دنیا میں سب سے بڑی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اللہ کا
کوئی مثل نہ تھا،نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے-اللہ تعالی نے ہی کائنات کو اتنی
وسعت دی کہ انسان شاید قیامت تک اس کے تمام اسرار و رموز سے واقف نہ ہو سکے
لیکن اللہ سب سے زیادہ کریم بھی تو ہے اور یہ اسی ہی کے کرم اور انسان کی
ان تھک محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ انسان کائنات کے بہت سے رازوں پرسے پردہ
اٹھانے میں کامیاب ہو سکا ہے۔اللہ تعالی نے دنیائے کائنات کے اندر 118
اقسام کے مخلوقات کی تخلیق کی لیکن آپ انسان کی بیچارگی کا اندازہ لگائیے
کہ وہ صرف ایک مخلوق یعنی انسانوں کے بارے میں بھی پورے طریقے سے واقف نہ
ہو سکا۔ دنیا میں گنے چنے 7 ارب 80 کروڑ انسان ہیں ہر انسان دوسرے انسان سے
مختلف بھی ہے اور منفرد بھی اس لئے یہ تلاش کرنا کہ کون انسان کیسا ہے کافی
مشکل ہے لیکن قدرت نے دنیا میں اچھے یا برے ہونے کے معیار کو ضرور طے کر
دیا ہے۔آج کی اس تحریر میں میری یہی کاوش ہو گی کہ آپ کو انسانی عظمت کے
معیار سے آگاہ کر سکوں اور اس سوال کا جواب دے سکوں کہ عظیم کون ہوتا ہے؟
میں جب اس عظیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو چند واقعات
اس سوال کے جواب کو واضح کر دینے کے لیے کافی تھے۔ یہ واقعات اپنی نوعیت کے
لحاظ سے معمولی ہو سکتے ہیں لیکن اپنے سبق کے لحاظ سے بہت عظیم ہیں۔ میرے
لیے اس پیچیدہ سوال کے جواب کو نوابشاہ کے حمید بخش مگسی نے آسان کیا کہ جب
میں نے سنا کہ اس نے اپنی زندگی اپنے چھوٹے بھائی کے لیے وقف کر دی ہے ۔اس
کا پانچ سالہ بھائی معذور ہے اور حمید اسے روزانہ اپنی سائیکل پر ذہنی اور
جسمانی بحالی کے سنٹر لے کر جاتا ہے۔اس نے اس مقصد کے لیے اپنی پڑھائی تک
کی قربانی دے دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی ٹھیک ہو جائے تو اس سے
بڑی کامیابی اس کے لئے کچھ نہیں ہے،پڑھائی تو وہ بعد میں بھی حاصل کر سکتا
ہے۔ نوابشاہ کا 14 سالہ حمید ہمیں بہت ہی انمول سبق دے گیا ہے کہ ” دنیا
میں اہم وسائل نہیں ہوتے انسان ہوتے ہیں“،انسان خوش اور سلامت رہیں یہ بہت
ضروری ہے وسائل تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ ہم دنیا کمانے کے چکر میں لگے رہیں اور ہمارے رشتے ہم سے روٹھ
جائیں،اگر ایسا ہوگیا تو آخر میں ہمارے پاس پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں
ہوگا۔ اس چھوٹے سے بچے نے اپنے عمل سے زوہرہ اور زینب جیسے کتنے ہی معصوم
بچوں کے قاتلوں کے منہ پر طمانچہ بچہ ضرور مارا ہے اور اس پیغام کو واضح
کیا ہے کہ” انسانی عظمت عمر کی قیود سے آزاد ہے۔“
میں نے جب اس راز کو مزید جاننا چاہا تو میری اس کھوج کو مزید آسان کراچی
کے خالد حسین نے کیاجو دن بھر گاڑیاں صاف کرتا ہے اور ساتھ لوگوں کو تپتی
دھوپ میں پانی پلاتا ہے اس نے اپنے ساتھ مزید دو آدمی رکھے ہوئے ہیں تاکہ
زیادہ سے زیادہ افراد تک پانی پہنچ سکے۔ خالد حسین نے ثابت کیا کہ ” عظیم
ہونے کے لئے مال و دولت نہیں بلکہ دل میں درد انسانیت ہونا لازمی ہے۔“خالد
حسین نے اپنے عمل سے یہ پیغام بالکل عیاں کر دیا کہ اگر واقعی ہی خوشی اور
اطمینان چاہتے ہو تو یہ مال ،پیسہ، گاڑیوں اور مہنگے کپڑوں میں نہیں بلکہ
خدمت انسانیت میں ملے گا۔
میں اپنے جواب کو مزید واضح کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک خاتون
پولیس افسر کا کارنامہ میرے سامنے سے گزرا جنہوں نے غریب کی بیٹی کو سڑک سے
اٹھا کر باعزت طریقے سے اس کی شادی کر دی۔اس خاتون پولیس افسر نے اگرچہ
وردی پہنی تھی لیکن اپنے فرض سے بڑھ کر اللہ کی رضا کے لیے انسانیت کی خدمت
نے ان کا مقام مالک کائنات اور دنیا کی نظروں میں بلند اور منفرد کر دیا۔اس
خاتون پولیس افسر کی مثال ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ” اگر دنیا میں شہرت دوام
چاہتے ہو تو یہ اختیار،مال اور طاقت سے نہیں مل سکتی یہ اسی وقت ہی ملے گی
جب ہم اپنے اختیار کے مطابق مخلوق کی فلاح میں مصروف ہو جائیں گے“
یہاں ایک بات بڑی ہی غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض لوگ مخلوق کی خیر کرنے
کے بعد بھی عظیم نہیں ہو پاتے تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی ہو گی کے اگر ہم
عظمت کی بلندیوں پر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں خلوص سے کام لینا ہوگا کیونکہ
جب تک ہم خلوص اور درد انسانیت سے سرشار اور ریاکاری سے پاک ہوکر مخلوق کی
خدمت نہیں کریں گے تب تک ہم عظمت کی چوٹی تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اس لیے
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ہر عمل کو درجہ قبولیت تک پہنچانے کی بھرپور کوشش
کریں اور خدمت خلق اپنا شیوہ بنا کر تاریخ کی کتابوں میں عظیم بن جائیں۔ |