آیا صوفیا ۔۔۔۔۔ ایک تاریخی ورثہ
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, )
آیا صوفیا استنبول میں جامع مسجد سلطان
احمد کے قریب واقع ایک شاندار تاریخی عمارت ہےجو پہلے چرچ تھا، جسے 532
عیسوی میں بازنطینی بادشاہ نے تعمیر کیا تھا۔ 1453 عیسوی میں جب ترک سلطان
محمد فاتح نے اس علاقے کو فتح کیا تو گرجا گھر کے پادریوں کو رقم دے کر اس
پُر شکوہ عمارت کومسجد میں تبدیل کردیا۔ یاد رہے کہ مسلمانوں کی کئی نسلوں
نےقسطنطنیہ فتح کرنے کی کوشش کی مگر بالآخر یہ سعادت ابدی عظیم سلطان مراد
ثانی کے فرزند سلطان محمدثانی (جسے فتح قسطنطنیہ کی وجہ سے فاتح کا لقب ملا)
کے حصے میں آئی۔ نبی اکرم (ﷺ) نے بشارت دی تھی کہ ’’جو لشکر اس شہر کو فتح
کرے گا وہ جنتی ہوگا‘‘ اس طرح عظیم ترک لیڈر سلطان محمد ثانی قسطنطنیہ (استنبول)
فتح کرکے اس بشارت کا مصداق ٹھہرے- سلطان محمد فاتح ہمہ جہت اوصاف کے مالک
تھے۔ عزم و استقلال، فہم و فراست،جواں مردی اور یقین محکم ان کی شخصیت کے
نمایاں پہلو تھے- سلطان محمد فاتح نے 9 سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا،
14برس کی عمر میں سلطنت کے سربراہ بنے، 19برس کی عمر میں دُنیا کی سات
زبانوں پہ عبور حاصل کیا اور محض 21 برس کی کم عمر میں قسطنطنیہ فتح کر کے
بشارتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے حقدار بن گئے۔ یہ موقع قسطنطنیہ کیلئے تاریخ میں ایک
نئے باب کا آغاز تھا۔ شہر کا نیا نام استنبول رکھا گیا، جو ایک مسلم شہر
اور سلطان محمد کی سلطنتِ عثمانیہ کا دارالحکومت قرار پایا۔ سلطان محمد
فاتح نے جب اس کتھیڈرل کی عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا تو کسی بنیادی
تبدیلی کی بجائے اس کے ہر کونے میں ایک مینار بنا دیا۔ "آیا صوفیا" کے
اندرونی حصے میں اللہ تعالیٰ، اس کے پیارے رسول محمد ﷺ اور ان کے نواسوں
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے نام آویزاں کر د یئے گئے۔ پہلے سے موجود
تصویروں اور نقش و نگار کو پلاسٹر یا اسلامی تزئین و آرائش سے چھپا دیا
گیا۔ سب سے اہم تبدیلی محراب کی تعمیر تھی تا کہ مسلمان قبلہ کی طرف رخ کر
کے نماز پڑھ سکیں۔ اس تاریخی مسجد کو 1934ء میں مصطفی کمال اتاترک نے اپنے
مغربی آقاؤں کے ایماء پر میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ترک
عدالت میں اس عظیم الشان مسجد کی سابقہ حیثیت بحال کرنے سے متعلق ایک
درخواست دائر کی گئی تھی، کافی عرصہ یہ درخواست زیر سماعت رہی اور ہر پہلو
پر دلائل دئے جاتے رہے۔باآخر عدالت نے اپنے حتمی فیصلے میں استنبول کی
تاریخی عمارت آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے مسجد میں
تبدیل کرنے کا حکم سنا دیا۔ ترکی کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے
کہ 24 نومبر 1934 کا حکومتی فیصلہ جس میں اس عمارت کی مسجد کی حیثیت ختم
کرکے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ عدالتی
فیصلے کے مطابق آیا صوفیا سلطان فاتح محمد ٹرسٹ کی ملکیت ہے جسے مسجد کے
طور پر عوام کی خدمت کے لیےپیش کیا گیا تھا اور آیا صوفیا ٹرسٹ کی دستاویز
میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آیا صوفیا کو مسجد کے علاوہ کسی اور
مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے
کہ ’’ آیا صوفیہ اب ایک میوزیم نہیں کہلائے گا کیونکہ مقدس مقام کو میوزیم
میں تبدیل کرنے کی بڑی غلطی کی تلافی کردی گئی ہے‘‘۔ ترک حکومت کا موقف ہے
کہ سلطنت عثمانیہ کی ملکیت ہونے کی بنا پر یہ عمارت انقرہ حکومت کی پراپرٹی
ہے اور حکومت کی نظر میں یہ عمارت مسجد بنائے جانے کے زیادہ لائق ہے۔اس طرح
