جغرافیائی کھوجی دستے بھیجنے کے
اسباب
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ وہ اسباب کیا تھے جو یورپ کے کھوجی دستوں کو
ان علاقوں تک لے آئے جن کے بارے میں مشرق والوں کی پہلے سے آگاہی تھی ،
لیکن نئی دنیا ان سے ناواقف تھی، اس سلسلے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
یورپ کے عہد وسطی اور نئے دور کے آغاز کے کسی محقق کو یہ کہنا مشکل ہے کہ
مذہب کو سیاست کے جملہ گوشوں سے الگ رکھا جائے ، کیونکہ اس وقت مذہب ہی
تمام کاموں اور سیاسی سرگرمیوں کی رہنمائی کرنے والا اور ان میں رنگ بھرنے
والا تھا، کلیسا ہر معاملے میں مداخلت کرتا تھا،یہاں تک زندگی کے روز مرہ
کاموں میں بھی مذہب کا عمل دخل تھا،یورپ میں جغرافیائی کھوجیوں کی تحریک اس
وقت اٹھی جب کہ سیاسی اٹھارٹی اور مذہبی اٹھارٹی یورپ میں ایک سکے کے دو رخ
تھے،اس کے اسباب مندرجہ ذیل طور پر بیان کئے جاسکتے ہیں :
۱۔ انجیل : رولان موسینیہ نے ہسپانوی اور پرتگالی کھوجی دستوں کے پیچھے
کارفرما تین چیزوں (انجیل ،عظمت ،سونا) میں سے (انجیل)کو اولین ہدف
قراردیاہے،کیونکہ صلیبی جنگوں نے اس کے مطابق ۔ یورپ کے عیسائیوں کو عیسائی
مذہب جنگ کے ذریعہ پھیلانے اور اسے نہ ماننے والوں کو فنا کرنے اور دبانے
کا عادی بنادیا تھا (۱۱)
۲۔ سونا : رولان موسینیہ نے ترتیب میں دوسری جگہ پر انجیل کے ساتھ سونے کو
بھی اولین ہدف قرار دیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ دولت کے لئے یہ کوشش بڑی بنیادی
کھوجوں او ر تلوار کی نوک پرقائم وسیع و عریض سلطنتوں کے قیام کی اصل وجہ
تھی ،اور سونا یورپ والوں کی بنیادی پسندیدہ چیز تھی ،یہاں تک کہ ان کے
سونے پر گر نے پڑنے کے سامنے دوسری تمام آندھیاں بجھ سی گئیں تھیں (۲۱)
۲۔ افریقہ اور ایشیاءمیں عیسائیوں کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں کے
خلاف یلغار
دور وسطی میں صلیبی جنگوں کے دوران قشطالہ اور ارگون کی قیادت میں اسپین سے
اور پرتگال کی آزاد حکومت کے قیام کے بعد ان علاقوں سے اور جزیرہ نمائے
ایبیریا سے مسلمانوں کو نکال باہر پھینکنے کا جو جذبہ پروان چڑھا تھا اسے
روبہ عمل لانے کی تمنا(۳۱) اسپانوی اپنے لئے یہ کردار کیتھولک ملکہ
ایزابیلا کی اس وصیت سے اخذ کرتے تھے ، جس میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے
کہ اسپین اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک افریقہ فتح نہ ہو اور ہمارے بچے
نصرانی عقیدے کے لئے جہاد کا علم بلند نہ کریں ۔
اسپین سے مسلمانوں کو نکالنے کی یہ جنگیں ، جوکہ بعد میں افریقہ کے
مسلمانوں کا پیچھا کرنے اور انہیں بھگانے کے مقصد سے ہونے لگیں تھیں اس نے
مقدس جنگوں کا روپ دھار لیا ،جب کہ کلیسا کے پاپاؤں نے یورپ کی نصرانی دنیا
پر اپنا دینی و دنیوی تسلط قائم کرنے کے لئے اسے ایک سنہرا موقعہ جانا ،اس
سے زمیندار طبقہ کی کلیسا اور پاپاوں سے دشمنی سے بھی نجات ملی، جب کہ
انہیں ان جنگوں میں شریک کیا گیا ،اور انہیں دوران جنگ قتل ہونے پر گناہوں
کی معافی کا بھی وعدہ وغیرہ کئی ایک روحانی اور مادی مراعات سے کلیسا نے
نوازا ۔خاص طور پر اس وقت جب کہ جغرافیائی کھوجی ٹیمیں ایشیا اور نئی دنیا
