خروٹ آباد میں ہونے والے جعلی
پولیس مقابلے کا معاملہ تو اب بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور جو بات ہم نے
کہی تھی وہی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔اس پورے جعلی مقابلے کے ڈرامے کا ڈراپ
سین ہوگیا ہے۔لیکن ایک بات عرض کردیں کہ جس وقت ہم نے آرٹیکل پوسٹ کیا تھا
اس سے پہلے ہی یہ خبریں آگئی تھیں کہ یہ مقابلہ مشکوک اور جعلی ہے لیکن اس
کے باوجود ہمارے کچھ دوستوں نے اپنی دلی بغض کے باعث منفی تبصرے کئے یہ
تبصرے دراصل اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ مخالفین کو جماعت اسلامی سے اللہ
واسطے کا بیر ہے اور چاہے جماعت اسلامی کوئی بھی بات کرے انہوں نے اس کی
مخالفت ہی کرنی ہے۔ بالخصوص ہماری ویب پر کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو جماعت
اسلامی پر جا و بے جا تنقید کرنا فرض ِعین سمجھتے ہیں۔ ہماری ان سے یہی
درخواست ہے کہ محترم جماعت اسلامی اختلاف اپنی جگہ ہے لیکن کم از کم جو
باتیں درست ہیں ان کو محض اس وجہ سے غلط نہ کہیں کہ وہ باتیں سلیم اللہ نے
کہی ہیں تو اب اس کو ماننا نہیں ہے۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے مجھ اس اختلاف
ہے،جماعت اسلامی سے اختلاف ہے تو بات کریں بالکل اس پر تنقید بھی کریں لیکن
سچ کو سچ ہی کہیں۔ محض اپنی دلی عدوات کی بنا پر حق کو نہ دبائیں۔ ویسے ان
دوستوں ں کے ان منفی تبصروں سے ہماری یہ بات درست ثابت ہوئی کہ جماعت
اسلامی کے خلاف ہمیشہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں۔ دیکھیں
سیدھی سی بات ہے کہ ایک ایسا واقعہ جس کی فوٹیج میڈیا پر دکھائی
گئی،اخبارات نے اس کو مشکوک معاملہ کہا اور بعد میں ثابت بھی ہوا لیکن اس
کے باوجود محض جماعت اسلامی سے بغض اور عدوات کے باعث جب ایک اتنے بڑے
واقعے کو جھٹلانے کی کوشش کی گئی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت
اسلامی پر جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔
اب ہم اس واقعے کی جانب آتے ہیں۔ اس پورے ڈرامے کا ڈراپ سین یہ ہے کہ یہ
بدقسمت خاندان افغانستان سے براستہ پاکستان ایران جارہا ہے تھا۔ خاندان میں
پانچ افراد شامل تھے جس میں گھر کا خاندان کا سربراہ جس کی عمر کا اندازہ
پیتالیس سال لگایا گیا ہے۔اس کی پیتیس سالہ بیوی ،دو بیٹیاں اور ایک بیٹا
جن کی عمریں اٹھارہ سے بائیس سال کے درمیان تھیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق
اس خاندان نے کچلاک سے کوئٹہ جانے کے لئے گاڑی کرایہ پر گاڑی حاصل
کی،روانگی کے فوراً بعد کچلاک تھانے کے اہلکاروں نے ان سے رشوت طلب کی اور
بھتہ لیکر چھوڑ دیا لیکن اس کے ساتھ ہی اگلی چیک پوسٹ پر اطلاع دی کہ ”اس
نمبر کی گاڑی میں غیر ملکی ہیں،موٹی اسامی ہیں اپنا حصہ وصول کرلینا“یہ
خاندان جب بلیلی چیک پوسٹ پر پہنچا تو یہاں بھی ان سے رشوت طلب کی گئی اور
رقم لیکر آگے جانے دیا گیا لیکن اگلی چوکی پر اطلاع کردی گئی ۔ یہ خاندان
جب ائیر پورٹ تھانے کی چوکی پر پہنچے تو اس وقت تک انکے پاس نقد رقم ختم
ہوچکی تھی (بعض اطلاعات کے مطابق بہت کم رہ گئی تھی)پولیس نے ان کو اتار
دیا اور ان کے ہاتھ باندھ کر ان سے رشوت دینے کے لئے دباﺅ ڈالتے رہے لیکن
غیرملکیوں نے کہا کہ ہمارے پاس رقم ختم ہوگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق پولیس کے
ایک اے ایس آئی اور دیگر سپاہیوں نے رقم نہ ملنے پر غیر ملکی خاتون سے
بدتمیزی شروع کی اور ان کے ساتھ نازیبا حرکات کرنا شروع کی،جب انہوں نے
خاتون کو جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی تو غیر ملکیوں میں سے ایک نے نازیبا
حرکات کرنے والے اہلکار کے منہ پر گھونسہ جڑ دیا اور بھاگ نکلے،یہ افراد
بھاگتے ہوئے ایف سی کی چوکی کے نزدیک پہنچے اور چوکی کی دیوار کے ساتھ پناہ
لیکر بیٹھ گئے کہ اس دوران پولیس اہلکاروں نے مزید نفری طلب کر کے ان کو
گھیر لیا اور فائرنگ شروع کردی،فائرنگ کے دوران ایف سی کی نفری بھی پہنچ
گئی،پولیس نے ان سے کہا کہ یہ غیر ملکی خود کش حملہ آور ہیں اور ان کے پاس
ہینڈ گرنیڈ اور جیکیٹس ہیں جس کے بعد ایف سی کے اہلکاروں نے بھی فائرنگ
