سانحہ ایبٹ آباد نے ملکی حالات
کو جس بھنور کے سپرد کیا ہے،اس کا منظر قوم کے سامنے ہے۔2مئی کے وقوعے نے
ہر فرد کے ذہن میں شبہات کا ایک طوفان پیدا کردیا ہے۔ملکی سلامتی کو درپیش
خطرات نے ہر محب وطن شہری کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے۔روز طلوع
ہونے والا سورج اس گھمبیر سیاہی میں اضافہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ایبٹ آ
باد آپریشن کے بعد پارلیمنٹ سے پاس ہونے والی مشترکہ قرارداد ،حالیہ چھ
ڈرون حملوں کی دھول میں بیٹھتی دکھائی دے رہی ہے۔گویا موجودہ امریکی قزاق
طیاروں کی ننگی جارحیت نے ثابت کردیا ہے کہ ملکی پارلیمنٹ کی کوئی اجتماعی
آواز ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
چنانچہ امریکی اراکین کانگریس کی یاوہ گوئیاں اس حقیقت پر مہرتصدیق ثبت
کررہی ہیں۔جبکہ پاکستانی حکمران امریکی ہفوات کا منہ توڑ جواب دینے کے
بجائے ،مسلسل ان کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔یہ شرمناک طرز عمل ارباب
اقتدار کے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں۔ جان کیری ہو یا مارک گراسمین ہر ایک
کی زبان وہی ساز بجا رہی ہے ،جو دشمنانِ پاکستان سننااورسنوانا چاہتے
ہیں۔سابق دختر فروش صدر کی بے نیل ِمرام پالیسیوں کے تسلسل کو موجودہ
جمہوری حکمرانوں نے جس طرح بڑھاوادیاہے،اس کی آگ اب ہرطرف تباہی وبربادی کے
ان منٹ نقوش ثبت کررہی ہے۔
دنیا بھر میں جس فوج کا لوہا مانا جاتاہے،آج اس کا وقار داﺅ پر لگاہوا
ہے۔دنیا کی ساتویں جوہری قوت کفریہ طاقتوں کے ہاتھوں بازیچہ اطفال بنی نظر
آرہی ہے۔قومی سلامتی پر ماموراداروں کی کردارکشی کا جوکھیل عالمی سطح پر
کھیلاجارہاہے ،اس کے پس منظر میں صہیونی ریشہ دوانیوں کا اثرصاف محسوس کیا
جاسکتاہے۔اس موقع پر اپنوں کی بے وفائی وجفاکاری سے بھی صرف نظرممکن نہیں
۔پاکستانی عوام اورعساکر ِپاکستان کے مابین تناﺅ،تضاد اورکھچاﺅپیداکرنے کی
جوکوششیں کی جارہی ہیں ،اُس میں ملکی قیادت کی ناقص تدبیروں کے عمل دخل سے
کون صاحب عقل انکارکرسکتاہے؟قوم سوال کرنے پر مجبورہے کہ آخر ہم کب تک
دوسروں کی جنگ کا ایندھن بنتے رہیں گے؟جس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کے
لیے صلیبی افواج افغانستان پرحملہ آور ہوئی تھیں ،کیا وہ اس کے انسداد میں
کامیاب ہوچکی ہیں؟اگرنہیںتوپھر پاکستان کے خلاف امریکی کارروائیوں کے
کیاپوشیدہ مقاصد ہیں؟
موجودہ احوال وواقعات کا سرسری مشاہدہ بھی کیا جائے تو جوا مر ابھر کر
سامنے آتاہے،وہ یہ ہے کہ ملک اندرونی وبیرونی آزمائشوں میں گھرچکاہے۔گرانی
،غربت،عدم تحفظ،توانائی کی قلت جیسے لاتعدادحل طلب مسائل ہیں، جن سے خدمت
کے دعویداروں نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔طرفہ تماشایہ کہ ہمارے عمومی رویوں
میں بدعنوانی،جھوٹ،خیانت،رشوت،کام چوری،مفاد پرستی ،عصبیت،منفی اختلافات
