مولانا مفتی محمد منصور احمد
اللہ تعالی ‘ حضر ت شیخ اُسامہ بن لادن (رح) کی عظیم قربانی کو قبول فرمائے
اور اُن کے مقدس لہو کو امت مسلمہ کی بیداری کا ذریعہ بنائے ۔ بے شک انہوں
نے دنیا کے تمام راستے چھوڑ کر ایک راستے کو اختیار کیا اور پھر اس پر ایسی
استقامت سے چلے کہ دنیا دنگ رہ گئی ۔ وہ ایک راستہ کو نسا ہے ؟ ابھی عرض
کرتے ہیں لیکن پہلے چند ضروری باتیں ۔
پاکستان میں الزامات کا کھیل جاری ہے ۔ جو لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہیں ‘
اُن کیلئے سب ٹھیک ہے اور راوی چین ہی چین لکھتا ہے ‘ جو اس کے فراق میں دن
رات گن رہے ہیں اُن کی غیرت کو ابال آیا ہوا ہے لیکن وہ بھی خدا نخواستہ اس
لیے نہیں کہ پاکستان یا اہل ِ پاکستان کا تحفظ مقصد ہے بلکہ غرض صرف یہ ہے
کہ دوسروں کو نیچا دکھایا جائے‘ اپنے سابقہ کردار کو قوم کی نظروں سے اوجھل
کر دیا جائے اور امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ ہم سا وفادار کوئی
نہیں ملے گا ۔
پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے یوں باور
کرواتے ہیں گویا پہلی مرتبہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور اب
اُن کی غیرت جاگ گئی ہے ۔ تعجب ہے کہ قوم کو حملہ آور امریکہ کے خلاف صف
آرا ء کرنے کے بجائے یہ راہنما یا نِ قوم آپس میں کیوں دست و گریباں ہیں ۔
حزبِ اقتدار ‘ حزبِ اختلاف اور مسلح افواج کے نمائندے آئیں بائیں شائیں
کرنے کے بجائے قوم کو اصل صورت حال سے آگاہ کیوں نہیں کرتے‘ افغانستان میں
صلیب پرستوں کے ساتھ تعاون سے دستبردار کیوں نہیں ہوتے اور دوست کو دوست ‘
دشمن کو دشمن کہنے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتے ۔
یہ سب اُسی ’’ ایک راستے ‘‘ سے بچنا چاہتے ہیں اور کبوتر کی طرح بلی کو
دیکھ کر آنکھیں موند لینے سے سمجھ رہے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ۔ حالانکہ ابھی
تو صرف ایک قسط وصول پائی ہے ‘ کئی اقساط کی تیاری جاری ہے ۔ کیا خیال ہے
اگر ایبٹ آباد آپریشن پر پوائنٹ اسکور کرنے والوں کو تاریخ کا ایک ورق نکال
کر دکھایا جائے ‘ شاید انہیں بھی اپنے کچھ کرتوت یاد آجائیں ۔ رمزی یوسف
اور ایمل کانسی کے واقعات بھی شاید کسی کسی کو یاد ہوں لیکن ۱۲ / اگست
۸۹۹۱ئ کو پاکستانی فضاؤں میں پانچ سو فٹ بلندی پر پرواز کرنے والے امریکی
ٹام پاک کروز میزائل کی کہانی تو بہت سے لوگوں کو یاد ہو گی ۔ اتفاق کی بات
ہے کہ اُس دن بھی پاکستان کے ریڈار جام ہو چکے تھے اور قومی سلامتی کے
ادارے لمبی تان کر سوتے رہے تھے ۔ یہ میزائل بھی افغانستان میں موجود عالم
اسلام کے عظیم مجاہد شیخ اُسامہ بن لادن(رح) کو نشانہ بنانے کیلئے فائر
ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک میزائل پاکستانی حدود کے اندر بلوچستان کے ضلع
خاران میں بھی آگرا تھا جس پر امریکہ نے ’’ سوری ‘‘ کہہ دیا تھا ۔
پاکستان بحریہ کے فضائی نگہبان اپنی معمول کی پرواز کر رہے تھے ۔ بحیرہ عرب
پر ان کی یہ پروازیں پاکستان بحریہ کی معمول کی پریکٹس ہے ۔ لیکن اس روز نہ
جانے کیوں فضائی نگہبانی پر مامور کیپٹن کی چھٹی حسں نے اسے کسی نا گہانی
صورتحال کا سگنل دے دیا تھا ۔ اس کی وجہ شاید وہ اطلاعات تھیں جو صبح کراچی
کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کرنے والے ایک پی آئی اے کے جہاز نے دی
تھیں ۔ اس جہاز کے کپتان کی اطلاع کے مطابق اس نے معمول کی اونچائی حاصل
کرنے کے لئے جیسے ہی سمندر کے اوپر اڑنا شروع کیا اس سے کچھ فاصلے پر ایک
بڑے جہاز کی پرواز کرنے کے سگنل موصول ہونے لگے ۔ یہ غیر معمولی بات تھی
کیونکہ یہاں فضائی روٹ ہونے کی وجہ سے کسی غیر ملکی جہاز کو بغیر اطلاع
داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ کیپٹن نے فوراً کراچی کے ائر کنٹرول ٹاور کو
صورتحال سے آگاہ کیا جس کے ریڈ ار پر اب ایک سی ۔ 130قسم کا جہاز نمایاں ہو
رہا تھا ۔ کراچی کے ائر کنٹرول ٹاور نے فوراً جہاز سے رابطہ کر کے اپنی
شناخت اور اس علاقے میں پرواز کے مقصد سے آگاہ کرنے کی درخواست کی ۔ پر
اسرار جہاز امریکہ کا ایک جاسوسی ہوائی جہاز تھا اور بحیرہ عرب میں پاکستان
کی فضائی حدود سے تیس یا چالیس نا ٹیکل میل کی دوری پر موجود امریکی بحری
بیڑے سے اڑ کر آیا تھا اپنی شناخت ایک امریکی جہاز کی حیثیت سے کروائی جس
