پیشہ ور بھکاری نما

یہ 60 کی دہائی کا ذکر ہے۔ آج کاریڈ کریسنٹ اس وقت ریڈ کراس ہوتا تھا۔لاہور کے اسمبلی چوک میں جادو گھر (فری میسن ہال) اور سول لائنز تھانے کے درمیان میں اس کا دفتر ہوتا تھا، شاید اب بھی وہیں ہے۔ مگر اس وقت وہ ایک زندہ ادارہ تھا۔ آج کے بونے اور انتہائی ہلکے لوگوں کی بجائے بیگم وقارالنسا جیسی قابل قدر اور ذی وقار خاتون اس کی چیئر پرسن تھیں۔ ادارے کا ایک خاص مقام تھا۔ چونکہ خیراتی ادارہ تھا اور خیراتی اداروں کی آمدن میں اس کے کارکنوں اور عہدیداروں کا معاشرے میں اپنا مقام بہت اہم ہوتا ہے ، لوگ ادارے کو چلانے والوں کے کردار اور افعال کو بھی دیکھتے ہیں۔ اس لئے اس وقت وہ ادارہ انتہائی شاندار کارکردگی کا حامل تھا۔خیرات ،گرانٹ اور دیگر ذرائع کے علاوہ فنڈز کی فراہمی کے لئے ہر سال لاٹری کی ایک سکیم بھی چلائی جاتی تھی۔ بہت سے لوگ اس سکیم سے وابستہ تھے۔ چھ سات ماہ سکیم چلتی، پھر پانچ چھ ماہ کا وقفہ آتا اور دوبارہ ہلکی پھلکی تبدیلی کے ساتھ لاٹری کا سفر بڑے بھرپور انداز میں نئے سرے سے شروع ہو جاتا۔عام آدمی لاٹری کی ٹکٹ اس یقین کے ساتھ خریدتا کہ وہ ایک کار خیر میں حصہ لے رہا ہے۔یوں لاٹری ٹکٹوں کی بہت سیل ہوتی اور یہ آمدن ادارے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہوتی۔

لاٹری سیل سے وابستہ لوگ بڑے متحرک ہوتے۔ ہر شہر میں انہوں نے کئی کئی سٹال لگائے ہوتے۔ ہر سٹال پر دو تین ملازم ہوتے جولاؤڈ سپیکر پر اس کارخیر کی تشہیر کرتے اور لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ٹکٹیں خریدنے کی درخواست کرتے۔ ان سٹالوں اور ملازمین کے بڑے نیٹ ورک پر بے پناہ اخراجات آتے۔ یہ لوگ سکولوں میں سرکاری دباؤ کے ساتھ پہنچ جاتے اور تمام بچوں کو ٹکٹ خریدنے پر مجبور کرتے۔پہلے میرا خیال تھا کہ اس سارے معاملے میں ریڈ کراس والے ان کی معاونٹ کرتے ہیں مگر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ تو ایک زبردست کاروبار ہے۔ ریڈکراس کی معاونت فقط یہاں تک ہوتی کہ انہیں کسی بھی چوک میں سٹال لگانے کی اجازت مل جائے، یا سکول ڈیپارٹمنٹ سے ہیڈ ماسٹروں کے نام ایک جنرل خط لکھوا دینا،باقی سب کام انہیں خود کرنا ہوتا۔سٹال اور ملازمین کا خرچہ ، ذاتی اخراجات اوٹر انسپورٹ ان کا ذاتی مسئلہ تھا۔ریڈ کراس ان کو کمیشن دیتا تھا۔ مجھے اصل رقوم پوری طرح یاد نہیں مگر کچھ اس طرح تھا کہ بیس ہزار کی سیل تک دس فیصد، پچاس ہزار کی سیل پر بیس فیصد ، لاکھ روپے کی ٹکٹیں فروخت ہوں تو تیس فیصد اور اگر پانچ لاکھ یا زیادہ فروخت ہو تو پچاس فیصد ان لوگوں کا۔ تمام بیچنے والوں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اتنی زیادہ فروخت کر لیں کہ پچاس فیصد کی حد عبور ہو جائے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہ بہت بڑی رقم تھی کہ اس وقت ٹویوٹا کرونا، جو کرولا سے بڑی گاڑی ہے ،کی قیمت فقط اٹھارہ ہزار تھی۔لاٹری کا کام بند ہونے تک ، کہ جب حکومت نے اسے جوا قرار دے کر اس روک دیا، بہت سے لوگ جنہیں میں جانتا ہوں اس کاروبار کے سبب دنوں میں لکھ پتی ہو گئے۔