اورعدم اتفاق سمیت دوسروں کے نقصان کو اپنا نقصان نہ سمجھنے جیسے روحانی
امراض برگ وبارلارہے ہیں۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت معاشرے میں
صداقت ودیانت ،اتحادواتفاق اورقومی امورپر یکجہتی جیسی صفات نایاب نہیں تو
کم یاب ضرورہیں۔اس تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کرناکچھ دشوار نہیں کہ، ہماری
شامت اعمال نے ہمیں مصیبتوں کی دلدل میں دھکیل دیاہے۔
کتاب وسنت نے قوموں کی تنزلی کے جواسباب ذکرکیے ہیں،فی الوقت وہ ہمارے
ماحول ،فرداورسماج میں من حیث المجموع جگہ پاچکے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہم
اولاًاس بات کے مکلف ہیں کہ اطاعت ِخداوندی اوراتباع سنت نبوی علیٰ
صاحبھاالصلوة والسلام ،میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ہماراہرہر فعل وقول
ارشادات باری تعالیٰ کے عین مطابق ہو۔ہماری سیرت وصورت ،وضع قطع ،معیشت
ومعاشرت اسوہ نبوی علیٰ صاحبھاالصلوة والسلام کا آئینہ دارہو۔مگر آج جب ایک
نظر اپنے گریبانوںپر ڈالتے ہیں ،توہم جگہ جگہ حدود اللہ کی خلاف ورزی
کرنے،احکام ِشریعت کا عملی استہزااڑانے اور غیروں کے اطوار کو ترقی کی
معراج سمجھنے کے مرتکب نظرآتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بے حسی اورغفلت کی تنی چادر نے ہمیں درپیش مسائل کے
حقیقی ادراک سے محروم کررکھاہے۔کسی قوم کا ضمیر مردہ ہوجائے ،یہ اس کی سب
سے بڑی موت ہوتی ہے۔برائی کو برائی سمجھنے کا شعور رخصت ہوجائے تو
پھرانسانوں کو آفاقی حقیقتوں کا سامناکرناہی پڑتاہے۔اگراس وقت ہم اپنے
گناہوں پر صدق دل سے تائب ہو کر رب کریم کے حضور جھک جائیں ،اپنی ذاتی
واجتماعی زندگیوں کاناقدانہ جائزہ لے کر اصلاح احوال کی جانب قدم اٹھائیں
اورنسل نو کی فکری تربیت پر توجہ مرکوز رکھیں،توکوئی وجہ نہیں کہ یہ ہمارے
درد کابہترین درماں ثابت نہ ہو۔یہ احساس ارض وطن کی ہچکولے لیتی ناﺅ کو
ساحل عافیت پر لاکھڑاکرے گا۔یہ ایمانی انقلاب ہمیں ”انقلابات زمانہ“سے نجات
دینے میں معین ومددگاربنے گا۔
تدارک کے اس راستے کو اپنائے بغیر جتنے تجزیے ،تبصرے اورنکتہ بیانیاں کرلی
جائیں،وہ طفل تسلی تو ہوسکتی ہیں لیکن نجات کا حقیقی اورپائیدارحل
ہرگزنہیں۔ ”وھن“کی بیماری سے دلوں کوپاک کرنا،ایمانی زندگی کی تب وتاب
جاودانہ سے سرفراز ہونااورخودشناسی وخوداعتمادی کے جوہر کی آبیاری کرنا ہی
لمحہ حاضرکی پرسوز صداہے۔خود انحصاری ،بیدارمغزی اوردشمن کوپہچاننے سے ہی
ذلت ونکبت کے اس جوہڑ سے نکلاجاسکتاہے۔معاشرے میں پائے جانے والی
بدامنی،فتنہ وفساداوربے چینی کاخاتمہ اسی صورت ممکن الحصول ہوگا،جب پاک
سرزمین پر پروردگارعالم کے حکموں کاپاس کیا جائے گا۔عالمی اوباشوں کے درپر
سجدہ ریز ہونے سے بچنااسی وقت آسان ہوگا،جب ہماری پیشانیاں خدائے واحد کے
روبرو اعتراف ِعبودیت میں مگن ہوں گی۔یہی وقت کی پکارہے اورہمارے ایمان کا
تقاضا بھی۔ |