کی غیر معروف جگہوں تک پہنچنے لگیں (۴۱)
۳۔ یورپ میں دم گھٹا دینے والا معاشی بحران
چودھویں صدی دم گھٹادینے والے بحرانوں کی صدی ہونے کی حیثیت سے یورپ کے
جغرافیائی کھوجی ٹیموں کو آگے بڑھانے کا سبب بنی ،ان بحرانوں نے یورپ کو
چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اوردرپیش مشکلات کے حل کی تلاش پر مجبور کیا ، ان
میں اہم ترین بحران یہ دو تھے ۔
الف۔ کالے طاعون کی وبا (۸۴۔۹۴۳۱ئ) جو صرف تین سالوں کے اندر آدھے یورپ کو
کھا گئی ، اس کے نتیجہ میں اس براعظم کی آبادی پندرھویں صدی میں ۰۳۳۱ء کے
بالمقابل ساٹھ فیصد آبادی ہو کر رہ گئی تھی (۵۱) اس کی وجہ سے یورپ کی
مملکتیں اور خاص طورپر جزیرہ نمائے ایبیریا جس نے مسلمانوں کے اخراج کی
کاروائی کر کے اپنے علاقہ جات کو وسیع کردیا تھا ، اسے کاریگروں اور
مزدوروں کی شدید قلت ہونے لگی ،یہاں سے شمالی اور مغربی افریقہ پر حملے اور
غلاموں کو درآمد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا،جس کے بعد پرتگال کی آبادی ۰۵۴۱ءمیں
کہیں جاکر دس لاکھ ہوپائی (۶۱)۔
ب : نقد ریزگاری کا بحران : چودھویں صدی میں یورپ کرنسی کے معاملے میں دو
طرح سے تقسیم شدہ تھا،وسطی اور شمالی یورپ کا دارومدار چاندی پر تھا ،کیونکہ
وسط یورپ کی کانوں میں اس کی بہتات تھی ، اور جنوبی یورپ سوڈان سے آنے والے
سونے پر بھروسہ کرتا تھا جو کہ افریقہ کے مغربی عرب ممالک کے ساحلوں سے
حاصل کیا جاتا تھا ،اس زمانے میں مغرب عربی سونے کو مقد س دھات سمجھنے والے
جنوبی یورپ اور سوڈان کے مغربی علاقوں اور جنوبی سوڈان کے جنگلاتی علاقوں
کے درمیان دلال کی حیثیت رکھتا تھا، تیرھویں صدی کے آغاز میں اطالوی
فرانسیسی اور پرتگالی تاجروں کی مغرب عربی کے ساحلوں پر آمد و رفت شروع
ہوئی ،( اس دوران تونس میں سونے کی تجارت مشہور ہوئی جوکہ اندلس کے اسلامی
ملکوں کے علاوہ ۰۲ تا۰۶ ہزار دینار سالانہ کا سونا یورپ کو فراہم کرتا تھا
)لیکن بعد کی صدیوں میں مغرب عربی یورپ کی سونے کی اس ضرورت کو پورا کرنے
سے عاجز ہوگیا،کیونکہ وہ خود متعدد سیاسی اور اقتصادی مشکلات کا شکار ہوگیا،
لہذا جنوبی یورپ چودھوی صدی میں ریزگاری کے قحط سے دوچار ہوگیا،اس سے قبل
ایسا کبھی نہیں ہوا تھا،لہذا یہ ضرورت اسے افریقہ کے نامعلوم سونے کی کانوں
کے علاقوں تک کھینچ لائی، تاکہ بغیر وساطت کے براہ راست اس کا حصول ممکن
ہوسکے،یہیں سے ابتدائی پرتگالی کھوجی سیاح مغربی افریقہ میں سونے کی نہر
پائے جانے کی بات کرنے لگے ، اور جب افریقی براعظم کے مغربی علاقے میں سونا
نکالنے اور انہیں برآمد کرنے والی جگہوں پر پہنچ گئے تو اسے سونے کے ساحل
کا نام دیا (۷۱)
۴۔ کسٹم ڈیوٹی اور تجارتی دلالوں سے نجات کی خواہش :
یورپ کی حکومتوں اور صنعتی سرمایہ داروں کا عہد جدید کے آغاز اور یورپ کی
نشات ثانیہ کی ابتدا ہی میں مسلم بندرگاہوں پر لگنے والے بھاری کسٹم اور
مختلف ٹیکسوں سے نجات اہم ہدف رہاتھا،جس کی وجہ سے جنوہ اور وینس کے علاوہ
دوسری جگہوں کے تاجروں اور سرمایہ داروں کو مشرقی تجارت کے اصل سرچشموں کی
تلاش اور اس کے ذریعہ براہ راست منافع کے لئے ہمت افزائی ہوئی،(۸۱)
پاپاؤں نے اسپین اور پرتگال کے حکمرانوں کی اس پہلو سے ہمت افزائی کی اور
