جدیدقطر کی اساس کا سہرا جن دو شخصیات کے
سر باندھا جاتا ہے ان میں قطر کے سابق امیر السمو الشیخ حمد بن التانی اور
خاتونِ اول شیخہ موزا بنت نصرالمسند کو خیال کیا جاتا ہے اور اس میں رائی
برابر بھی کوئی شک نہیں کیونکہ من کہ مسمی خود اس ترقی واستحکام کا چشم دید
گواہ ہے۔میں نے عرصہ بیس سالوں میں قطر کو 180 کے زاویے سے ترقی کی شاہراہ
پر خامشی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں دیکھا ہے۔2013 میں جب قطر کے سابق
امیر السمو الشیخ حمد بن خلیفہ التانی نے بوجوہ خرابی صحت حکومت اپنے
جانشین السمو الشیخ تمیم بن حمد التانی کے سپرد کی تو ان کی جوان عمری میں
بادشاہت جیسی ذمہ داریوں کو لے کر خطہ اور پوری دنیا میں ایک خاموش قسم کی
چہ مہ گوئیاں سنائی دیں کہ کیا ایک کھلنڈرا نوجوان حکومت کی ذمہ داریوں کو
اپنے کندھوں پر سنبھال لے گا؟لیکن میں نے دیکھا کہ نہ صرف ریجنل سیاست بلکہ
بین الاقوامی سیاست میں بھی شیخ تمیم بن حمد التانی نے اپنی بصیرت،بہترین
سیاسی حکمت عملی اور خوب صورت مسکراہٹ سے اپنی وژن کا لوہا منوایا۔اور ترقی
واستحکام کی جس شاہراہ کا مسافر قطر کوان کے والد محترم نے بنایا تھا انہوں
نے اپنے باپ کے نقشِ پا پہ چلتے ہوئے قطر کو اس قابل بنا دیا کہ باوجودیکہ
بین الاقوامی مخالفت فیفا کپ2022 کو اپنے ملک میں منعقد کروانے کے اعزاز کو
برقرار رکھا۔اب فیصلہ کو حتمی شکل دی جا چکی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے فیفا کپ
2022 قطر میں ہی منعقد ہوگا۔جس کے لئے باقاعدہ شیڈول کا اعلان بھی جاری
کردیا گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب شیخہ موزا بنت نصر المسند نے فیفا کمیٹی کے سامنے اپنے
خیالات کا اظہار فرمایا تھا تو انہوں نے بس ایک لفظ کو اس کمیٹی کے سامنے
رکھا تھا اور وہ لفظ تھا کہ WHEN? ۔اور اس کے بعد انہوں نے کمیٹی کو یہ
باور کرایا کہ اس سے قبل فیفا امریکہ،یورپ،افریقہ اور ایشیا میں فٹ بال کا
عالمی کپ منعقد کروا چکا ہے اور جس خطہ میں بھی اس عالمی کپ کا انعقاد
ہواپوری دنیا نے دیکھا کہ وہاں معاشی ومعاشرتی کے ساتھ ساتھ فٹبال کو بھی
فروغ ملا ہے۔اورآپ دیکھیں گے کہ اگر قطر کو اس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا
ہے تو اس خطہ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔سب سے پہلے تو فٹبال کو فروغ
ہوگا اور پھر ہم اس کھیل کے ذریعے سے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں
ممدومعاون ثابت ہونگے۔ہماری کوشش ہوگی کہ مشرق ومغرب کو ایک دوسرے کے قریب
کر سکیں۔اور آخر میں انہوں نے پھر اپنے سوال کو دھرایا کہ مڈل ایسٹ کا ہر
بچہ مجھ سے دست سوال ہے کہ کب؟کب اس خطہ میں فیفا کپ کا انعقاد ہوگا۔اس کے
بعد جب چئرمین فیفا نے دنیا کے سامنے ایک لفافہ میں سے وہ نام نکال کے
دکھایا تو وہ قطر کا نام تھا۔
قطر جو کہ اس سے قبل ایتھلیٹکس اور انڈور گیمز کے علاوہ ایشین گیمز2006 کا
کامیاب انعقاد بھی کروا چکا ہے جس میں ناچیز خود بطور والنٹئر شمولیت
