ایک عجیب عالم دین تھا

وہ ضلع صوابی کے نواحی گاؤں پنج پیر کے ایک پختون اور زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔

جائداد عام لوگوں جتنی تھی لیکن والد علاقے میں رائج تمباکو کے کاروبار سے وابستہ ایک کامیاب کاروباری آدمی تھے ،سو یہ گھرانہ مالی طور پر مستحکم اور روایتی طور پر مہمان نواز بھی تھا ۔

ان مہمانوں میں علماء کرام بھی شامل ہوتے تو گاہے پختون آدمی اپنے بڑے بیٹے محمد طاہر کے سر پر ھاتھ رکھ کر کہتے کہ میں اس بیٹے کو عالم دین بناؤں گا ، یہ خلاف معمول اور خلاف روایت بات تھی ۔

اس لئے عزیز و اقارب کی پیشانیوں پر بل پڑتے کہ ھمارے خاندان کا پختون آدمی اب مولوی بنے گا؟

بچے کی عمر ابھی صرف بارہ سال تھی کہ والد دُنیا سے چلے گئے دونوں بھائی بھی اس سے عمر میں چھوٹے تھے لیکن ان حالات اور بے وقت ذمہ داریوں کے باوجود بھی اسے اپنے سر پر والد کا رکھا ہوا ھاتھ اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہمیشہ یاد رہے ۔

تب کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر نہ صرف ذھانت اور بہادری کی ایک لافانی مثال بن جائے گا بلکہ پورے پختون معاشرے کو اپنے افکار اور نظریات کے حوالے تاریخی طور پر سب سے زیادہ متاثر بھی کرے گا۔

پہلے ذھانت پر مختصر بات کرتے ہیں ۔

آپ اندازہ لگائیں کہ چوبیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ مشھور عالم دین مولانا نصیرالدین غورغشتوی سے بھی پڑھ چکے تھے ،

میانوالی کے مولانا حسین علی سے بھی کسب فیض پا چکے تھے ۔
ھندوستان کے ضلع بلند شھر میں برصغیر کے ممتاز علماء کرام مولانا اعزاز علی اور انور شاہ کاشمیری سے بھی پڑھ چکے تھے ،
دیوبند سے تاریخ ساز ریکارڈ کےحامل طالبعلم بن کر بھی فارغ ہو چکے تھے ۔

مدینے میں سپین کے جلا وطن عالم دین شیخ ھمدان سے بھی کسب فیض پا چکے تھے اور مکے میں عبیداللہ سندھی کے عزیز ترین شاگرد بھی رہے ۔

عبیداللہ سندھی نے ان کی شخصیت کے سپارک اور کرزمہ کو بہت پہلے سے محسوس کر لیا تھا اور بارھا اس کا ذکر بھی کیا ( تحریری شکل میں بھی)

مکے میں ایک صبح انھوں نے اپنے عظیم اُستاد مولانا عبیداللہ سندھی کے پیر دباتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کی اجازت درکار ہے ۔

کون سی اجازت؟

میں اپنے وطن لوٹنا چاہتا ہوں .

کس لئے؟

تاکہ اپنی قوم (پختونوں ) کو جاھلانہ ملائیت سے چھٹکارہ دلاؤں اور فرنگی استعمار کے خلاف لڑ سکوں ۔
اُستاد نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ پختون معاشرے اور ذہن پر ملائیت کا اثر اور غلبہ کتنا گہرا ہے فرنگی حکومت بھی ان کی پشت پر ھے اور تم مخالفت کروگے تو زندہ بھی نہیں رہ سکو گے ۔

یہ کام آپ مجھ پر چھوڑ دیں آپ صرف اجازت دے دیں ۔

بحث و تمحیص کے بعد اجازت ملی تو دوسرے دن اُنھوں نے رخت سفر باندھا ۔

یہ انیس سو تیس کا عشرہ تھا کہ وہ اپنے گاؤں لوٹ آئے تو چند ھی دنوں میں اپنی جیب سے کتابیں کاپیاں اور تختیاں خرید کر گاؤں کے مساجد میں بچوں کے لئے سکول قائم کرنا شروع کئے اس کے ساتھ ہی قرآن پاک کے درس بلکہ لیکچر کا بھی آغاز کیا اور رسوم جاھلیت کے ساتھ ساتھ انگریز کے کاسہ لیس اور دین فروش ملائیت کو بھی نشانے پر لیا ۔ مولویوں میں کھسر پھسر شروع ہوئی تو دلیر اور صداقت شعار نوجوان نے اپنا سلسلہ دوسرے دیہات تک بھی بڑھانا شروع کیا ۔

