نسل پرستی اور اسلام

یہ کیا؟"آج صبح کی لالی نمودار کیوں نہیں ہو رہی پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا چلو اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو کر ماجرے کا احوال جانتے ہیں"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں سبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود ہیں اور فکر مندی کے عالم میں گویا ہوئے کہ"اے اللّٰہ کے محبوب کیا بات ہے سورج کیوں طلوع نہیں ہو رہا؟"اتنے میں جبرئیل تشریف لاتے ہیں نبی محترم کے لب گویا ہوئے کہ اے جبریل"دن کیوں نہیں ہو رہا جبریل نے جواب دیا اے اللّٰہ کے محبوب"اللّٰہ کو اپکے اس غلام عاشق کی آواز سے عشق ہے اس لیے جب تک بلال اذان نہ دے گے اللّٰہ سورج کو طلوع ہونے کا حکم جاری نہیں کرے گا"
بلال کو کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے سورج نے منہ دکھائی کروائی۔۔۔۔۔۔۔
جناب یہ سب یہاں بیان کرنے کا قصد ابھی کچھ سطروں میں اگے آ پکو سمجھ آجاۓ گا۔25 مئی 2020 ایک سیاہ فام جارج فلوئیڈ جسکی عمر 46 کے لگ بھگ تھی ایک سفید فام پولیس والے کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا۔جس نے تقریباً 9منٹ تک جارج کی گردن کو گٹنے سے دبائے رکھا اور وہ معصوم دہائیاں دیتا رہا کہ"میں سانس نہیں لے پا رہا"اس پر مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بے بنیاد الزامات بھی عائد کییے گئے کہ جعلی بل کی رقم سے سگریٹ خریدے اور نظامی نسل پرستی،پولیس کی بربریت اور متحدہ ریاست امریکہ میں احتجاج کیا۔جارج کے اہلخانہ نے نئے آنیوالے الزامات کو لمحہ بہ لمحہ قرار دیا اور کہا کہ "انصاف کے راستے پر بڑھنے کا یہ ایک اہم قدم ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ جارج کی لاش کو سپرد خاک کرنے سے پہلے ایک اہم کاروائی عمل میں آئی"
یہ سیاہ سفید کی انسانی تجارت امریکی سرپرستی میں سترہویں صدی میں پھلنے پھولنے لگی۔امریکہ میں سب سے پہلے آباد ہونے والے"ریڈ انڈینز" تھے جو بڑے پرامن طریقے سے زندگیوں کو بسر کر رہے تھے۔1492 کو کولمبس کا جہاز امریکہ کے ساحلوں پر اترا۔اور بہت سی اقوام کے چوروں،لٹیروں،ڈاکوں اور جرائم پیشہ افراد کو امریکہ کی شکل میں پناہگاہ میسر آئی۔پہلی بار سیاہ فام کی نسل پرستی "ٹیکا اوک" کے علاقے میں ہوئی جہاں پر پورا "اوٹومی"قبیلہ بوڑھوں،عورتوں اور بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔یوں علاقوں پر علاقے فتح ہوئے۔اور قبیلے صفحہ ہستی سے مٹتے رہے۔آج بھی پورے امریکہ میں "ریڈ انڈینز"کی 500 سے زیادہ آبادیاں ہیں جنہیں "reservations"کہا جاتاہے۔ سولہویں صدی کا امریکہ "ریڈ انڈینز" کے قتل عام اور نسل کشی کا امریکہ تھا۔جس کولمبس کو امریکا کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اسی کی سر پرستی میں 5لاکھ "ریڈ انڈینز"کو قتل کیا گیا۔مقامی آبادی کا قتل اور انسانی تجارت 4 سو سال تک چلتی رہی۔امریکی،جمہوری اور آئینی حکومت بھی قائم ہوئی۔"جارج واشنگٹن" پہلا امریکی صدر منتخب ہوا۔
1661میں پہلا قانون بناجس میں کوئی گورا کالے سے اور کالا گورے سے شادی نہیں کر سکتا اور جو کوئی اس حرکت کا مرتکب ہوا سزا کا حقدار ٹھہرایا جائے گا۔۔۔۔۔۔یہ قانون 21 ریاستوں میں فوراً لاگو ہوا۔۔ان بے چارے امریکی سیاہ فام غلاموں کا قتل اور امریکہ کے ساحلوں تک کا سفر دردناک اور المناک کہانیوں سے عبارت ہے۔۔انہیں بحری جہازوں کے ایسے کیبنوں میں رکھا جاتا جن کی چھت صرف ڈھائی فٹ اونچی ہوتی۔۔۔۔۔خوف،بیماری اور گھٹن سے جو مر جاتا اسے سمندر برد کر دیتے۔۔۔۔1973 میں ایک آئین "fugitive slave act "پاس کیا گیاجس میں غلام کو بھگانا یا فرار کرنا جرم ہو گا۔یہ قانون اس لئے منظور کیا گیا کیونکہ سیاہ فام میں بغاوت کی چنگاریاں سلگنے لگی تھی۔اس بغاوت کا پہلا علمبردار "Nat Turner" تھا۔جسکی ماں ایک افریقی غلام تھی جسے گوروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔۔۔۔۔
