لاک ڈاؤن” ۔۔آخر کب تک۔۔؟ تحریر : سید عارف سعید بخاری
(syed arif saeed bukhari, Rawalpindi)
نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر مائیکل ٹیوٹ نے دعویٰ کیاہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے ”لاک ڈاؤن”کے باعث اموات میں 10 سے 12 گنا اضافہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کا فیصلہ افراتفری میں کیا گیا ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ لوگ علاج نہیں کر پائے جو کرونا کے علاوہ کسی اور مرض میں مبتلاتھے ،اس کے علاوہ طلاق، گھریلو جھگڑوں اور شراب نوشی میں بھی اسی وجہ سے اضافہ ہوا ہے ، پروفیسر مائیکل ٹیوٹ نے مشورہ دیا ہے کہ لوگوں کو ماسک پہن کر اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ معاشی مشکلات پیدا نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ |
|
|
لاک ڈاون کے دوران شہر کا ایک مںظر |
|
نوبل انعام یافتہ سائنسدان پروفیسر مائیکل ٹیوٹ نے دعویٰ کیاہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے ”لاک ڈاؤن”کے باعث اموات میں 10 سے 12 گنا اضافہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کا فیصلہ افراتفری میں کیا گیا ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ لوگ علاج نہیں کر پائے جو کرونا کے علاوہ کسی اور مرض میں مبتلاتھے ،اس کے علاوہ طلاق، گھریلو جھگڑوں اور شراب نوشی میں بھی اسی وجہ سے اضافہ ہوا ہے ، پروفیسر مائیکل ٹیوٹ نے مشورہ دیا ہے کہ لوگوں کو ماسک پہن کر اور دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ معاشی مشکلات پیدا نہ ہوں۔
بلاشبہ اُن کے خیالات و احساسات اورآراء دنیا بھر کی اقوام کے لئے توجہ طلب ہیں ۔کیونکہ کسی بھی وائرس سے بچنے کیلئے خود کو قید کر لینا مسئلے کا کوئی حل نہیں ،موت کاایک دن معین ہے ، اس سے فرار ممکن نہیں اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ جان بچانا فرض ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم کسی وبا ء سے آنے والی موت سے لوگوں کو بچانے کیلئے انہیں گھروں میں ہی بند کر دیں ۔کرونا وائرس کو پیدا کئے 6ماہ سے زائدعرصہ ہوچکا لیکن پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے اس کی ویکسین تیار کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی ،جہاں کرونا کے لئے کوئی دوائیں تیار بھی ہو چکی ہیں وہ بھی ابھی مارکیٹ میں نہیں بھیجی گئیں ۔ اس کے برعکس حکومت کے ذمہ داران نے مرض ہذاء سے نجات کیلئے اقدامات پر دھیان دینے کی بجائے لوگوں کو خوف میں مبتلا کرنے کا سلسلہ دراز کر رکھا ہے ۔
کرونا وائرس کی وباء کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں شہریوں کو ”موت”سے بچانے کیلئے کسی قسم کی ویکسین تیار کرنے پر توجہ دینے کی بجائے ”لاک ڈاؤن” کے صورت میں لوگوں کو ان کے گھروں میں ”قیدتنہائی ”کی صورت میں مقید ومحصور کرکے رکھ دیاگیا ہے ،اور بیشتر ممالک کے شعبہ ء طب سے وابستہ ماہرین باربار اسی ایک بات پر زور دے رہے ہیں کہ لوگ عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کریں ،ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کریں ، سماجی رابط اور فاصلہ کم از کم چھ فٹ تک یقینی بنائیں ۔
کسی بھی ملک کی معیشت کا انحصار کاروبار پر منحصر ہے ، ہر بندہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی ایک دوسرے سے منسلک ہے ،اس کے بغیر نظام زندگی چلانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔گھروں میں بیٹھ کر اگر انسانوں حتیٰ کہ پرندوں کو بھی رزق ملتا تو کسی کو بھی محنت کرنے اور گھروں سے نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ، فرشتے بھی جب صبح سویرے رزق کی تقسیم کا عمل شروع کرتے ہیں تو وہ بھی رزق انہیں ہی دیتے ہیں جو جاگ رہے ہوتے ہیں یا اپنے رب کی عبادات میں مشغول ہوتے ہیں، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ عبادت کا سودا سویرے سویرے ، منافع کمایا سویرے سویرے
ہمارا تو یوں بھی قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم رات گئے جاگتے رہتے ہیں ، صبح فجر کی نماز پڑھے بناء ہی سو جاتے ہیں اور دوپہر کو اپنے کام روزگار کیلئے نکلتے ہیں، سوائے سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کے ، کہ جنہیں صبح8 یا 9بجے ڈیوٹی پرپہنچنا ہوتا ہے اور ان میں ہی بھی بیشتر افراد مقررہ وقت کی بجائے اکثر تاخیر سے بھی آفس آتے ہیں ،یہ عادت بد ہماری نس نس میں سما چکی ہے ۔حکومت ”دجالی ایجنڈے ” کو پروان چڑھانے کیلئے ”لاک ڈاؤن ، لاک ڈاؤن کا راگ الاپ رہی ہے ۔ کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ، گذشتہ تین ماہ کے دوران معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے ،لاک ڈاؤن کی صورت ”قید تنہائی ”نے خواتین و حضرات ، خاص طور سے بچوں اور بوڑھوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔کرونا کی آڑ میں منفی پروپیگنڈے نے لوگوں کو عجب خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔
گویا ہر دوسرا بندہ اس وہم کا شکار ہو چکا ہے کہ کہیں اسے ”کرونا ” تو نہیں ،کرونا سے اب تک ظاہر کی جانے والی بیشتر اموات ہسپتالوں میں ہوئی ہیں ، کوئی ایک بھی مریض ایسا نہیں دیکھا یا سناگیا کہ اسے ”کرونا ” کا مرض ہوا اور وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ملکِ عدم سدھا ر گیا ۔بدقسمتی سے پاکستان میں کرونا سے اب تک00 12 کے قریب اموات ظاہر کی گئی ہیں لیکن ان میں بھی پیشتراموات مشکوک نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جن کی موت کا سبب کرونا نہیں بلکہ کوئی اور عارضہ مثلاً ًدل کا مرض ، گردوں کی خرابی ، دمہ ،کینسر وغیرہ لاحق تھااور انہیںبھی کرونا کا مریض بنا کر اگلے جہاں پہنچا دیا گیا ۔عالمی ادارہ صحت اور حکومت کے ذمہ داران اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر کب تک کرونا سے بچنے کیلئے لوگوں کو ”لاک ڈاؤن ”یعنی کہ گھروں میں ”قید تنہائی ”کی صورت بند رکھا جائے گا ، سوال یہ ہے کہ گھروں میں محصور لوگ آخرکب تک اور کس طرح طویل عرصہ اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی ضروریات پوری کر پائیں گے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ آمدن نہ ہوں تو بھرے ہوئے کنویں بھی خشک ہو جاتے ہیں۔
بگلے کی طرح ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر تو کوئی نظام زندگی نہیں چلا سکتا ۔۔خود حکومت کو بھی نظام سلطنت چلانے کیلئے وسائل درکار ہیں ۔۔اب جبکہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا بکھیرا جا رہا ہے تو ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ کس طرح سسٹم کو چلانا ممکن ہے ۔اگر حکومتی ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ کرونا کی آڑ میں قرضے معاف کروا لیں گے اور یہود ونصاری ٰسے ملنے والی اربوں روپے کی امداد (خیرات)سے ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرنے لگے گا تو یہ ان کی بھول ہے ،یہ دیوانے کا ایسا خواب ہے کہ جس میں آنکھ کھلتے ہی ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور آنے والے دنوں میں ہمارا وطن عزیز، ہماری یہ ریاست مدینہ یہود ونصاری ٰکی نوآبادیاتی بن کر رہ جائے گا ۔مستقبل ِ قریب میں افسوسناک امر یہ ہوگا کہ ہمیں روٹی کا ایک نوالہ بھی ”دجالی شہزادے” سے پوچھ کر اپنے حلق میں اتارنا ہوگا ،قومیں یوں ترقی نہیں کیا کرتیں ، موجودہ حکومت دو سال سے لوگوں کو لارے کا”لالی پاپ” دے رہی ہے۔گھبرانا نہیں ۔کے نام سے ایک گیت اکثر قوم کو سنا دیا جاتا ہے ۔
جبکہ حکومت دوسال سے کوئی کارکردگی دکھانے کی بجائے احتساب احتساب کا ڈرامہ رچا کر قوم کو بے وقوف بنائے جا رہی ہے ۔قوم تو اب گھبرانے سے بھی بہت آگے جا چکی ہے،اب تو قوم میں بولنے اور احتجا ج کرنے کی بھی ہمت نہیں رہی ۔۔آنے والے وقت میں ملکی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم انسانوں کو کرونا وائرس یا ”موت ”سے بچانے کیلئے انہیں گھروں میں محصور کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ایسی حکمت عملی اپنائیں کہ جس پر عمل کرکے معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے اور لوگوں کی معاشی مشکلات میں بھی خاطر خواہ کمی آئے ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر چیز کی قلت پیدا ہو رہی ہے ، لوگوں کی آمدن ختم ہو کر رہ گئی ہے ، سڑکوں اور بازاروں میں ہر طرف لوگ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ۔سفید پوش لوگ کسی کے آگے ہاتھ بھی پھیلانا باعث شرم خیال کرتے ہیں ایسے میں ان گھروں کی حالت زار کیا ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔
ہم لاک ڈاؤن اور کرونا کے چکر میں ساری قوم کو بھکاری بنانے پر تلے ہیں ۔خوددار اور باوقار قومیں اپنے وسائل سے اپنا مقام پیدا کرتی ہیں اور اسلام نے دینے والے ہاتھ کو افضل قرار دیا ہے ۔ کاش! پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمران عوام و خواص کو” دینے والی اقوام ”کے برابر لانے کی سعی کرتے ، قوم کو بھکاری بنانا قطعاً قابل تعریف نہیں ہو سکتا۔ضرورت اس امر کی ہے حکومت لوگوں کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کم از کم صبح نماز فجر کے بعد سے لے کر نماز مغرب تک کاروبار کی اجازت دے دے ،تاکہ لوگ اپنا نظام زندگی تواتر کے ساتھ چلا سکیں ۔مغرب کے بعد کئے جانے والے کاروبار سے یوں بھی بہت سی قباحیتں جنم لیتی ہیں اس لئے حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور عوام کا سکون بحال کرنے کیلئے واضح حکمت عملی اپنائے ،یہی ملک و ملت کے حق میں بہتر ہو گا۔٣٣ |