مولویوں نے خوانین سے مدد مانگی اور خوانین نے اپنے آقاؤں (انگریز حکومت ) کو اطلاع کردی ۔

اب انگریز انتظامیہ خوانین اور مولوی کی طاقتور ٹرائیکا ان کے مقابل آگئے لیکن ابھی انہیں کہاں معلوم تھا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔

اس دوران اُس نے اپنا متنازعہ لیکن حد درجہ مقبول بیانیہ اُٹھا لیا کہ قرآن صرف مولوی نہیں بلکہ عام آدمی بھی پڑھ سکتا ہے (کیونکہ مولویوں کا کہنا تھا کہ جس نے سات علوم نہیں پڑھے وہ قرآن پاک نہیں پڑھے گا) انھوں نے ببانگ دھل اپنی قوم سے کہا کہ آپ پر مولوی کے مسلط کردہ رسوم سرے سے دین کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ مولویوں کی کمائی کے ذریعے ہیں ۔

آپ مولوی کی بجائے اپنے مردے کو خود نہلائیں ،جنازہ بھی خود پڑھیں قبر میں میں بھی خود اتاریں ۔مردے کے گھر یا یتیم ہونے والے بچوں کی جمع پونجی سے کھانا حرام سے بھی بدتر ھے.
یہ جمعہ ،سوئم ،چالیسواں اور دوسرے رسوم و رواج ترک کردیں ،ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس سے مولوی کے مفادات جڑے ہیں اور وہ آپ کو انہی جاھلانہ رسومات کے ذریعے لوٹ رھا ہے ۔
مولویوں نے اپنے مالی مفادات ڈوبتے دیکھ کر ان پر کفر کے فتوے لگانا شروع کئے لیکن پسپائی اختیار کر نے کی بجائے وہ مزید جارحانہ ہوا.

فرنگی حکومت نے خطرے کو بھانپا تو کھل کر مولویوں کی حمایت میں اُترا اور یوں ایک عام پختون گھرانے کا نوجوان شیخ القرآن محمد طاہر بن کر منظر پر اُبھرے ۔

کچھ دنوں بعد پہلی گرفتاری عمل میں آئی اور یہ سلسلہ اگلے بیس سال تک چلتا رہا.
اُنیس سو چالیس کا عشرہ جہاں اُن کے لئے قید و بند ، قاتلانہ حملوں ،سوشل بائیکاٹ اور جائداد ضبتگی جیسے مشکلات لے کر آیا ،وھاں وہ نوجوانوں ،پڑھے لکھے سمجھدار اور باشعور طبقوں میں اپنی جینوئن طرز فکر کی بدولت حد درجہ مقبولیت بھی حاصل کرتے گئے ۔

اب وہ جاھلانہ ملائیت اور انگریز استعمار کے خلاف روشن فکری اور حریت پسندی کی ایک طاقتور علامت بن کر اُبھرے ۔

انہی دنوں دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے اپنے تین اہم رفقاء کو اُنھو ں نے اٹک کے ایک گاؤں میں بلا کر کہا کہ اگر فرنگی حکومت کا روّیہ یہی رھا تو ہمارے پاس مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچے گا اس لئے ہمیں تیاری کرنی ہوگی ۔ ساتھیوں نے انکار کیا تو وہ اُنھیں چھوڑ کر چلے گئے ، کچھ دنوں بعد ریاست دیر میں گرفتار کر لئے گئے ان کے بہت پرانے اور بوڑھے پیروکار سے سوال ہوا کہ یہ گرفتاری کیوں ہوئی تھی ؟

تو اُنھوں نے کہا کہ اس رات ھم گرفتاری سے بچ جاتے تو آنے والے دنوں میں ہم کم از کم پختون خطے میں انگریز حکومت اور ان کے کاسہ لیسوں کا تیا بانچہ کر کے رکھ دیتے ۔

