ہنسنا ہنسانا انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ انسانی
ٹینشن کو دور کرنے اور موڈ بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کی یادداشت میں اضافہ
کرتا ہے اور اس کے دماغ تک آکسیجن کو رواں کرتا ہے انہیں سب اور مزید فوائد
کو دیکھتے ہوئے آج میڈیکل سائنس کی ورزش بھی کرواتی ہے جسے لافٹر تھیرپی
کہا جاتا ہے۔
ہنسنے ہنسانے کے لئے ہر دور میں نت نئے طریقے آتے گئے جن میں لطیفے جو کہ
فرضی ہوا کرتے تھے، بنائے جاتے تھے۔ جس سے کسی کی عزتِ نفس بھی متاثر نہیں
ہوتی تھی اور دیکھنے اور سننے والے افراد بھی محظوظ ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ
دور تھوڑا تبدیل ہوا اور مزاحیہ ڈرامے آنے لگے ۔جس میں بالکل سنجیدگی سے
بات کر بھی اداکار سامنے والے کو ہنسا دیتا تھا, یا پھر ڈرامے کا کوئی
کردار اپنی حماقتوں سے عوام کے دلوں کو لبھاتا اور ان کے چہروں پر
مسکراہٹیں بکھیرتا تھا اگر ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو ایسے
پروگرام پی ٹی وی سے نشر کیے جاتے تھے اور یہ وقت کا اِنتہائی سنہرا دور
تھا۔
پھر کچھ دہائیاں گزرنے کے بعد کامیڈی کی ایک اور قسم معترف ہوئی، جو کہ
عوام کی موجودگی میں "اسٹیج شو" کی صورت میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں فنکار
ایک دوسرے کا مذاق بنا کر ناظرین کو محظوظ کیا کرتے تھے اور اس نے کئ زمانے
تک کے لئے اپنے جھنڈے گاڑے, اور آج تک کامیڈی کی یہ قسم ہمیں ٹیلی ویژن پر
دکھائی دیتی ہے۔
حالیہ دور چونکہ زیادہ جدید اور ٹیکنالوجائزڈ ہوگیا ہے تو عوام خصوصا
نوجوان نسل ٹی وی سے زیادہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے
جہاں اس کو ہر قسم کا مواد میسر ہوتا ہے جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قارئین حضرات، آج کل سوشل میڈیا پر میم ٹرینڈ بڑا مشہور ہے۔ جس میں کسی بھی
شخص کے جملے یا حرکت کے ساتھ اپنی من چاہی بات لگا کر اسے مزاحیہ بنا کر
پیش کیا جاتا ہے۔ ابتدائی دور میں تو یہ صرف فلموں، ڈراموں کے ڈائیلاگس پر
کیا جاتا تھا پر آج اس نے ایک ناقابل برداشت صورتحال اختیار کرلی ہے جس میں
میمرز (میم بنانے والے) علماء کرام کے جملے،قبر، موت، دجال اور شیطان تک کو
اپنے میمز میں شامل کرتے ہیں۔ جو کہ غلطی سے بڑھ کر گناہ ہے کیونکہ جن
باتوں کا دین اسلام نے سنجیدگی کے ساتھ قرآن مجید میں تذکرہ کیا اور آج ان
کا ہی مذاق بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں ساوتھرن گھانا سے نمودار ہونے والی
کوفن ڈانس ویڈیو نے خوب شہرت کمائی اور عوام نے اس کو خوب سراہا، پسند کیا
اور اس پہ لاکھوں کی تعداد میں میمز بنائے ۔ حقیقتاً اس کی شروعات بینجمن
ائیڈو (Benjamin Aidoo) نے کی جو کہ جنازہ بردار کا گروپ چلاتے تھے انہوں
نے عوام سے زیادہ پیسے لینے کے لئے اس میں ڈانس شامل کیا اور یہی اس کی
وجہء شہرت بنی۔
قارئین جنہوں نے اسے بنایا وہ سب غیر مسلم ہیں لیکن یہ سب دیکھ کر ہماری
نئی نسل میں سے موت کا خوف اور قبر جیسے سنگین مراحل کا ڈر ختم ہو رہا ہے۔
اور وہ ہر چیز کا مذاق بنا رہی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں علامہ ضمیر اختر
نقوی جو کہ فقہ جعفریہ کے مشہور عالم دین ہیں، ان کے بیان کی کچھ مخصوص
کلپس پر ان کا مذاق بنایا گیا جس کے ردعمل میں علامہ صاحب نے اپنے غصے کا
اظہار ایک نجی چینل پہ کیا کہ یہ عوام سیریئس نہیں ہے، یہ ہر بات کا مذاق
بنا رہی ہے اور شاید یہی وجہ اس کی بربادی کی بھی ہے۔
قارئین حضرات ہنسی مذاق اپنی جگہ پر,لیکن کسی کا استہزاء کرنا، مذاق اڑانا،
اسلامی معاملات دجال،یاجوج ماجوج جوکہ مستقبل میں ہونے والے سب سے خطرناک
دور ہونگے, ان کا مذاق بنانا، ان پر ہنسنا کہاں کی عقل، یہ تو سراسر وقت کی
بربادی اور حماقت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان بے راہ رویوں سے ہٹ کر اپنے ملک
و قوم کی ترقی کیلئے سنجیدگی سے کام کریں اللہﷻ ہم سب کو ہدایت دے اور
ہمارا حامی و ناصر ہو۔(آمین)
|