اسے کھلونوں سے بڑھ کر ہے فکر روٹی کی
ہمارے دور کا بچہ جنم سے بوڑھا ہے
جب پیٹ خالی ہواور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خاطر خواہ وسائل نہ
ہوں تو خوشحال زندگی کسی دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے. غربت کسی بھی
معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جو بہت سے دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ جرم،
جہالت، معاشی اور معاشرتی پسماندگی، ان سب کی جڑ غربت ہی ہے۔ کسی بھی
معاشرے کے لئے غربت پر قابو پائے بغیر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا مشکل ہی
نہیں نا ممکن ہے۔معاشرے کا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ وہ بچے ہیں جو عدم توجہی
کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات اور شخصیت کی نشوونما سے محروم رہ جاتے
ہیں۔ یہ محرومی نہ صرف ان کے حال اور مستقبل بلکہ معاشرے اور آنے والی
نسلوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ہم ہر روز اپنے آس پاس بہت سے ایسے معصوم چہرے
دیکھتے ہیں جو اپنی نگاہوں میں بہت سے سوال لیے پھرتے ہیں کہ یہ معاشرہ اُن
کا بھی ہے پھر اُن کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں؟ وہ سب جاننا چاہتے ہیں
کہ اُن کی آنکھیں پڑھ لکھ کر بڑاآدمی بننے کا خواب کیوں نہیں دیکھ سکتیں؟
اُن کے پاس بچپن کا سکون, رات کی اچھی نیند اور کھیل کود کے لئے اچھا وقت
کیوں نہیں ہے؟ اُن کی آنکھیں ہر راہ گیر سے پوچھتی ہیں کہ پرتعیش گاڑیوں
میں بیٹھے بچوں اور ان میں کیا فرق ہے؟ ان کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں
اور ہمارے ہاتھوں میں مزدوری کے آلے کیوں ہیں؟ ہم بھی ان جیسے بچے ہیں,
ہمارے پاس بھی خواب دیکھنیوالی آنکھیں اور خواہشمند دل ہیں, تو پھر کیوں اس
معاشرے میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے؟
پاکستان شماریاتی بیورو (پی بی ایس) نے آخری بار 1996 میں ایک سروے کے
ذریعے بچوں کی مزدوری کے اعداد و شمار اکٹھے کیے تھے, جس کے مطابق ملک بھر
میں 3.3 ملین مزدور بچے شامل تھے پاکستان نے 2001 میں, ''ورسٹ فارم آف
چائلڈ لیبر'' آئی ایل او کنونشن پر دستخط کیے تھے لیکن اب تک کوئی عمل
درآمد نہیں کیا جاسکا۔چائلڈ لیبر پاکستان کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں,اگر یہی بچے اپنا بچپن مجبوری اور
لاچاری کے اندھے کنویں میں دھکیلنے اور بھیک مانگ کر کھانے پر مجبور ہو
جائیں تو پھر اس ملک کے عوام اور حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ کیوں
اپنے فرائض پورے کرنے میں ناکام رہے؟ اُن بچوں کوحقوق دلانے اور مستقبل
سنوارنے کے لیے کیوں کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے؟
پاکستان میں بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں چائلڈ لیبر جیسی معاشرتی لعنت کے
خلاف لڑ رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بہت سے چائلڈ لیبر ایکٹ بھی متعارف کروائے
جا چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے حکومت ان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بچوں کو عام طور پر پھولوں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور وہ خدا کی معصوم تخلیق
ہیں۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں قلم کی سیاہی ہونی چاہئے وہ بدبودار کوڑا
اُٹھاتے اور مکینک کی دکان پر لوگوں کی گاڑیوں کی مرمت کرتے نظر آتے ہیں۔
جن بچوں کے کندھوں پر کتابیں ہونی چاہئے ان کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا
بوجھ پڑ جاتا ہے اور وہ سڑکوں پر روزی تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ آخر اُن بچوں
کا کیا قصور ہے اور کب حکومت انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائے گی؟ہمارے
معاشرے میں غربت اور دولت کی اس تقسیم نے بہت سارے معصوموں کا بچپن چھین
لیا ہے۔ ہر روز ہم اپنے اردگرد بہت سے معصوم مزدور دیکھتے ہیں، کبھی فٹ
پاتھ پر، کبھی ہوٹل یا شاہراہ پر کبھی وہ ردی کی ٹوکری سے اُٹھتے ہوئے
دیکھے جاتے ہیں اور کبھی حلال روٹی کی تلاش اُن کو مار ڈالتی ہے۔ ہم اپنی
ان بے حس آنکھوں سے ایسے بہت سے مناظر دیکھتے ہیں۔ ہم بچوں کی مزدوری کے
خلاف بات نہیں کرتے کیوں کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ بچے ننھی کلیوں کی طرح
ہیں جو مستقبل میں کسی بھی ملک اور قوم کے لئے سایہ دار درخت ثابت ہوں گے۔
یہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں جن سے ہم نے ان کا آج چھین لیا ہے۔ یہ بچے
کل عدم دستیابی اور حقوق کے استحصال کی وجہ سے گمراہ ہو سکتے ہیں۔ قابل ذکر
بات یہ ہے ۔کہ ہم ایک غریب اور جاہل معاشرے کی میراث کو اپنی آنے والی
نسلوں میں منتقل کررہے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ بچے خوراک, تعلیم اور صحت جیسے
بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو دوسری طرف وہ جبری مشقت، اغوا برائے تاوان اور
جنسی تشدد جیسے مظالم کا بھی شکار ہیں۔دوسرے ممالک کی طرح، آئین پاکستان
میں بھی بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین موجود ہیں,لیکن ان کی ضروریات کی طرح
ان کے خدشات کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں بچوں کو جنسی
استحصال کے بعد کسی ندی نالیمیں پھینک دیا جاتا ہے یا بیچ دیا جاتا ہے،
لیکن اقتدار میں رہنے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی. اس کے برعکس
اگر کسی امیر شخص کے بچے کو اغوا کرلیا جائے تو اس کی بازیابی کے لئے تمام
ادارے متحرک ہوجاتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کے حقوق صرف اس لئے پامال کیے جارہے
ہیں کہ ان کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جہاں ایک دن میں دو وقت کا کھانا
بھی دستیاب نہیں ہوتایہ طبقہ کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیحات کا حصہ نہیں
رہایہ وہ بچے ہیں جو اس ملک اور قوم کا مستقبل ہیں، لیکن وہ طبی سہولیات
اور خوراک کی کمی کا شکار ہیں پاکستان کے صحرائے تھرپارکر اور چولستان میں
گذشتہ چند سالوں میں غذائی قلت کی وجہ سے سیکڑوں بچے اپنی جانوں سے ہاتھ
دھو بیٹھے ہیں۔ دیگر بنیادی سہولیات کی طرح,اس زمرے میں خواندگی کی شرح بھی
صفر ہے۔ صحت اور خوراک کے ساتھ ساتھ تعلیم تک رسائی بھی ان بچوں کی پہنچ سے
دور ہے۔ غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں
کیونکہ وہ ان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے, نتیجتاً وہ کم عمری میں ہی سخت
محنت کی بھٹی میں پھینک دیے جاتے ہیں۔بچوں کو مشقت طلب کام کرنے پر مجبور
کرنا اس دور میں عام ہو چکا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زیادہ
بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس کے برعکس امراء اور وزراء کے بچوں کو نہ صرف
بہترین زندگی گزارنے کے لئے ہر آسائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ جدید معیاری
تعلیم کی فراہمی کے لئے غیر ملکی تربیت یافتہ اساتذہ کو باقاعدگی سے مقرر
کیا جاتا ہے۔ کیا یہ معاشرتی سطح پر کھلا تضاد نہیں ہے؟غریب اور لاچار بچوں
کو تعلیم,خوراک,کھیل کود,سیرو تفریح غرض ہر چیز سے محروم کردیا گیا ہے گویا
غریب ہونا ایک بہت بڑا گناہ کرنے کے مترادف ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ
ایک پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن معاشرتی رویے نے انہیں
جنسی,جسمانی اور نفسیاتی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ غربت کے ساتھ ساتھ
جنسی اور نفسیاتی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان بچوں کو زندگی کی بنیادی
ضروریات مہیا کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری کا ایک حصہ
ہے۔ ان کے پاس امراء کے بچوں کی طرح آرام دہ اور پرسکون زندگی نہیں ہے,
لیکن انہیں پر سکون زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ آخر وہ بھی بچے
ہیں!ان حالات کے پیش نظر چائلڈ لیبر کی وجوہات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔
اگر وہ غربت کا سامنا کررہے ہیں تو حکومت کو چاہئے کہ ایسے بچوں کے لئے
ماہانہ وظیفہ مقرر کرے اور انہیں اسکول میں داخل کروائے بچے ملک کا اثاثہ
اور روشن مستقبل ہیں اور انہی کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالناہوگی۔ اگر آج ان
کی تعلیم و تربیت کا خیال نہیں رکھا گیا تو وہ ملک کے با وقار اور مہذب
شہری نہیں بن پائیں گے حکومت کو والدین میں بچوں کی تعلیم کے بارے میں شعور
پیدا کرنے کے لئے عوامی مقامات اور میڈیا میں پروگرام نشر کروانے چاہئیں
ہراساں کرنے والے فورمز کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے جو اس قسم کی سرگرمی
کو بڑھاوا دیتے ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں مل کر اپنے ملک کے اس
قیمتی اثاثے کا تحفظ کرنا ہے۔ |