کچھ عرصہ بعد رھا ہوئے تو ریاست سوات میں اپنی تحریک کو آگے بڑھانے لگے لیکن حالات دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتے گئے ۔

اس لئے وھاں سے نکل کر پشاور کے نواح میں شیخ محمدی گاؤں میں اپنا خفیہ ھیڈ کواٹر قائم کیا اور انگریز حکومت اور ان کے کاسہ لیس ملاؤں پیروں اور خوانین کے خلاف لوگوں کو منظم کرنے لگا اس دوران اپنے مرشد مولانا حسین علی کا ایک خفیہ ملا جس کے ساتھ ایک اورخط بھی تھا جو وزیرستان میں لڑنے والے حریت پسند فقیر ایپی نے مولانا حسین علی کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ انگریز حکومت کے اشارے پر علاقے کے تمام مولوی اخلاقی طور پر کمزور کرنے کے لئے مجھ پر کفر کا فتوٰی لگانے والے ہیں اس لئے میری مدد کی جائے چونکہ مولانا حسین علی تب بہت ضعیف ہو چکے تھے اس لئے خط لکھ کر اپنے خاص شاگرد مولانا محمد طاہر پنج پیر کو فقیر ایپی کی مدد کی تاکید کی خط ملتے ہی وہ خفیہ طور پر وزیرستان پہنچے اور ایک مقام پر فقیر ایپی کو ملے اور کہا کہ مولویوں کو مناظرے کے لئے آنے دیں میں اُڑا کر رکھ دونگا لیکن مناظرے کے دوران ھمارے درمیان پردہ حائل ہونا چاہئیے تاکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکیں اور دوسری بات یہ کہ انہیں کہیں کہ مناظرہ فارسی یا عربی زبان میں ہوگا کیونکہ میرے مہمان عالم دین کو پشتو زبان نہیں آتی ۔

فقیر ایپی نے حیرت کے ساتھ اس کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ انگریز حکومت میرے پیچھے لگی ہوئی ہے اور مولوی ان کے مخبر ہیں اس لئے لازم ہے کہ وہ مجھے پہچانیں نہیں. بہرحال تین دن بعد مناظرہ ہوا تو فقیر ایپی کو ایک صالح مسلمان ثابت کرنے کے حق میں قرآن و حدیث سے ایسے دلائل دئیے کہ مولویوں کے پرخچے اُڑا کر رکھ دیے اور وہ وزیرستان سے بھاگ نکلے ۔
کچھ دن بعد فقیر ایپی نے رُخصت کرتے ہوئے ان کے ھاتھوں پر بوسہ دیتے اور آنسو بہاتےہوئے کہا کہ مشکل دنوں میں آپ کی مدد اور حق پرستی کا احسان اس سرزمین پر ہمیشہ باقی رہے گا ۔

کچھ دن بعد گاؤں پہنچے تو پولیس پہلے ہی سے منتظر تھی سو گھر کی بجائے پھر سے جیل چلے گئے ۔ ثبوت تو حکومت کو نہیں ملا تھا لیکن پھر بھی انہیں پکا یقین تھا کہ فقیر ایپی کا مددگار یہی شخص ھی ھے. (ریسرچ کرنے والے طالبعلموں کےلئے یہ اھم موضوع ھے کیونکہ اس کے پس منظر میں ایک دلچسپ کہانی بھی ھے )
انگریز حکومت نے ان کی قید کو موقع غنیمت جانا اور کاسہ لیس مولویوں کو اشارہ کیا جنہوں نے فوری طور پر ایک اور حریت پسند رہنما باچا خان (ولی خان کے والد ) پر کفر کا فتوٰی داغ دیا لیکن شیر ابھی کچھار کے اندر تھا اس لئے کچھ عرصے بعد ضمانت پر رھا ہوئے اور جیل کے پھاٹک سے باھر آئے تو ہزاروں پیروکار موجود تھے وہ فوری طور پر جیل کے سامنے ھی ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوئے اور تقریر شروع کی “ میں جیل میں تھا اور ایک حریت پسند باچا خان پر انگریز حکومت کے ایجنٹ مولویوں نے کفر کے فتوٰے لگائے ۔
باچاخان میری تحریک کا حصہ نہیں اور نہ میں اس کا سیاسی رفیق ہوں لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ ایک نیک اور صالح مسلمان ہیں اور ایسے آدمی پر کفر کا فتوٰی لگانے والے خود دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔

ابھی وہ قرآن و احادیث کے حوالے دینے ہی لگے تھے کہ پولیس نے دھاوا بول دیا اور وہ گھر لوٹنے کی بجائے پھر سے طویل عرصے کےلئے جیل چلے گئے ۔

شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیر کے عزیز ترین بھتیجے اور صوابی کے سینیئر قانون دان محمد رشید ایڈوکیٹ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں ان سے ہماری ملاقاتیں ھفتوں ،مہینوں نہیں ہوتی تھیں ۔
کیوں ؟

کیونکہ وہ یا تو قید و بند کاٹتے رہے یا اپنی تحریک کے سلسلے میں دور دراز کے علاقوں کے سفر پر ہوتے ۔اور ہمیں روز روز ان کے بارے میں کھبی گرفتاری تو کھبی قاتلانہ حملوں کی تشویشناک خبریں ملتیں.

کیا آپ کے خاندان کے باقی لوگوں کو بھی خطرات تھے ؟

کیوں نہیں ! شدید خطرات کے پیش نظر اُنھوں نے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو گاؤں سے دور دراز کے علاقوں میں بھیج دیا تھا ۔

ہماری زمین اور کاروبار حکومت نے اپنے قبضے میں لے لئے تھے اب گھر میں یا تو خواتین تھیں یا میں اور میری عمر بمشکل چند سال ھی تھی سو خطرے کے لئے باقی رہ کیا گیا تھا ۔
وہ عجیب عالم دین تو تھا کیونکہ عددی حجم کے حوالے سے وہ پورے پختون خطے بمع افغانستان تمام سیاسی اور مذھبی جماعتوں پر کئ گنا بھاری ہے لیکن سیاست کی طرف کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ اپنا کام ہمیشہ ایک مذھبی مصلح اور سماجی ریفارمر کے طور پر ھی جاری رکھا ۔

زندگی میں ایک بار بھی کسی صاحب اقتدار کی چوکھٹ پر نہیں دیکھے گئے ۔

بھٹو اقتدار میں تھے تو اپنے دو وزیروں کوثر نیازی اور میر افضل خان کو بھیجا کہ وزیراعظم ملاقات کے خواہشمند ہیں تو فورًا کہا کہ مجھے درباروں کا سلیقہ نہیں !

البتہ مہمان نوازی اپنے والد سے خوب سیکھی ہے ۔دونوں زیرک وزراء فورا بات سمجھ گئے اور اجازت چاہی.

جنرل ضیاء کا خاندان بھی تقسیم کے بعد پشاور میں بس گیا تھا اس لئے ضیاء الحق انکے اثر ورسوخ اور شخصیت سے بخوبی واقف تھے پیام بر کو ملاقات اور کھانے کی دعوت دے کر بھیجا تو کھیت میں کام کرتے ہوئے اپنی درانتی زمین میں ٹھونک دی اور فارسی شعر پڑھ کر معاملہ ہی ختم کر دیا ۔۔۔

چوں چھتر سنجریر و کہ بختم سیاہ باد
گردل اگر رودھوس مردہ سنجرم

(میرا منہ تمھاری چھتری کی ما نند کالا ہو جائے اگر دربار کی ھوس کھبی میرے دل میں آئے )

شخصیت میں فقر اور سادگی ایسی کہ درس کے بعد اپنے کھیتوں میں گوڈی کرتے یا فصل کو پانی دیتے پائے جاتے ۔ گاھے ملاقات کےلئے آنے والوں سے کہتے کہ اس معاشرے کی بربادی کی بڑی وجہ ھی یہ ھے کہ مولوی سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جاتے. نہ ھی کوئی کام اور محنت کرتاہے لیکن انداز و اطوار بادشاہوں سے کم نہیں ہوتے کیونکہ قرآن اور دین اس کی کمائی کے ذریعے ہیں.

