صحافت کو اصل خطرہ کن سے ہے ؟

پاکستان میں صحافت ایک مشکل اور اپنی جان کو مسلسل خطرات میں ڈالنے والا کام ہے۔ ایک طرف طاقتور ترین مافیاز اور دوسری طرف ایک سچا صحافی ہو تو نتیجہ ہمیشہ قتل یا جھوٹے من گھڑت مقدمات کی صورت میں صحافیوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ یوں تو ہماری آج کل کی صحافت بڑی بدنام ہے کچھ غیر زمہ دار سینئیر صحافیوں کی بدولت اور کچھ کم پڑھے لکھے ایسے نوجوانوں کی بدولت جو پیسے دے کر پریس کارڈز تو خرید لیتے ہیں لیکن انہیں اس مقدس فریضے کی حساسیت اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔

میں نے اپنے پورے صحافتی کیرئیر میں کبھی پریس کارڈ کا استعمال نہیں کیا سوائے ایک بار کے اور وہ بھی انتہائی مجبوری میں ، مجھے سمجھ نہیں آتی آخر اس کارڈ میں کیا طلسماتی جادو ہے جو ہر شخص اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے لئے دیوانہ بنا پھرتا ہے۔ اور اج کل تو یہ شوق اتنا عام ہوا ہے کہ جسے دیکھو کارڈ گلے میں ڈالے خود کو صحافی سمجھے بیٹھا ہے اور ہر کسی پہ دھونس جمانا اپنا حق سمجھتا ہے البتہ اگر کبھی سامنا کسی سرپھرے پولیس والے سے پڑ جائے تو نتیجہ توقع سے ہٹ کر بھی نکل آتا ہے ۔

شوق پورے کرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپ جس شعبے میں بھی جائیں اس کے آداب پتہ ہوں تاکہ بلا وجہ آپ کسی پورے گروپ یا برادری کی سبکی کا باعث نہ بن پائیں ۔ آج کل ایک چینل کا بہت زور ہے جو دھڑا دھڑ پیسے بٹور کر ہر ایرے غیرے کو کارڈز جاری کرتا جارہا ہے ، میرے ایک جاننے والے نے سال ڈیڑھ قبل اسی ادارے کا کارڈ پندرہ ہزار روپے میں خریدا تھا اب ایک اور دوست کو غالبا" پانچ ہزار روپے میں اپنا نمائندہ خصوصی بنایاگیا ہے اور مزے کی بات یہ کہ ان کی ہر خبر وہ بھی زیادہ تر یوٹیوب پر چلانے کے دوہزار روپے طلب کئے جاتے ہیں اور تقریبا" سارے ہی اداروں کا یہی حال ہے ۔

ہمارے ملک میں صحافت کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اکثر اخبارات اور چینلز تنخواہ تو دیتے نہیں الٹا پریس کارڈز ، اور اشتہارات کی مد میں کارکن پہ بوجھ ڈال رہے ہوتے ہیں ، اب وہ کارکن اپنے اخراجات کے لئے کسی کو بلیک میل کرے یا غلط ملط جھوٹی خبریں لگواکر کسی کو بدنام کرے ادارے کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، نتیجتا" ایک ایسی صحافی برادری وجود میں آچکی ہے جو خود تو ٹھیک طرح سے اردو لکھ اور بول بھی نہیں سکتی لیکن بڑی بڑی تنظیموں اور گروپوں کا حصہ بن کر معاشرے میں بے چینی ،اور انتہاءپسندی پیدا کرکے صحافت کے وقار کو ضرور مجروح کررہی ہے ۔

صحافت کی بربادی میں سب سے بڑا حصہ صحافتی تنظیموں، گروپوں اور پریس کلبز کا ہے جہاں کے عہدیداران اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لئے دھڑا دھڑ ممبرز بنائے چلے جاتے ہیں ، اکثر بلیک میلرز، بزنس مین ، منشیات فروش اور غنڈے موالی سب پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کے سائے تلے جمع ہوکر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں ۔

ایسے میں کام کرنےوالے اور اپنے پیشے سے مخلص صحافی کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ، ان کا اگر کسی تنظیم ، گروپ یا پریس کلب میں کوئی حصہ ہے بھی تو صرف ادنی کارکن کی حیثیت سے باقی سارے فوائد یہی نان پروفیشنل جرنلسٹ سمیٹ رہے ہیں ۔

آپ حیران ہورہے ہونگے کہ آج میری اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنےکا مقصد کیا ہے ؟ ۔ اصل میں ہمارے اپنے شہر سمبڑیال میں صحافتی اقدار کا بیڑہ غرق ہے اوپر سے اگر کوئی صحافی اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرتا ہے تو اس کا انجام ذیشان بٹ شہید جیسا ہوتا ہے جو خود بھی جوانی میں سچ بولنے کی سزا پا گیا اور اپنے بھائیوں کو بھی ایک مستقل خطرے میں مبتلاء کرگیا اوپر سے اس کے قاتل اب تک کہیں آزاد زندگی کے مزے لے رہے ہیں ۔

اب حالیہ دنوں میں ہی دیکھ لیجئے ہر دلعزیز صحافی رہنماء ناصر وڑائچ ، ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑےرہنےوالے بھائی ظفر اقبال کھوکھر، جراتمند عثمان بٹ ، اور میرے بڑے ہی پیارے دوست سینئیرصحافی یونس گجر کے بھائی یعقوب گجر کو صرف ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کرنے اور مظلوم لوگوں کی آواز بننے کی پاداش میں کبھی ان پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں تو کبھی ان پر قاتلانہ حملےکئے جاتے ہیں اس کے باوجود کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔

اب تذکرہ چل ہی نکلاہے تو جاتے جاتے سیالکوٹ کے مظلوم صحافی میاں طارق انجم کا بھی زکر ہوجائے ، جنہیں کوئی ڈیڑھ سال ہوا ہوگا منشیات فروشوں نے اپنے خلاف مسلسل خبریں لگوانے کی سزا دیتے ہوئے گولیوں سے چھلنی کردیا تھا ، خوش قسمتی سے ان کی جان تو بچ گئی لیکن اج تک وہ بےچارے چارپائی پہ ہیں جبکہ ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں اور کسی صحافتی تنظیم نے کبھی ان کا حال تک نہیں پوچھا ۔ کیونکہ ہماری تنظیموں کو کسی صحافی کی دلجوئی کرنے کی نہیں بلکہ صرف ذیشان شہید جیسے ناموں کی ضرورت ہوتی جن کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر وہ زاتی شہرت اور ڈالر بٹور سکیں ۔

صحافت کو اصل خطرہ انہی نام نہاد تنظیموں اور صحافیوں سے ہے جو اس قتل گاہ میں صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آئے ہیں ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87197 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.