرے کے باوجود شیعہ علماء کا تمام تر احتیاطی تدابیر کو فراموش کرکے
پورے ملک میں یہ جلوس نکالنا اچھا فیصلہ تھا یا غلط میں اس پہ کیا بات کروں
؟آنے والے چند دن خود اس کا فیصلہ کردیں گے لیکن مجھے لگتا ہے حکومت کی
دانستہ یانادانستہ اس ڈھیل کے نتیجے میں پورا ملک فرقہ واریت کی لپیٹ میں
ضرور آگیا ہے ، اگر کل میرے جیسے لوگ تبلیغی جماعت پہ تنقید کررہے تھے تو
آج ہمیں شیعہ علماء کا یہ جزباتی فیصلہ بھی اچھا نہیں لگا، مساجد بند کرنا
اگر ضروری تھا تو بازار اور امام بارگاہوں کو بھی استثناء نہیں دینا چاہئے
، کسی ایک کو چھوٹ دے کر باقیوں کے غم و غصے کو ہوا دینا قطعی نامناسب عمل
ہے اس سے ہماری آپسی محبت و اخوت میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں ۔
سب سے زیادہ کرونا کے خلاف متحرک ہونے والے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ
نے خود جلوس میں شامل ہوکر غیر ذمہ داری اور ڈھٹائی پن کی انتہاء کردی جبکہ
یہی موصوف پہلے ہاتھ جوڑ جوڑ کر مساجد بند کرنے کی ناصرف اپیلیں کررہے تھے
بلکہ کئی مساجد میں نمازیوں اور امام صاحبان کو ذلیل و خوار بھی
کیاگیامساجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی وجہ سے ، اب اگر خدانخواستہ یہ وباء
اور پھیلتی ہے تو سندھ حکومت کے پاس لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کا کیا
اخلاقی جواز باقی رہ جائےگا؟ ۔
خان کا سپورٹر ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کی حکومت ایک کٹھ
پتلی بن چکی ہے وزیراعظم کے ساتھی نااہل بھی ہیں اور سیاسی فہم و فراست سے
عاری بھی ،یہ لوگ ملک کو بڑی تیزی سے منجدھار کی طرف لے جارہے ہیں، ان کے
پاس ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں یہ وہ بھیڑیے ہیں جو شکار کرنے والے ہر
گروہ کا حصہ رہے ہیں انہیں صرف اپنے پیٹ بھرنے سے مطلب ہے ۔
وہ ادارے جو تیزی سے ناکام ہوتی حکومت کے پشت پناہ اور محافظ ہیں ان کی
قابلیت پہ کسی کوشک ہے نا ان کی حب الوطنی پہ کوئی سوالیہ نشان، لیکن انہیں
آخر کیوں ملک میں فرقہ واریت کی سنگین لہر اٹھتی نظر نہیں آرہی، وہ کیوں
ملکی سالمیت اور باہمی اتحاد و اخوت کو نقصان پہنچتے دیکھ کر خاموش ہیں؟
ایسے حالات میں کرونا جیسی موذی وباء سے ہم بچ بھی گئے تو فرقہ واریت کاناگ
ضرور ہمیں ڈس لےگا، اس کالے سانپ کا سر کچلنابھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس
وباء پہ قابو پانا۔
|