کبھی بس یا ٹرین پر سفر کریں تو سفر کے دوران ایک آدمی کھڑا ہو کر آپ کو دعوت دیتا ہے کہ جنت میں گھر خرید لیں۔ اس کے ہاتھ میں مسجد کے چندے کی رسید ہوتی ہے۔ اس کی جذباتی تقریر سن کر بہت سے لوگ اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں ۔ کوئی رسید مانگ لے تو رسید بک میں سے ایک کاٹ کر اسے پکڑا دیتے ہیں۔ رسید پر رقم لکھنے کا کہو تو جواب ملتا ہے کہ خود لکھ لیں۔رسید پر اگر نظر ڈالیں تو مسجد کا نام تو ملے گا مگر اس مسجد کا مکمل پتہ نہیں اور اگر کسی پر پتہ لکھا ہو تو بہت کم چانس ہے کہ وہ بستی جہاں مسجد بتائی جا رہی ہے اس دھرتی پر ہو۔چند رسیدیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر صحیح پتہ ہو گا مگر چندہ لینے والے شخص کی حتمی کوشش ہو گی کہ وہ آپ کو رسید نہ دے۔ وجہ بڑی سادہ ہے۔ کسی گاؤں کی چھوٹی سی مسجد کے امام نے وہ رسیدبک چھپوائی اور کچھ پیشہ ور لوگوں کو چندہ اکٹھا کرنے پر مامور کیا۔ اسے یقین نہیں تھا کہ وہ پیشہ ور لوگ اسے پیسے اکٹھے کرکے لا دیں گے۔اس نے ان سے پانچ سات سو وصول کرکے انہیں رسید بک اس کھلی چھوٹ کے ساتھ دے دی کہ اس رسید پر لوگوں سے جو مرضی سمیت لے۔زیادہ سے زیادہ سمیٹے کے چکر میں چندہ مانگنے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ رسید بچا لے تا کہ رسید بک دیر تک کام آئے۔جن رسیدوں پر کچھ بھی واضع نہیں ہوتا وہ لاہور میں میو ہسپتال کے ساتھ ہسپتال روڈ چلے جائیں ۔ چھوٹے چھوٹے بہت سے پریس ہیں۔ کسی سے سو پچاس میں رسیدبک مل جاتی ہے۔ ایک کتاب لیں اور فوراً کاروبار شروع۔

شوکت خانم کی تعمیر کی ابتدا ہوئی تو عمران کی مدد کے لئے اشرافیہ کا ایک طبقہ حرکت میں آگیا۔عمران خان نے جو پیسے اکٹھے کئے اس سے بہت زیادہ ، اشرافیہ کے وہ لوگ جو پیشہ ور کی حیثیت اختیار کر گئے ، نے عمران کو اکٹھے کرکے دیئے اور آج تک دے رہے ہیں۔ اس اشرافیہ کے زیادہ تر لوگ کچھ نہیں کرتے، سارا سال چندہ جمع کرتے ہیں۔ نیکی کا کام کرنے کے حوالے سے نیک نامی بھی کماتے ہیں اور ۔۔۔۔ بہت کچھ کماتے ہیں۔یہ لوگ پیشہ ور بھکاری تو نہیں مگر بھکاری نما ضرور ہیں۔ دکھانے کو ہلکا پھلکا کاروبار بھی بتاتے ہیں مگر اصل کاروبار چندے کا حصول ہی ہے۔ عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال بہت پیارا ہے ۔ اس کے لئے فنڈ جمع کرنے والے اس کی مجبوری۔ وہ آج بھی ان کے نرغے میں ہے اور ان سے نجات نہیں پا سکتا۔مشیروں کی فوج ظفر موج انہی پر مشتمل ہے ، بعض تو یرقان کے مریض نظر آتے ہیں، مگر چندہ جمع کرنے میں لاثانی اور ہمارے لیڈر ہیں اس لئے مجبوری ہے کہ ان کا احترام کیا جائے۔ ہمارے مسائل کی یہی وجہ ہے کہ آج حکمرانی عمران، منتخب نمائندے یا فوج نہیں ، اشرافیہ کے ان پیشہ ور بھکاریوں نما لوگوں کے ہاتھ ہے جنہیں مانگنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500471 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More