احتکار کے لغوی معنی گراں فروشی کی نیت سے غلّہ کی
ذخیرہ اندوزی ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اس کا مفہوم ہر ایسی چیز جو غذائی
ضرورت میں کام آتی ہو، اسے مہنگا بیچنے کے لئے روک رکھنا ہے۔ اس بات کو
آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص غلّہ وغیرہ اس نیت سے
خریدے اور اپنے پاس روک رکھے کہ جب گراں بازاری کا وقت آئے تو اسے بیچوں گا
،احتکار کہلاتا ہے ۔اس کو عرفِ عام میں مہنگائی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ پس
احتکار( ذخیرہ اندوزی ) سے مراد یہ ہے۔ ’’کوئی شخص اس نیت سے غلّہ یا کوئی
اور جنس بڑی مقدار میں اس لئے خریدے یا جمع کرے کہ جب مارکیٹ میں اس کی کمی
واقع ہو اور خریدار یا ضرورت مند مجبور ہوکر اُس کی مقررہ قیمت پر خریدیں ۔البتہ
اگر کسی چیز کے ذخیرہ کرنے سے مارکیٹ میں قلت اور مہنگائی میں اضافہ نہ
ہوتا ہو تو یہ ذخیرہ اندوزی نہیں کہلاتی ہے ۔‘‘ ( ہدایہ کتاب البیوع ) ۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔ ’’ جس نے ذخیرہ اندوزی اس ارادہ سے کی کہ وہ اس طرح
مسلمانوں پر اس چیز کی قیمت چڑھائے وہ خطا کار ہے۔ ‘‘حضرت عمر ؓ سے روایت
ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’ تاجر کو ( اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ) رزق دیا جاتا
ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا لعنتی ہے۔ ‘‘ (مشکوٰۃ )۔اس حدیث پاک ﷺ سے یہ
مراد ہے کہ جو شخص اپنا مال رائج نرخ پر فروخت کرے ، یعنی اس کی نیت میں
ذخیرہ اندوزی نہ ہو تو اسے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور اس میں
برکت ڈال دی جاتی ہے اس کے خلاف جو شخص ذخیرہ اندوزی سے لوگوں کو پریشان
کرتا ہے وہ ملعون ٹھہرتا ہے اور خیر و بھلائی سے محروم رہتا ہے۔ ارشاد
ایزدی ہے۔ ’’ اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے آسمان
میں (یعنی اﷲ تعالیٰ کے ذمہ میں ) ہے ۔ ‘‘ ( سورۃ الذریات : 22 )۔ سورۃ
السباء میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے فرماؤ ،بے شک
میرا رب رزق وسیع کرتا ہے جس کے لئے چاہے اور تنگی فراہم کرتا ہے لیکن بہت
لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے۔ ‘‘ ( سورۃ السباء : 36 )۔ قرآن ِ مجید میں جگہ
جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ رزق کی ذمہ دار اﷲ تعالیٰ کی ذات خود ہے۔ ہمیں اﷲ
تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے ان احکامات کو اپنے ذہنوں میں پختہ
بیٹھنا اور ان پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا کہ احتکار اور دیگر ناجائز
ذرائع سے نفع کمانے سے اجتناب کرناہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے ۔’’ جو شخص غلّہ روک کر گراں
نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اسے جذام و افلاس میں
مبتلا کر دیتا ہے۔ ‘‘ ( رواہ ابن ماجہ ، مشکوٰۃ )۔ اس حدیث مبارکہ ﷺ سے
مراد یہ ہے کہ جو شخص مخلوق ِ خدا اور بالخصوص مسلمانوں کو تکلیف و نقصان
دیتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اسے جسمانی اور مالی بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔
