کانپور شیلٹر ہوم: سرکاری پناہ گاہ میں کورونا اور بد انتظامی کا قہر

تہذیب جدید نے حقوق نسواں کا شور شرابہ تو خوب کیا لیکن زمینی حقائق گوہی دیتے ہیں کہ اس سے عام خواتین کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ آج بھی انسانی سماج کے اندر ظلم و جبر کا شکار خواتین سرکاری پناہ گاہ کی محتاج ہیں۔ ان خواتین کے لیے یہ شیلٹر ہومس کس قدر محفوظ ہیں اس کا اندازہ بہار کے مظفرپور اور اتر پردیش کے دیوریا شہر میں سامنے آچکا ہے۔ ان مقامات پر رونما ہونے والے واقعات عزت و ناموس کی پامالی سے لے کر قتل و غارتگری تک کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان جرائم کے تار سیاست کے گلیاروں سے جڑے ہوئےہیں ۔ سوئے اتفاق سے دونوں مقامات پر بی جے پی اور اس کی حلیف جے ڈی یو سرکارہے ایک جگہ سوشاسن بابو اور دوسری جگہ ایک نام نہاد یوگی حکومت چلا رہا ہے۔ اب اسی طرح کا ایک اور بھیانک معاملہ کانپور کے سمواسنی گرہ سے سامنے آیا ہے لیکن افسوس کہ کورونا اور چین ہمارے اعصاب پر اس طرح سوار ہے کہ وہ عوام و خواص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا اور بات آئی گئی ہوگئی۔

کانپور کی سرکاری پناہ گاہ میں کل ۱۷۰ نابالغ بچیاں اور ۵۹بے سہارہ خواتین قیام پذیر تھیں ۔ ان میں سے صرف ۱۴۵ کی کورونا جانچ ہوئی اور اس میں ۵۷ کو کورونا سے متاثر پایا گیا ۔ یہ تعداد ۳۹ فیصد سے زیادہ ہے۔یکم اپریل کو دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے اعلان کیا تھا کہ تبلیغی جماعت مرکز کے 24 افراد کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے جبکہ اس بیماری کی علامات والے 334 لوگوں کو الگ الگ اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔تقریبا 1500 سے 1700 لوگ مرکز میں آئے تھے جبکہ 1033 لوگوں کو یہاں سے نکالا گیا ہے۔ایک ہزار میں ۲۴ مثبت اب اگر علامات والوں میں سے سب کے سب کو کورونا مثبت مان لیا جائے جو ناممکن ہے تب بھی اس کا تناسب سرکاری شیلٹر ہوم سے کئی گنا کم بنتا ہے۔ اس کے باوجود وزیر موصوف نے فرمایا تھا کہ تبلیغی جماعت نے لاک ڈاؤن کے دوران قوانین کو توڑ کر جرم کیا ہے۔انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے مرکز کے سربراہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ امیر تبلیغ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والا ستیندر جین خود کورونا پوزیٹیو ہوگیا ہے ۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سمواسنی گرہ چونکہ صوبائی حکومت کے زیر نگرانی چلتا ہے اس لیے کیا یوگی ادیتیہ ناتھ پر بھی مولانا سعد کی مانند عمداً قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا ۔
 
یہ تو اس معاملے کا ایک پہلو ہے لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ وہاں موجود ۷ نابالغ لڑکیوں کا حاملہ ہونا ہے۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی کانپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے یہ صفائی پیش کردی کہ شیلٹرہوم میں رہنے والی7 حاملہلڑکیوں میں سے صرف 5کےکورونا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ کاش کے وہ بتاتے کہ باقی دو کا ٹسٹ ہوا یا نہیں؟ خدا کرے کہ جانچ کے بعدوہ بھی متاثر نہ ہوں ۔ ڈی ایم نے یہ وضاحت بھی کی یہ لڑکیاں شیلٹرہوم لائے جانے سے پہلے ہی حاملہ تھیں۔ یہ در اصل چور کی داڑھی میں تنکا والی بات ہے کیونکہ اگر وہ پہلے سے بھی حاملہ تھیں تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شیلٹر ہوم میںان کا جنسی استحصال نہیں ہوا اور جنسی زیادتی کے باوجود حاملہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا سوال کسی نے کیا بھی نہیں تھا۔ اصل مدعا یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اندر اتنی بڑی تعداد کے اندر بے سہارا لڑکیوں کا جنسی ہراسانی کے نتیجے میں حاملہ اور بےسارا ہوجانا کس بات کی علامت ہے؟ وہ توخیر ڈی ایم کے بس میں یہ نہیں تھا کہ وہ لڑکیوں کا پہلے سے کورونا پوزیٹیو ہونے کا اعلان کرتے ورنہ بعید نہیں کہ الٹا انہیں کو کورونا پھیلانے کا مجرم ٹھہرا دیا جاتا کیونکہ یوگی ہے تو ممکن ہے ۔ دہلی کے اندر فساد زدگان کو فسادی قرار دیا ہی جارہا ہے ۔

کانپور کے اس شیلٹر ہوم کی لڑکیوں سے متعلق میڈیا شائع ہونے والی خبروں کے بعد قومی انسانی حقوق کمیشن نے از خود اس کا نوٹس لیتے ہوئے یو پی حکومت سے جواب طلب کرلیا کیونکہ انتظامیہ پر کورنا وائرس کے علامات ظاہر ہونے کے باوجود اسپتال لے جاکرجانچ کرانے میں مجرمانہ تاخیر کا الزام ہے۔ کمیشن کے مطابق میڈیا سے موصول ہونے والی خبریں اگر سچ ہیں تو کہنا پڑے گاکہ عوامی نمائندے ان متاثرہ لڑکیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اسی طرح سے ریاستی تحویل میں ان بچیوں کے زندہ رہنے کا حق،آزادی،اور وقار کے تحفظ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کمیشن نے یوگی حکومت کے چیف سکریٹری سے اس ضمن میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ موجود حالت،ان کا علاج اور انتظامیہ کی جانب سے انہیں فراہم کی جانے والی کونسلنگ کی تفصیل پیش کرے۔کمیشن نے بجا طور پر ڈائرکٹر جنرل آف پولیس(اترپردیش) سے اس ضمن میں درج ایف آئی آر اور جاری تفتیش کے موجودہ حالت کے بارے میں جواب طلب کیا ہے۔ان دونوں محکموں سے 4ہفتوں کے اندر جواب توقع کیگئی ۔

کمیشن کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے کیونکہ مسئلہ صرف صحت کا نہیں ہے۔ وہ مظلوم خواتین جن درندوں کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں اگر ان مجرمین کو قرار واقعی سزا نہیں ملتی تو یہ ظلم و جبر کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا ۔ کسی بھی مہذب سماج کے لیے اس سے بڑی شرمناک بات کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ وہاں پر خواتین یا بچے مظالم کا شکار ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں اس طرح کی زیادتی کو روکنے کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں لیکن افسوس کہ ان سزاوں کو جدید تہذیب کے علمبرداروں نے ظالمانہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس حماقت کے نتیجے میں معاشرےکے اندر ظلم و جور کا بازار گرم ہو گیا ۔ملک کی عوام انسانی حقوق کے کمیشن کی شکر گزار ہے کہ اس نے شہریوں کے بنیادی حقوق کی جانب سرکار اور انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائی ورنہ فی زمانہ زندہ رہنے سے لےکر آزادی اور وقار و تحفظ کے حقوق کو علی الاعلان پامال کرنے پر فخر جتایا جاتا ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220813 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.