میں تو شاید مقابلہ کرجاؤں آپ کا کیا بنے گا۔۔۔؟

تمام جلسوں میں ایک بات بڑی اہمیت کے ساتھ مشترک تھی کہ ”اے میری قوم سابقہ حکومتوں نے جو آپ کے ساتھ کر دیا ہے، آنے والے حالات اگر ایسے ہی رہے یا یہی حکمران رہے تو تمہارے لیے ایک ایک دن گزارنا مشکل سے مشکل ترین اور ناممکن ہو جائے گا“

اگر ہم بھی تعلیم کو ترجیحٰی دیتے ۔۔ ایسا ممکن تھا ۔۔۔۔ شاید

ایک دوسرے کو موٹیویٹ کرنا، شیشے میں اُتارنا، اپنا بنانا، اپنا گرویدہ کر لینا، سبز باغ دکھانا وغیرہ وغیرہ ایسے جملے ہیں جن کو استعمال کرنے والا اپنی نیت کو سمجھ رہا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نیتوں سے باخبر ہے اور اعمال کا دارو مدار بھی نیتوں پر ہی ہے۔ جس نیت سے کسی کو موٹیویٹ کرو گے ایسا ہی صلہ پاؤ گے، بدنیتی پر کی جانے والی گفتگو تو شاید دُنیا میں تو کامیابی کی منزل تک لے جائے لیکن آخرت کی منزل کیسے طے ہو گی میرا رب بہتر جانتا ہے۔ ۸۱۰۲کے الیکشن کا سیزن شروع ہوتا ہے، ہر سیاست دان، ہر پارٹی نے اپنے انوکھے انداز میں قوم کو موٹیویٹ کرنے کی کوشش کی، کسی نے سیٹیڈیم، کسی نے پارک تو کسی نے چوک اور چوراہوں میں اپنا اپنا سیاسی چورن بیچا۔ اس الیکشن کمپین میں ایک ۲۲ سالہ سیاسی پس منظر رکھنے والا عمران خان بھی بڑے ہی پڑھے لکھے انداز میں جگہ جگہ اپنا تماشا لگاتا ہے، لوگ نئے سیاسی لیڈر یا مداری کو دیکھنے اور سننے کے لیے ہجوم در ہجوم پہنچ جاتے، عمران خاں کا کونسلنگ کرنے کا انداز بڑا ہی منفرد تھا اور شاید مارکیٹ میں پہلی دفعہ متعارف ہو رہا تھا تو لوگوں نے اس انداز کو بڑا سراہا، ملٹی میڈیا کے ذریعے پچھلی سیاسی ادوار کا بڑے ہی رنگین انداز میں پریزنٹیشن کے ذریعے خلاصہ بیان کیا جاتا اور پھر بتایا جاتا ہے کہ اگر مجھے موقع دیا گیا یا مل جاتا ہے تو میں ان خامیوں کو ایسے ایسے ختم کروں گا، وقت کے پجاری، آنے والے وقت کے وزیر مشیر خوب واہ واہ کرتے، سادہ عوام جو ہمیشہ اچھے کی امید میں سبز باغ دیکھنے کا شوق رکھتی ہے معترف ہو جاتی۔ عمران خان ان تمام سیاسی جلسوں میں تقریباً ایک ہی بات کو ہزاروں مرتبہ دہراتے،جو عام طور پر ہر جگہ ہوا میں پھینکی جاتیں۔ ان تمام جلسوں میں ایک بات بڑی اہمیت کے ساتھ مشترک تھی کہ ”اے میری قوم سابقہ حکومتوں نے جو آپ کے ساتھ کر دیا ہے، آنے والے حالات اگر ایسے ہی رہے یا یہی حکمران رہے تو تمہارے لیے ایک ایک دن گزارنا مشکل سے مشکل ترین اور ناممکن ہو جائے گا“ اس کے علاوہ ایک خاص جملہ ہوتا تھا کہ ”میں تو ہو سکتا ان حالات میں سروائیو کر جاؤں“ لیکن تم کیسے کرو گے۔۔ عوام جوش پکڑا ۸۱۰۲کے الیکشن میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ برسر اقتدار کے ڈھول بجتے ہیں، عوام میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، حکومتی سیٹ اپ بنتا ہے، نئی نویلی حکومت کے چند ماہ بعد وزرا ء کے قلمدان تبدیل ہو جاتے ہیں، ذی شعور لوگوں کے لیے وہ پہلی ناکامی نظر آئی جسے عمران خاں کے وزیروں اور مشیروں نے ثابت کر دیا کہ اب ملک کی ترقی کا رستہ روک کر دکھائیں گے۔مارچ ۰۲۰۲ میں کورونا آتا ہے، لاک ڈاؤن مرحلہ وار چلتا ہے، مئی کے آخری ہفتہ میں SOPکے تحت سوائے تعلیمی اداروں کے تمام لاک ڈاؤن کھول دیا جاتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے عمران خاں تو ایک عام آدمی کے لیے امید کی کرنا ثابت ہونا چاہتا ہے لیکن تو نے تو وزیروں اور مشیروں کے چنگل میں پھنس کر عام سکول کے اونر اور عام استاد کو دیوار کے ساتھ لگا دیا،عمران خاں ذرا ان جملوں کو دہراؤ کہا کرتے تھے میں تو شاید برے دنوں کا مقابلہ کر جاؤں لیکن تم کیسے کروگے؟ آج ایک عام سکول اونر اور استاد کا کوئی پرسان حال نہیں، لگتا ہے کہ وزیر اعظم ہونا اہمیت کا حامل تھا، تعلیم نہیں، یا پھر پرائیویٹ سکولز کو ختم کرنے کا پلان ہے، لیکن یاد رکھنا پرائیویٹ سکول جس دن ختم ہو گئے اس دن جو تعلیم،بے بسی اور بے روزگاری کا طوفان آ ے گا، وہ سونامی بن جائے گا۔ اللہ کریم حکومتی سیٹ اپ کو عام سکول اونرز کے ساتھ ساتھ استاد کا بھی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156141 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More