2013ء میں ہالی ووڈ کے آسکر ونر ڈائریکٹر ڈینس ٹینوک نے
عمران ہاشمی کو لے کر فلم ٹائگر بنائی ، جو دنیابھرکے فلم فیسٹیولز میں
دکھائی جاچکی ہے ۔ اس فلم کی کہانی حقیقی واقعات پر مبنی ہے ، جس شخص پر یہ
فلم بنائی گئی وہ ہمارے ہی شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں، اور شیر خوار
بچوں کو ملکی و غیر ملکی مصنوعی دودھ سے بچانے کے لئے انہوں نے اتنا کام
کیا ہے کہ اس پہ انہیں نوبل انعام ملنا چاہئے ، آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ
کو اس نوجوان کی سچی کہانی سنانا چاہتاہوں ۔
بات شروع ہوتی ہے 1994ء سے جب سیالکوٹ شہر کے ایک پڑھے لکھے نوجوان کو دنیا
کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل فوڈ کمپنی ( جوشیرخوار بچوں کے لئے مخلتف پروڈکٹس
بنانے کے لئے مشہور ہے اور ہمارے ملک کا شائد ہی کوئی گھربچا ہو جہاں اس کی
پراڈکٹس استعمال نہ کی گئی ہوں )میں سیلز مین کی جاب ملتی ہے ، نوجوان بڑی
محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اسی دوران اس کی شادی ہوجاتی
ہے اور ایک بچہ بھی پیدا ہوتا ہے ۔
پھر سال آجاتا ہے1997ء جب سیالکوٹ کے مشہور مشن ہسپتال میں اس نوجوان کے
سامنے ایک معصوم بچہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتا ہے ، نوجوان کے لئے یہ سب بہت
تکلیف دہ تھا وہ ڈاکٹر سے پوچھتا ہے " اس بچے کو کیا ہوا ہے ؟ " ڈاکٹر جواب
دیتا ہے " اس بچے کی موت کے تم لوگ ذمہ دار ہو، اسے ماں کا دودھ پینا چاہئے
تھا لیکن اس کی موت کی وجہ تمہارا مصنوعی فارمیولے والا دودھ بن گیا" ۔
وہ خود بھی باپ بن چکاتھا اور قدرت نے اسےحساس دل سے بھی نواز رکھا تھا وہ
لرز کر رہ گیا ، اس نے فورا" کمپنی کو استعفی بھیجا اور تحقیق اور جستجو
میں لگ گیا ، تحقیق کے دوران اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ مصنوعی دودھ ناصرف
ہمارے بچوں کی نشونما پہ منفی اثر ڈالتا ہے بلکہ ان کی زندگی کے لئے بھی
خطرناک ہے، یونیسف اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہرسال پندرہ لاکھ بچے صرف ڈبے
کا دودھ پینے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، یہ حقائق اس کے لئے
پریشان کن تھے پھر اس نے دنیا کی طاقتور ترین ملٹی نیشنل کمپنی کے خلاف
ایسی جدوجہد شروع کی جس کی تاریخ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی ، اس سےپہلے
اور بعد میں بھی آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کے سالانہ کل بجٹ سے
بھی بڑا بجٹ رکھنے والی معاشی طور پہ اتنی طاقتور اور پوری دنیا میں پھیلی
ہوئی کمپنی کے خلاف خود اس کا ایک سابق ایمپلائے کھڑا ہوجائے ، اسے دھمکایا
گیا ، ڈرایا گیا ، خریدنے کی کوشش کی گئی اس کی راہ میں کئی مشکلات آئیں
لیکن وہ دھن کا پکا پوری دنیا کے بچوں کو دودھ کے نام پہ زہر پلانے سے
روکنے کی کوشش میں مصروف رہا ، اس نے دنیا بھر کے والدین کو خبردار کیاکہ
بوٹل فیڈنگ نہ کریں، اپنے بچوں کو ماں کا دودھ پلائیں یہ سب سے بہترین غذا
ہے بچوں کے لئے، وہ چاہتا تو کمپنی سے کروڑوں بٹورتا اور آرام سے گھر بیٹھا
رہتا۔
مگر اس نے دوسری راہ چنی ،اس نے قانونی چارہ جوئی کی تحریر و تقریر کے
ذریعے لوگوں کو آگاہی دی کہ اپنے بچوں کو اس دودھ سے بچا کر صرف ماں کا
دودھ پلائیں اس نے " milking profits " کے نام سے انگریزی میں ایک کتاب بھی
لکھی ، جسے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تو اتنی پزیرائی نہ ملی لیکن مغربی
معاشرے نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔
یہ پرعزم و باہمت شخصیت سید عامر رضا ہیں جو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ، یہیں
پلے بڑھے، تعلیم حاصل کی اور اب پچھلے بیس سال سے اپنی فیملی کے ساتھ
کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔
پوری دنیا کے اخبارات میں ان کے آرٹیکلز، اور انٹرویوز چھپتے ہیں۔ یہ آج کل
اپنا ذیادہ وقت مطالعہ کرتے ہوئے گزارتے ہیں ایک رجسٹرڈ آرگنائزیشن بھی بنا
رکھی ہے ، چند دن ہوئے انہوں نے میرا کالم کہیں پڑھا اور پھر واٹس ایپ پہ
مجھ سے رابطہ کیا ، اگرچہ ہماری دوستی کو چند دن ہی ہوئے ہیں لیکن یہ ایسے
نفیس اور کروفر سے مبراء انسان ہیں کہ مجھے لگتاہے جیسے سالوں سے میں انہیں
جانتا ہوں ۔
ایک ایسا شخص جس کے کام کو پوری دنیا نے سراہا پوری دنیا میں جس کا نام ہے
، کینیڈا سمیت کئی ممالک نے حکومتی سطح پہ ان کے کام کو خراج تحسین پیش کیا
وہ اپنے ہی شہر اور ملک میں اجنبی تو نہیں کہہ سکتے لیکن جو مقام ان کا
بنتا تھا وہ بہرحال ان کو نہیں ملا ۔
پتہ نہیں ہم کب اپنے نیشنل ہیروز کی قدر کرنا سیکھیں گے، قائداعظم رحمہ
اللہ کے قریبی ساتھی محترم لیاقت علی خان سے لے کر ڈاکٹر اے کیو خان تک ہم
نے ہر اس شخص کو عبرت کا نشان بنادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس نے خلوص
دل سے اس ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہا ، ایسے افراد ہمارے معاشرے کے
محسن ہیں لیکن ہم انہیں ایسی سزا دیتے ہیں کہ وہ مجبورا" ملک ہی چھوڑ دیتے
ہیں ۔
میں حکومت پاکستان اور سیالکوٹ کے سیاسی و سماجی رہنماوں سے درخواست کرتا
ہوں وہ سید عامر رضا کے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے سیمینارز منعقد
کریں، سیالکوٹ میں کم ازکم ایک کالج ، سڑک یا چوک کو ان کے نام سے منسوب
کردیں اور کیا ہی بہتر ہو اگر ہم انہیں واپس بلا کر سرکاری طور پہ ان کی
ریسرچ اور وسیع تجربے سے فائدہ اٹھائیں ہمارے ملک میں ہزاروں بچے آج بھی
غیر معیاری ناقص خوارک کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ، انہیں بچانے کے
لئے یہ شخص ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوسکتا ہے ۔ سید عامر رضا صرف سیالکوٹ کے
باسیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے انقلابی نوجوانوں کے لئے ایک روشن
مثال ہیں ۔
|