ان کے جذبات کا استحصال کیا ، اوربہ بانگ دہل کہنے لگے کہ عالم اسلام کو
کمزور کرنے اور بالآخر اس کی شکست کے لئے مشرقی تجارتی راستے کو مسلمانوں
کے ہاتھوں سے نکال کر انہیں بڑے منافع سے محروم کرنا ضروری ہے،(پاپاؤں نے
اسلام کے بارے میں اپنی کراہت کی شدت میں اس حد تک مبالغہ کیا کہ اسلام کو
طاعون کا نام دیا اور نئے منکشف ہونے والے افریقہ کے علاقوں کو عیسائی
بناکر اسلام کے طاعون سے انہیں بچانے کا مطالبہ کیا )
یہ جذبہ خصوصیت سے ہم مشرق اسلامی کے علاقوں کو فتح کرتے وقت پرتگالی
جرنیلوں مثلا البوقرق وغیرہ میں دیکھتے ہیں جب اس نے ملقا میں اسلامی سلطنت
پر یلغار کے وقت کہا تھا کہ عربوں کو مصالحہ جات کی تجارت سے دور کر نے کو
ہم پرتگالی اسلام کو کمزور کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں (۹۱)
۵۔ عیسائی عقیدے کی نشر و اشاعت
بیزنطینی کلیسا نے اسلام کے خلاف اور خصوصا رسول اکرم ﷺ کے بارے میں
معاندانہ افکار و خیالات کو پھیلایا ،یہاں سے مشرقی اور مغربی یورپ کو
بیزنطینی طرز کی اسلام دشمنی پر مبنی مذہبی اور کلامی کتابیں ملیں ، لہذا
قرون وسطی میں یورپ کے ذہنوں پر اسلام کے خلاف واضح موقف حاوی رہا،اور یورپ
کے مذہبی طبقہ نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنی شروع کردی کہ خدا سے
قربت چاہتے ہو تو اپنے مذہبی بھائیوں کا دائرہ وسیع کرو،خاص طور پر انہیں
مسلم علاقوں میں عیسائیت پھیلانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لینی ہوگی،
اور عرب مسلمانوں کو عیسائیت کے دائرے میں لانا ہوگا،جنہیں وہ مشرقی
نصرانیوں کی دیکھا دیکھی کافر اور زندیق کہا کرتے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ صلیبی جنگوں کے دوران یورپ میں یہ خیالی داستان عام
ہوگئی تھی کہ چین اور افریقہ کے درمیان عالم اسلام کے قلب میں ایک عظیم
عیسائی سلطنت پائی جاتی ہے،ابتدا میں پرتگالی کھوجیوں نے اس سلطنت تک پہنچ
کر اس کے ساتھ معاہدہ کرکے عالم اسلام کو ضرب پہنچانے اور اس کے اطراف و
اکناف میں عیسائی مذہب پھیلانے کی کوششیں بھی کیں، ان کا خیال تھا کہ اس
سلطنت کو ایک نصرانی ولی سینٹ جون Prester John چلاتا ہے۔(۰۲)
(نوٹ : مملکت پرسٹر جون : بارہویں صدی میں سینٹ یوحنا ( پرسٹر جون )کی
داستان یورپ میں پھیلی،اس ادبی داستان کا احاطہ انگریزی سیاح جون مینڈویل
نے چودھویں صدی کے اواسط میں حقیقت واقعہ کی حیثیت سے اپنی کہانیوں میں کیا
اور یہ اعتقاد کیا جانے لگا کہ بت پرست قوموں کے درمیان یہ بادشاہ زندہ
موجودہ ہے،اور یہ مشرق کی ایک بڑی عیسائی سلطنت چلاتا ہے جس کے ماتحت
ہندوستان چین اور حبشہ کی سلطنتیں ہیں،اور یہ چھوٹی چھوٹی مزید کئی ایک
سلطنتوں پر حکومت کرتا ہے،اس کا لقب صاحب مملکت مصالحہ جات ہے،اس سلطنت کی
کھوج اور باجبروت و ذی شان بادشاہ سے معاہدے کی صورت میں مغربی ایشیاءاور
اراضی مقدسہ فلسطین پر مسلمانوں کی سرداری ختم کی جاسکتی ہے،یہ داستانیں
یورپ میں صلیبی جنگوں کے اختتام پر اس وقت پھیلیں جبکہ عیسائی دنیا
مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار تھی اور اس کی عظمت کے خواب چکنا چور
ہورہے تھے ، اس طرح عیسائیوں کو ہمت دلانا انہیں پرامید رکھنا اور ان کے