موجودہ وبائی تناظر میں دیکھا جائے تو ہم نے سب سے پہلے فیس ماسک او ر ہینڈ
سینیٹائزر اس نیت سے ذخیرہ کیے کہ جب کورونا وباء بڑھے گی تو انہیں زیادہ
داموں فروخت کیا جائے گا۔ اس کے بعد چینی ، آٹا ، گھی ، پیٹرول ، ادویات
وغیرہ کو مہنگے دواموں فروخت کے لئے ذخیرہ کیا گیا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں
کہ مارکیٹ میں ان اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا ہو گئی ہے اور ضرورت مند انہیں
ذخیرہ اندزوں سے اُن کے مقررکردہ نرخوں پر خرید رہے ہیں۔ مثال کے طور پر
پانچ روپے والا فیس ماسک بیس سے تیس روپے ، دوسو پچاس روپے والا این 95
ماسک ایک ہزار روپے ، ہینڈ سینیٹائزر کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے ،
کلوروکین کی دوائی تین ہزار روپے ، سنامکی فی کلو چوبیس سو روپے ، بیس کلو
آٹے کا تھیلا ایک ہزار روپے سے اُوپر ، چینی پچاس روپے سے پچھیاسی روپے فی
کلو ، گھی مہنگا ، پیٹرول سستا ہوا تو غائب اور اَب پچیس روپے کے پَر لگ
جانے سے نمودار اور ایکٹیمرا انجیکشن کی فی ملی گرام کے حساب سے ہزاروں اور
لاکھوں روپوں قیمت وغیرہ میں دستیاب اور فروخت ہو رہے ہیں۔اَب سکول ، کالج
اور یونیورسٹیاں کو کھولنے کے لئے ایس اوپیزتیار کی جارہی ہیں جن میں این
95 فیس ماسک اور ٹمپریچر گن لازمی ہوگی۔ اس خبر کے ساتھ ہی آٹھ سو روپے
والی ٹمپریچر گن مارکیٹ میں بیس ہزار روپے میں بکنے لگی ہے۔ اسلام نے ایسے
تجاروں کو جو ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کریں اور پھر رسد و طلب
میں عدم توازن پیدا کرکے مارکیٹ میں اپنا مال اپنی من مانی قیمت پر فروخت
کریں انہیں خطا کار اور ملعون قرار دیا ہے۔ آج ہم نے اسلامی شریعت کے
برخلاف اپنی ذاتی پسندکے اعمال اپنائے ہوئے ہیں ، حلال پر حرام کو ترجیح دی
ہے اور پسند یدہ کے بجائے قابلِ نفریں افعال میں مبتلا ہیں جب کہ شریعت ِ
اسلامیہ ہمیں تمام ایسے اُمور سے منع اور روکتی ہے جن سے معاشرے میں بگاڑ
پیدا ہو ، معیشت کا پہیہ جام ہو ، لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور حرص و
لالچ کو فروغ حاصل ہو ۔امام غزالی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’احیاء العلوم
‘‘ میں ایک بزرگ سے متعلق یہ واقعہ لکھا ہے۔’’ بزرگ نے گندم سے بھری کشتی
بصرہ روانہ کی اور اپنے وکیل کو خط لکھا کہ یہ بصرہ پہنچتے ہی فروخت کر
دینا ۔ اگلے دن تک مؤخر نہ کرنا۔ جس دن کشتی بصرہ پہنچی تو وہاں اتفاقاً
بھاؤ بہت کم تھااور تاجروں نے وکیل کو دگنا نفع کمانے کے لئے جمعہ تک مؤخر
کرنے کا مشورہ دیا۔ اُس نے ایسا ہی کیا اور کئی گنا نفع کمایا۔ بزرگ کو جب
یہ معلوم ہوا تو اس نے وکیل کو خط لکھا کہ ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ
تھوڑے نفع پر قناعت کرلیتے ہیں لیکن تم نے اس کے خلاف کام کیا لہٰذا خط
ملتے ہی فوراً سارا مال بصرہ کے فقراء پر صدقہ کر دینا۔‘‘ اﷲ تعالیٰ ہمیں
احتکار سے بچنے اور اپنے اسلاف کی اتنی عمدہ اور بہترین سوچ پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ امین۔ |