شخصیت میں سادگی اور دیانت داری ایسی کہ لینڈکروزر اور گن مین تو دور کی بات ہے ، ذاتی گاڑی تک نہیں تھی اور آخری عمر میں بھی بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتے رہتے ۔

دلیر ایسے کہ کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے فائرنگ ہونے لگی اور پھتر برسنے لگے لیکن لگ بھگ ایک گھنٹہ تقریر بلا تعطل جاری رہی ایک عینی شاہد بتا رہے تھے کہ کپڑوں کے اصل رنگ کا پتہ ھی نہیں چل رہا تھا کیونکہ سارا جسم اور کپڑے خون سے سرخ ہو گئیے تھے لیکن صرف پانچ دن بعد خیبر ایجنسی میں اسی گھن گرج کے ساتھ لوگوں سے پھر مخاطب تھا۔

حال ہی میں ان کی تحریک پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر سلیمان نے لکھا ہے کہ چھ ہزار سالہ پختون تاریخ میں پختوں قوم نے اپنے مذھب کو کئ بار تبدیل کیا ۔
بدھ ازم ،ھندو مت اور اسلام وغیرہ لیکن اپنے عقائد اور رسوم دوسرے مذھب میں بھی ساتھ لے جاتے رہے کیونکہ وہ اپنے عقائد کو نہیں چھوڑتے حتٰی کہ ھندومت سے بھی بہت سے عقائد اسلام کی طرف لے آئے لیکن شیخ القرآن پنج پیر اس تاریخ کے واحد آدمی ہیں جنھوں نے بنیادی لیکن غلط عقائد اپنی قوم سے نہ صرف چھڑوائے بلکہ انہیں صحیح سمت میں بھی موڑا اور وہ بھی ہزاروں سال پرانے مذھبی عقائد ۔۔۔اس لئے کام اور اثر کے حوالے سے وہ اس طویل تاریخ کے پانچ بڑے آدمیوں میں سے ایک ہیں.

ڈاکٹر اسرار ملنے آئے تو ان کے ھاتھوں کو چومتے اور روتے ہوئے کہتے رہے کہ ہم سب کا کام آپ کے سامنے اتنا ہی ہے جتنا سورج کے سامنے ایک کمزور دئیے کی روشنی ۔

مفتی تقی عثمانی کے والد مفتی محمد شفیع ان کے ہم سبق رہے تھے ۔مفتی محمد شفیع نے کہا کہ اصلاحی جدوجہد اور حق پرستی کے حوالے سے مولانا پنج پیر بلا شبہ برصغیر کے سب سے بڑ ے آدمی ہیں ۔

کوثر نیازی نے کہا کہ وہ پختون تاریخ کے امام ابن تیمیہ ہیں ۔
بعد میں امام ابن تیمیہ کی تاریخ تحریک اور شخصیت کا مطالعہ کیا تو دونوں میں حیرت انگیز مشابہت پائی گئی. اور مولانا کوثر نیازی کے مطالعے اور مشاہدے پر رشک آیا ۔

یہ تھے وہ عظیم آدمی جو ساری عمر ماریں کھاتا اور جیلیں کاٹتا رھا اور وہ بھی اسی خاطر کہ اپنی قوم کو مولویانہ رسوم جاھلیت اور غیروں کی غلامی سے چھٹکارا دلائے جس میں وہ توقع سے کہیں زیادہ کامیاب بھی رہے ۔

اُنتیس مارچ اُنیس سو ستاسی کی ایک سرد شام کو پختون تاریخ کے اس سب سے بڑے ریفارمر نے آخری سانس لی تو اپنی اولاد کے لئے وراثت میں معمولی سی ردو بدل کے ساتھ تقریبا وھی زمین چھوڑی جو انھیں اپنے والد سے ترکے میں ملی تھی نہ کوئی محل ،نہ دربان ،نہ لش پش گاڑیاں اور نہ ہی بھاری بھر کم اکاؤنٹ نہ ھی سود و مفاد کی سیاست البتہ ایک عظیم جدوجہد روشن فکر سلسلہ اور قرآن پاک کی جینوئن تعلیمات ایک ایسی وراثت ہے جس سے آج بھی لاکھوں کی خلقت اپنے اپنے حصے کی روشنی سمیٹ رھا ہے ۔

 

Hammad Hassan
About the Author: Hammad Hassan Read More Articles by Hammad Hassan: 29 Articles with 19768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.