ڈیڈھ سو سال سے سیاہ فام افراد سے نفرت کی آگ امریکی معاشرت،تہزیب اور زندگی کے دیگر معاملات میں مسلسل سلگ رہی ہے۔۔۔۔۔چند سال بعد کسی سیاہ فام کی موت کی صورت میں رونما ہوتی رہتی ہے۔۔۔۔ٹھیک 140سال بعد 75٪ گوری اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے کر ایک بار پھر امریکہ کو اسی طرح فتح کر لیا جیسے 1492 میں کولمبس کی سربراہی میں فتح کیا تھا فرق صرف یہ تھا کہ اس وقت بندوق استعمال ہوئی اور اس دفعہ ووٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وقت ایک سا نہیں رہتا۔ہلکی ہلکی ہوا سلگتی چنگاری کو آگ ںناتی ہے اور سب جلا کر خاکستر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
جارج بھی وہی سلگتی چنگاری ثابت ہو رہا ہے خود تو مارا گیا لیکن ایک راستہ دکھا گیا۔نسل پرستی کو ختم کرنے کا اور سب کو ایک ہونےکا۔۔۔۔۔۔کینیڈا میں بھی نسل پرستی کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔۔۔جس میں "وزیراعظم جسٹن ٹروڈو" نے اچانک شرکت کر کے لوگوں کے دل جیت لیے۔۔۔انہوں نے اس موقع پر گٹنے زمین پر ٹیکے اور ریلی کے لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا۔۔
ایران کے سپریم لیڈر" آیت اللہ خمینی" کا کہنا ہے کہ سیاہ فام جارج کا قتل دراصل امریکہ کا ہولناک اور مکروہ چہرہ ہے
انقلاب ایران کے کی 31 ویں برسی سے خطاب کے دوران کہا کہ امریکہ میں جاری مظاہروں میں "میں سانس نہیں لے پا رہا" سب لوگوں کا نعرہ بن گیا۔آج ہم امریکہ میں جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ ان حقائق کی عکاسی کرتا ہے جو ہمیشہ سے چپھے ہوئے تھے۔ان گوروں نے افغانستان،عراق،شام،ویتنام اور دوسرے بہت سے ممالک کے ساتھ یہی کیا۔ان ریلیوں میں موجود مظاہرین کے خلاف حکومتی کارروائیوں کی دھکیاں بھی دی گئی لیکن مظاہرین کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔معروف کرکٹ پلئیر "ڈیرن ڈیمی" بھی اس قتل پر سخت رنجیدہ دکھائی دیئے۔۔اور کہا کہ اب خاموش رہنے کا وقت گزر چکا سیاہ فام عرصے سے ان سب حالاتوں کو برداشت کر رہے ہیں اب اور نہیں جارج کے اس غیر انسانی قتل کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے"
تو جناب!یہ انسانی حقوق کے وہ علمبردار ہیں جنہوں نے بس مرضی کے لوگوں کو تحفظ دینے کا علم اٹھایا ہے۔فلسطین،کشمیر،شام،برما اور بہت سے ایسے مظلوم جو ان سبکی سفاکیت کا دن بدن نشانہ بن رہے ہیں۔ارے اس دور جدید کے ٹیکنالوجی یافتہ اور نام کا درد دل رکھنے والوں!آو تم لوگوں کو 1400 سال پیچھے لے کر چلوں!!جب اسلام مکمل ہونے پر میرے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔اللہ کی نظروں میں سب برابر ہیں۔کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں۔۔۔۔۔ہمارے ہاں ذات پات کی کوئی گنجائش نہیں۔ہمارے ہاں کسی کو نیچا یا اعلی و ارفع تصور نہیں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اسلام نے تمام قوموں اور لوگوں کو برابر کہا ہے۔ہمارا دین تاکید کرتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو حقیر جان کر اسے تضحیک کا نشانہ نہ بنائے۔۔۔۔۔کیا عجب وہ ان سے بہتر ہو۔ہمارا دین ایک خدائے واحد،خالق کون و مکاں پروردگار عالم پر یقین رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔
آو میں سکھاوں حقوق جو مجھے میرے جد نے سکھائے۔میرے عزت اور تکریم والے مذہب نے سکھائے۔آقائے نامدار نے فرمایا کہ"مجھ سے بھی پہلے اور سب سے پہلے کوئی ہے جو جنت میں داخل ہو گا تو محفل رسول اللہ صلی اللہ علیہ میں ہلچل مچی کہ کون ہے وہ خوش قسمت ترین انسان ۔۔۔۔۔۔آقاے دو جہاں گویا ہوئے کہ وہ انسان بلال حبشی ہو گا جو میرے اونٹ کی لگاموں کو پکرے جنت میں پہلا قدم رکھے گا" یہ بات پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کرتی ہے تم سب کے بنائے گئے پیمانوں اور ستونوں کو۔اسے کہتے ہیں برابری۔انسانی حقوق کے نام لیواؤں جاو مذہب اسلام کو اپنا قبلہ بناو کیا پتا روز قیامت تم لوگوں کی دادرسی کی جا سکے یا شاید مظلوم جارج اور پہت سے نہتے مارے گئے لوگ تمہارا گریباں نہ پکڑ ے۔۔۔شاید یا عین ممکن ہے کہ دوزخ کی آگ تم پر حرام ہو جائے۔۔شاید کہ جنت کی ہوائیں تمہیں سکون بخشے لیکن یہ صرف مہلت تب تک ہے جب تک سانسوں کی ڈور قائم ہے جونہی یہ ٹوٹی پھر تم جانو اور تمہارے اعمال۔۔۔۔۔۔
پھر کوئی شاید نہیں ہوگا پھر عملی کاروائیوں کو عمل میں لایا جائے گا۔۔
 

Rida Bashir
About the Author: Rida Bashir Read More Articles by Rida Bashir: 19 Articles with 12587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.