بچے مویشی نہیں ہیں

منڈی میں طرح طرح کے مویشی جانور تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہر ایک مالک کی خواہش تھی کہ اسکے مویشی کا دام زیادہ لگے اور اسی لیے تو سب نے اپنے جانوروں کو طرح طرح کے چارے ڈال رکھے تھے۔ ایک مقابلہ سا تھا سب میں ہر کوئی یہ ثابت کرنے میں لگا تھا کہ میرا مویشی باقیوں سے بہتر ہے۔جیسے ایک ضد سی لگی ہو سب میں۔ جانور جو تھے ان کو کھلانے، پلانے اور پالنے کا حساب بھی تو ان کے مالکوں کو چاہیے تھا۔ میں نے کہیں سنا تھا کہ ''پالتو جانوروں کی دیکھ بھال بلکل اپنے بچوں کی طرح کرنی پڑتی ہے'' اور شاید جانوروں کو اپنے بچوں کی محبت دیتے دیتے ہم ان میں اور اپنے بچوں میں فرق بھول گئے ہیں۔ پتا ہے کیسے؟ جانور کی بھی کوئی مرضی نہیں ہوتی کہ وہ کیا چاہتا اور اس کا بھی کوئی خواب نہیں ہوتا اور ہم اپنے بچوں کو بھی اس حص سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کی خواب دیکھتی آنکھیں ذرا نہیں بھاتی کیونکہ کل کو بازار میں ہم نے ان کو پالنے کی داد جو بٹورنی ہوتی اور فخر سے سینہ تان کر کہنا ہوتا کہ میرا بیٹا یا بیٹی ڈاکڑ ہے یا انجنیئر ہے۔ بے شک وہ ڈاکٹر ایک مردہ دل کا حامل کیوں نہ ہو یا وہ انجنیئر اندر سے ٹوٹا ہوا کیوں نہ ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ہمیں تو ان کا ریٹ لگانا ہے کل کو معاشرے میں ہر آنکھ جو دیکھنا جانتی ہے وہ خواب دیکھتی ہے کچھ کرنے کا کچھ بننے کا اور ہر وجود ایک ہستی بننا چاہتا ہے۔ ایک ہستی بننا چاہتا ہے ایک ہی ہستی نہیں بننا چاہتا ہم نے اپنی سوچ کو ایک بند کمرے میں قید کیا ہوا ہے اور اس کمرے میں کوئی روشن دان بھی تو نہیں جہاں سے ہوا آئے یقین مانے آپ کے بچوں کا اس کمرے میں دم گھٹتا اور ایک دن آتا ہے وہ اس میں مر جاتا ہے اور اپنے خواب چھوڑ کر اپنے دام کھوجنے نکل پڑتا ہے۔ پھر اس دن ایک آرٹیسٹ مرتا ہے اور ایک ڈاکٹر کا جنم ہوتا ہے ایک فیشن ڈزائینر، سنگر مرتا ہے اور ایک انجنیئر کا جنم ہوتا ہے۔ مردا دل والے زندگیاں بچاتے ہیں اور ٹوٹے ہوے وجود کے حامل اینٹے، عمارتیں اور چیزیں جوڑتے ہیں۔

آپ کو پتا ہے کہ ساری دنیا صرف ڈاکٹر اور انجنیئر پر نہیں چل رہی مزدور ہیں نرس ہے اور دیگر افسران بھی ہیں اور سنگرز ہیں، پینڑرز ہیں میکینک ہیں، میوزیشن ہیں اور بھی بہت جو اس دنیا کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں تو اگر آپ کا بچہ ان میں سے کچھ بننا چاہتا ہے تو ضروری نہیں ہم ان کے خوابوں کو زہر دیں دے اور انھیں ایک خاموش موت دیں پھر انکا جنازہ بھی انھیں کے کندھوں پر لاد دیں۔ انھیں بڑنے دیں، چلنے دیں، گرنے دیں، اٹھنے دیں اور جو وہ چاہے وہ بننے دیں اور اپنی تمام توجہ ان کے اچھا انسان بننے پر لگائیں تاکہ وہ جو بھی بنیں اچھے ضرور بنیں اور آپ فخر سے کہیے کہ میرا بچہ ایک اچھا انسان ہے ناکہ ایک اچھی کمائی والی مشین۔ اور جانوروں سے پیار کریں پر اپنے بچوں کو مویشی مت بنائیں انسان بنائیں کیونکہ اس طرح کے بچے آگے جا کر بے حس اور دولت کی پوجا کرنے والے بنتے ہیں ناکہ پیار بانٹنے والے اور ہنر کے قدردان۔ بس یہ کہنا چاہوں گی کہ بچے مویشی نہیں ہیں۔
 

Ayesha Saleem
About the Author: Ayesha Saleem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.