جذبات کو زندہ رکھنا مقصود تھا ، تاکہ مسلمانوں سے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ
پڑنے پائے ،چونکہ یورپ والے حبشہ کو ہندوستانی سرزمین کا حصہ سمجھتے تھے تو
پریسٹر جون کی گتھی تب اور الجھ گئی جب ۳۰۲۱ ءمیں بعض اطالوی راہبوں کو
حبشہ کے ایک راہب کے ذریعے سے یہ معلومات پہنچیں کہ حبشہ کا بادشا ہ ہی
دراصل پرسٹر جون ہے،یہاں سے اس مملکت کی افریقہ اور ہندوستان میں تلاش یورپ
کے جغرافیائی کھوجیوں سے وابستہ ہوگئی اور اس کے مذہبی اسباب میں سے ایک
ہوگئی ۔(۱۲)
۶۔ نامعلوم کی تلاش اور زیادہ سے زیاہ جغرافیائی معلومات حاصل کرنے کی
خواہش
نامعلوم سے مراد جادو بھری وہ پرکشش مشرقی دنیا تھی جس کی دولت و ثروت کی
داستانیں اور وہاں کی زندگی کی رعنائیوں کی خبریںان طویل سفرناموں کے ذریعے
ملتی تھیں جو تیرھویں اور چودھویں صدی کے یورپی مہم جو زبانی طور پر سینہ
بہ سینہ بیان کرتے تھے یا اپنی کتابوں میں نقل کرتے تھے،انکی تصوریر کشی
یورپ کے لوگوں کو مشرقی علاقوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی کی خواہش اور
لالچ کو بھڑکاتی تھی،خاص طور پر اطالوی سیاح مارکوپولو ۹۹۲۱ءنے اپنے سترہ
سالہ چین و ایشیاءکی سیاحت کے بعد اپنی کتابوں میں دی ہوئی معلومات کے بعد
یورپ میں ایک فکری انقلاب پیدا کیا ،جیسا کہ مورخ فیشر کا کہنا ہے کہ یہ
سفرنامہ اپنی اہمیت اثر اور حیرت زدگی میں پندرھویں صدی میں کولمبس کے
ہاتھوں بر اعظم امریکہ کی کھوج سے کم نہیں تھا (۲۲)
اس کا مزید کہنا ہے کہ ۸۲۴۱ءمیں ڈوم بدرو نے وینس سے سفرنامہ مارکوپولو
خرید کر اپنے بھائی ہنری ملاح کو لسبن بھیجا ،یقینا اس نے مشرق کی دولت کے
سرچشموں تک پہنچنے کے لئے پرتگالی کھوج کا جو خاکہ تیار کیا تھا ، اس کی
تیاری میں اس کتاب سے ضرور استفادہ کیا ہوگا )
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جغرافیائی کھوج جنوہ وغیرہ کے بجائے جن کا یہ خاص
میدان تھا، پرتگال کے ورثہ میں کیوں کر آئی،جو کہ اپنی وسعت اور آبادی
میںبحر اوقیانوس کے ساحل پر ایک چھوٹی سی سلطنت تھی، اور یہ جغرافیائی کھوج
کے ایام میں اپنے ہدف تک غیر متوقع طور پر ایسی تیزرفتاری سے پہنچ گئی جس
نے پورے یورپ کو بھونچکا کردیا ۔
حوالہ جات
۱۱۔ رولان موسینیہ : تاریخ الحضارات العام ۔القرنان ۶۱۔۷۱ (لبنان ۷۸۹۱ئ) ص
۴۲۴
۲۱۔ رولان موسینیہ : تاریخ الحضارات العام ۔القرنان ۶۱۔۷۱ (لبنان ۷۸۹۱ئ) ص
۶۲۴
۳۱۔عبد الملک عودہ :السیاسة و الحکم فی افریقیا (مصر ۹۵۹۱ئ) ص ۰۶
۴۱۔جوزیف نسیم یوسف : فی تاریخ الحرکة الصلیبیہ (مصر ۹۸۹۱ئ) ص ۴۴
۵۱۔ Boies Penrose:Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K
1960 p 15
۶۱۔ The Portuguese Seaborne Empire p 4
۷۱۔ Boies Penrose:Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K
1960 p 13
۸۱۔ Serjeant R.B :The Portugese of The South Arabian Coast
(London 1966) p 2
۹۱۔ Danverrs : Portuguese In India(London 1966) v.2 p 226
۰۲۔ Britanica (London 1962)18.458 460
۱۲۔ Boies Penrose:Travel And Discovery In Renaissance (1402-1692)U.K
1960 p12.13
سونیا ۔ی۔ ھاو :فی طلب التوابل ، ترجمہ محمد عزیز رفعت ، (القاہرہ ،۷۵۹۱) ص
۴۶۔۸۶ |