شروع کردی، اس دوران ایک خاتون ہاتھ اٹھا کر فائرنگ روکنے کا اشارہ کرتی
رہی اور لیکن فائرنگ نہ روکی گئی اور اس طرح ان پانچوں نہتے غیر ملکیوں کو
ہلاک کردیا گیا۔“ جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیس نے ان کے ہاتھ باندھ
کر ان کو ایف سی کی چوکی جانب روانہ کیا اور ایف سی اہلکاروں سے کہا یہ خود
کش ہیں حملہ کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد ان کو ایف سی کی چوکی کے نزدیک ہی
قتل کیا گیا۔
|
|
ابتداء میں تو پولیس نے روایتی طور پر خود کش حملے کا ڈرامے چلانے کی کوشش
کی لیکن جب یہ ڈرامہ نہ چل سکا تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا گیا،
واقعے کے اگلے روز جب سی سی پی او کوئٹہ دوﺅد جونیجو نے پریس کانفرنس کی
اور وہاں جب صحافیوںنے ان سے سوالات کئے تو نہ صرف یہ کہ وہ ان کے تسلی بخش
جوابات نہ دے سکے بلکہ اپنے گزشتہ روش کے بیان سے بھی مکر گئے کہ ان کو
فائرنگ سے ہلاک کیا گیا بلکہ انہوں نے ایک نئی بات کہی یہ سارے کے سارے بم
پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ
جیسا کہ ثابت ہوا کہ غیر ملکی غیر مسلح تھے تو ایف سی کا اہلکار کیسے جاں
بحق ہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی اہلکار نے اپنی کسی ذاتی رنجش کا بدلہ
لینے کے لئے اپنے ہی ساتھی کو تو ہلاک نہیں کردیا ؟ یا پھر کہیں اس اہلکار
نے سارے واقعے کو بے نقاب کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس کے بعد اس کو راستے
سے ہٹایا گیا؟ کیوں کہ واقعے کے ابتدائی چند گھنٹوں تک تو سی سی پی او
کوئٹہ اور ایف سی کے ذمہ داران نے میڈیا پر آن لائن یہ کہا کہ ہمارا کوئی
جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ساتھی زخمی ہوا ہے۔ تو پھر یہ اہلکار
کیسے ہلاک ہوا ۔ابھی راز کھلنا بھی باقی ہے۔
|
کوئٹہ٬ خروٹ آباد واقعے میں ہلاک ہونے والی خاتون٬ جس کے پیٹ میں سات ماہ
کا بچہ تھا اور وہ بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا٬ کی پوسٹ مارٹم کے بعد
لاش بی ایم سی ہسپتال میں رکھی ہوئی ہے- |
گزشتہ روز پولیس کے نا چاہنے کے باجود دباﺅ کے باعث لاشوں کا پوسٹ مارٹم
کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ایک خاتون تو سات ماہ کی حاملہ بھی تھی۔کیا دہشت
گرد ایسے ہوتے ہیں؟ کچھ لوگوں نے ہم پر اعتراض کیا کہ ہم فوج اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں پر ہونے والے حملوں کی تو مذمت نہیں کرتے لیکن دہشت
گردوں کی حمایت میں کالم لکھتے ہیں تو میں ایسے ساتھیوں کی خدمت میں کچھ
باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ ملک میں ہونے والے دہشت گردی
کے واقعات میرے لیئے بھی اتنے ہی دکھ اور تکلیف کا باعث ہوتے ہیں جتنے کے
کسی اور کے لئے ہوسکتے ہیں اور ہم ان واقعات کی مذمت کرتے بھی رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ دہشت گرد میری یا آپ کی مذمت سے نہیں رکتا،وہ آپ کے ملک کے
قوانین کو نہیں مانتا ،وہ آپ سے کوئی سرکاری طور پر ریلیف حاصل نہیں کرتا
بلکہ وہ قانون اور معاشرے کی نظر میں ایک مجرم ہے۔جبکہ اگر ایک سرکاری
اہلکار کوئی جرم کرتا ہے بالخصوص وردی والا تو اس کے جرم کی شدت کئی گنا
بڑھ جاتی ہے۔ نمبر ایک وہ قانون کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے اور قانون
شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ نمبر دو وہ اپنے جرم کو چھپانے کی اہلیت رکھتا ہے
اور اپنے جرم کو بھی قانون سے کیش کرتا ہے جبکہ دہشت گرد کا جرم ،جرم ہی
کہلاتا ہے۔ نمبر تین جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی قانون
شکنی کریں تو پھر معاشرے کے افراد کا ریاست کے اداروں سے اعتبار اٹھ جاتا
ہے۔ ان کا قانون،عدالت اور انصاف سے جب اعتبار اٹھتا ہے تو وہ پھر افراد
قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اس طرح وردی میں کی آڑ میں جرم کرنے سے
معاشرے میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہوتی
ہے کہ قانون نافذ کرنے اداروں کی کرپشن اور جرائم کو روکنے کی کوشش کی جائے
تاکہ معاشرے میں انتشار اور بے یقینی پیدا نہ ہو۔ |