پر ائر کنٹرول ٹاور سے اسے بتایا گیا کہ سویلین جہازوں کے اس روٹ پر اس کی
موجودگی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سویلین جہازوں کے مسافروں کے
لئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کی موجودگی سے کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے
اس پر جہاز کی طرف سے معذرت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ معمول کی مشقیں کر
رہے ہیں جن سے کسی جہاز کو خطرہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود ائر کنٹرول ٹاور سے
درخواست کی گئی کہ وہ اس فضائی روٹ سے نکل جائے جس پر جہاز نے آمادگی ظاہری
کر دی اور اگلے چند منٹ بعد جہاز وہاں سے غائب ہو گیا ۔
فضائی نگہبانی کے لئے سمندر پر پرواز کرنے والے اس جہاز کے پائلٹ کے شبہات
کی جلد ہی تصدیق ہو گئی ۔ اسے پاکستان کی سمندری حدود کے نزدیک امریکہ بحری
بیڑے کی نقل و حرکت دکھائی دے رہی تھی۔ تین بحری جہاز پاکستانی ساحل کی طرف
بڑھ رہے تھے ۔ دوسرے ہی لمحے پائلٹ نے اپنے مستقر کو اس صورتحال سے آگاہ کر
دیا اور اگلے ہی لمحے یہ پیغام نیول ہیڈ کوارٹر سے جی ایچ کیو پہنچا دیا
گیا ۔ جب یہ پیغام جی ایچ کیو پہنچا تو وہاں امریکن چیف آف سٹاف جنرل
رالسٹن کی کچھ دیر کے لئے ’’سٹاپ اوور ‘‘ کی درخواست بھی پہنچ چکی تھی اور
وہ پاکستانی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل جہانگیر کرامت کے مہمان کی
حیثیت سے اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر لینڈ کر چکے تھے ۔
جی ایچ کیومیں جنزل رالسٹن نے جنرل جہانگیر کرامت سے رات 9بجے ملاقات کی
ملاقات پر جنرل کرامت نے انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستانی
ساحلوں کے نزدیک گشت کرتے امریکن بحری جہازوں سے متعلق استفسار کیا تو
امریکن جنرل نے گہری مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر جماتے ہوئے کہا : ’’ آپ بالکل
بے فکر ہو جائیے ۔ یہ جہاز پاکستان کے خلاف ہرگز کوئی کاروائی نہیں کرنے
والے . پاکستان ہمارا دوست ملک ہے ‘‘ ۔ اس جواب سے گو کہ پاکستانی جرنیل کی
تسلی نہیں ہوتی تھی . لیکن جنرل رالسٹن نے اس موضوع کو مزید آگے بڑھانے کے
بجائے گفتگو کے لیے موضوع ہی تبدیل کر دیا ۔ تھوڑی دیر تک گپ شپ کے بعد
امریکن جنرل روانگی کے لئے تیار تھا ۔ اس نے ’’سٹاپ اوور‘‘ پاکستان میں ایک
خاص مقصد کے لئے لیا تھا اور اب وہ مقصد پورا ہو چکا تھا ۔ جب جنرل جہانگیر
کرامت امریکن جنرل رالسٹن کو الوداع کہنے کے لئے اسلام آباد ائر پورٹ کی
طرف جا رہے تھے تو شاید پاکستان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ امریکن بحری
بیڑے کے جہازوں سے ٹام ہاک کروز میزائل فائر ہو چکے ہیں ۔
دم رخصت رات کے قریباً دس بجے امریکی جنرل رالسٹن نے پاکستانی کمانڈر انچیف
کو بتایا کہ وہ پاکستانی فضا سے گزرنے والے میزائلوں کو بھارتی میزائل نہ
سمجھیں ۔ یہ کاروائی امریکن بحریہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف کی ہے ۔ جنرل
رالسٹن دراصل اس پیش بندی کے لئے پاکستان آیا تھا ۔ امریکہ کو ڈر تھا اگر
کوئی میزائل اپنے نشانے سے بھٹک کر پاکستانی سرحد میں گر پڑا یا پاکستانی
سرحد کے نزدیک گر پڑا تو پاکستانیوں کو کہیں اس حملے کے پس پردہ بھارت کا
ہاتھ دکھائی نہ پڑے کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سخت تناؤ کی حالت
میں ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان ایک لمحہ توقف کئے بغیر بھارت پر حملہ
کر دیتا اور عین ممکن تھا کہ صورتحال اتنی سنگین ہو جاتی جس کے بعد ایٹمی
ہتھیار استعمال ہونے لگتے . بلکہ ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ۔ امریکن جہاں ایک طرف
اس خدشے کا شکار تھے وہاں دوسری طرف انہیں یہ خدشات بھی لاحق تھے کہ اگر
انہوں نے افغانستان پر حملے سے پہلے پاکستان کو باخبر کر دیا تو عین ممکن
ہے پاکستان طالبان کو اس حملے کی پیشگی خبر کر دے اور امریکن حملہ ناکام ہو
جائے ۔ اب صورت حال نہ جانے رفتن نہ پائے ماندن والی بن چکی تھی ۔ اس لئے
امریکنوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد میزائل فائر کرنے کے بعد ہی پاکستان کو
اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ۔ امریکن چاہتے تھے کہ پاکستان کے علم میں اس
حملے کی خبر تب آئے جب وہ کسی بھی صورت میں طالبان کی مدد نہ کر سکے ۔ اور.