900 سال تک ایک چرچ، 500 سال تک ایک مسجد، 86 سال تک میوزیم اور اب ایک
مرتبہ پھر مسجد بننے والی "آیا صو فیا" کی عمارت اب بھی پوری مضبوطی اور
شان سے کھڑی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے عدالتی فیصلے کے بعد تاریخی
اہمیت کی حامل عمارت "آیا صوفیا" کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے
صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر د یئے ہیں۔ اس صدارتی حکم نامے کے بعد
آیا صوفیا کی میوزیم کی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور اس کا کنٹرول محکمہ مذہبی
امور نے باضابطہ طور پر سنبھال لیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے انتخابی
مہم کے دوران متعدد مرتبہ آیا صوفیا کو ایک مرتبہ پھر مسجد بنانے کا وعدہ
کیا تھا۔ ترک عدالت کے آیا صوفیا کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کے بعد وہاں
اذان بھی دی گئی جسے ترک ٹی وی چینلز نے براہ راست نشر کیا۔ صدر ایردوان نے
عدالتی فیصلے کے بعد ہدایت کی کہ اس کا انتظام مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ
کے حوالے کیا جائے اور وہاں نماز کا انتظام کیا جائے۔ ترکی کے اسلام پسند
عوام برسوں سے آیا صوفیا کی اصلی حیثیت واگزار کیے جانے کے لئے تحریک
چلارہے تھے اور اسی لئے عدالت میں اس کیلئے مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا۔
آیا صوفیا کی اصلی حیثیت واگزار کئے جانے پر عیسائی دنیا میں سخت تشویش
پائی جارہی ہے۔ امریکہ اور یونان نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس ماہ ایک بیان میں ترک حکومت پر
زور دیا تھا کہ وہ آیا صوفیا کو عجائب گھر کے طور پر برقرار رکھے، تاکہ وہ
ترکی میں مذہبی روایات کے احترام اور متنوع تاریخ کی مثال کے طور پر قائم
رہے اور سب کے لیے اس تک رسائی یقینی ہو۔یونانی حکومت کے ایک ترجمان کا
کہنا تھا کہ آیا صوفیا کی اصلی حیثیت بحال کئے جا نے سے ترکی اور دنیا بھر
کے مسیحیوں میں ایک عظیم جذباتی خلیج پیدا ہوگی۔ اس بیان بازی میں عالمی
ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکوبھی کود
پڑا۔ افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ غرناطہ اور قرطبہ کی تاریخی مساجد کو
گرجا گھر بنائے جانے پر اب تک امریکہ، یورپ اور تمام دنیا خاموش تماشائی
بنی رہی ہیں۔لیکن اب ایک سابقہ عظیم الشان مسجد کی بحالی کے فیصلے پر افسوس
کا اظہارکر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوان ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ
’’ آیا صوفیا کا مسئلہ ترکی کی خود مختاری کا معاملہ ہےاور ترکی اپنے
مسائل میں بیرونی افراد کو مداخلت کی اجازت نہیں دے گا ۔ آیا صوفیا کے
دروازے مقامی و غیر ملکی، مسلم و غیر مسلم کے لیے کھلے رہیں گے۔ بنی نوع
انسان کا ورثہ آیا صوفیا اپنی نئی حیثیت کے ساتھ مخلصانہ ماحول میں ہر
مذہب و ملت کے لوگوں سے ہم آہنگی پیدا کرے گا۔ 24 جولائی 2020 بروز جمعہ
نماز جمعۃ المبارک کے ساتھ 86 سال بعد آیا صوفیا کو عبادت کے لیے کھولنے
کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ترکی میں عبادت کے لیے کھلے 435 گرجا گھر موجود
ہونے کی یاددہانی کراتے ہوئے ترک صدر کے بقول آیاصوفیا کا جنم نو مسجد ِ
اقصی کی آزادی کی خوشخبری ثابت ہوگا‘‘۔
آیاصوفیا دنیا میں فن تعمیر کا ایک عالی شان نمونہ ہے،جسے رومی اور ترک
انجینئرز نے کمال مہارت سے دنیا کی شاندار عمارت کا روپ دے دیا ہے۔آج بھی
دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح اس عالی شان عمارت کو دیکھنے
آتے ہیں اور فن تعمیر کے اس عجوبے پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
|
|