ایسا ہی ہوا.
جنررالسٹن کی ٹائمنگ بڑی شاندار تھی ‘ عین ان لمحات میں اس نے جنرل جہانگیر
کرامت کو اس حملے کی اطلاع دی جب امریکن کروز میزائل افغانستان میں منتخب
اہداف پر گر چکے تھے یا پھر گرنے والے تھے ۔ جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی
تشویش یقیناً جنرل رالسٹن تک پہنچا دی تھی اور اس کی رخصتی کے فوراً بعد
پاکستانی وزیر اعظم کو اس حملے کی خبر سے آگاہ کر دیا ۔ ۷۲ / اگست کے
اخبارات میں پاکستانی وزیر اعظم کے حوالے جو بیانات شائع ہوئے اور وزیر
خارجہ سرتاج عزیز نے جو بیان سینٹ میں دیا اس کے ساتھ ہی جنرل جہانگیر
کرامت کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تو اصل میں یہ تینوں بیانات صحیح تھے .
پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں حملے کے بعد خبر دی گئی ۔
پاکستانی کمانڈر انچیف کا کہنا تھا کہ حملے سے پہلے خبر دی گئی .
اپنے لیڈروں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن کر دل ڈوبنے لگتا ہے لیکن پھر ایک
بات سے دل کو ڈھارس ہوتی ہے۔ صدیوں کی حکمرانی کے بعد جب مسلمان اسپین
﴿اندلس﴾ میں مسلسل شکستوں کا سامنا کر رہے تھے اور ان کے تحفظ کا ہر سہارا
ایک ایک کر کے ختم ہو رہا تھا تو ’’ غرناطہ ‘‘ میں عیسائیوں کے محاصرے میں
گھرے ہوئے ایک مجاہد ‘ کمانڈر موسیٰ نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا
تھا : ’’ میں لوگوں کا جذبہ اس قدر شکستہ دیکھتا ہوں کہ اب سلطنت کو بچانا
ممکن نظر نہیں آتا لیکن ارفع اور عظیم انسانوں کیلئے اب بھی ایک متبادل
راستہ موجود ہے. عظیم الشان موت کا راستہ . آؤ ! اپنی آزادی کی حفاظت کرتے
ہوئے اور غرناطہ کے اَلم کا بدلہ لیتے ہوئے ہم اپنی جانیں دے دیں ۔ مادرِ
ارض اپنے بچوں کو آغوش میں لے لے گی اور اگر کسی کی لاش چھپانے کیلئے قبر
نہ ملی تو آسمان کو بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ وہ اسے چھپائے ۔ خدا نہ کرے
کہ آئندہ یہ کہا جائے کہ غرناطہ کے عالی مرتبہ لوگ اس کے دفاع کی خاطر مرنے
سے ڈرتے رہے ‘‘۔
جی ہاں ! یہ ہی ہے وہ ارفع اور عظیم لوگوں کا راستہ جو دنیا کی ہر مادی
آسائش کو چھوڑ کر اور اپنے مال و منصب کو قربان کر کے شیخ اُسامہ (رح) نے
اختیار کیا ورنہ اپنے حکومتی زعماء ‘ سیاسی قائدین اور عسکری سالاروں کا
رویہ دیکھ کر تو بلا اختیار یہ جملہ آجاتا ہے : ’’خدا نہ کرے کہ آئندہ یہ
کہ کہا جائے کہ پاکستان کے ’’عالی مرتبہ ‘‘ لوگ اس کے دفاع کی خاطر مرنے سے
ڈرتے رہے ‘‘۔
کیا خیال ہے آپ کا ‘ آج وطنِ عزیز کو غلامی اور محکومی سے بچانے کیلئے بھی
اسی راستے پر چلنے کی ضرورت نہیں ؟ ؟؟ |