اختیار کرچکا ہے۔اگر سابقہ بین الاقوامی ایسی تقریبات کے انتظام وانصرام کو
دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قطر کے لئے فیفا کپ کا انعقاد وانصرام
کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اس سلسلہ میں قطر حکومت نے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جس
کا کام ہی صرف ایسے معمولات،کام کی رفتار اور انصرام کا جائزہ لینا ہے کہ
قبل از وقت تمام متعلقہ کام کو نپٹایا جاسکے۔اس کمیٹی کا نام ہے سپریم
کمیٹی آف ڈلیوری اینڈ لیگسی۔اس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری محترم حسن الزوابی نے
فیفا کپ 2022 کی میزبانی کا باقاعدہ عملی طور پہ اعلان کردیا ہے ۔انہوں نے
اپنی ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ فیفا عالمی کپ2022 منعقدہ قطر کا پہلا
میچ میزبان ٹیم کے ساتھ 21 نومبر2022 کو البیت اسٹیڈیم الخور میں کھیلا
جائے گا جبکہ دوسری اور تیسری پوزیشن کے حصول کے لئے 17 دسمبر 2022 کو
خلیفہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں اور فائنل میچ قطر کے قومی دن یعنی18 دسمبرکو
لوسیل اسٹیڈیم میں 80 ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں کھیلا جائے گا۔
فیفا عالمی کپ2022 کے انعقاد سے خطہ کی سیاست،معیشت اور معاشرت پر کیا
اثرات مرتب ہوں گے۔یہ ایک سوال ہے کیونکہ عرصہ تین سال سے ہمسایہ ملک سعودی
عرب،یو اے ای اور بحرین اس ملک کے ساتھ قطع تعلق کئے ہوئے ہے۔یہی وہ سوال
ہے جو قطر سے باہر بیٹھے ہوئے ناقدین ،مبصرین اور محققین کو پریشان کئے
ہوئے ہے۔لیکن میں نے اس کالم کے شروع میں عرض کیا کہ میں قطر کی دن دوگنی
رات چوگنی ترقی کا چشم دید گواہ ہوں۔کہ کس طرح قطر دیکھتے ہی دیکھتے بڑی
بڑی شاہراہوں،بنیادی انفراسٹکچر،اسٹیڈیمز،میٹرو،خوارک میں خودکفالت اور بین
الاقوامی سیاست میں اپنے کردار کو منوایا ہے قریب قریب اس کی مثال بہت کم
ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔سب سے جو بڑی بات قطر کی ترقی میں مجھے لگی وہ
ہے تعلیمی معیار شرح میں اضافہ ،خاص کر تعلیم نسواں۔ایک سروے کے مطابق اس
وقت پورے خلیج میں قطر واحد ملک ہے جہاں خواتین کا لٹریسی ریٹ سب سے زیادہ
ہے۔چونکہ میں بھی ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ہوں تو میں نے مشاہدہ کیا کہ
قطر کی تعلیمی ترقی کا راز تحقیق اور دنیا کے تمام بڑی یونیورسٹی کی سب
کیمپس بنانے میں مضمر ہے۔اور اس بات کا سہرا السمو الشیخہ موزا بنت نصر
المسند کے سر ہے۔جنہوں نے تعلیمی ترقی کے لئے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔چونکہ
وہ خود بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں اس لئے تعلیم کی اہمیت خصوصا خواتین
کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ایجوکیشن سٹی اور قطر ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسے
بڑے کارناموں کے علاقہ وہ بہت سے دیگر اداروں کو بھی بخوبی واحسن چلا رہی
ہیں۔ان کی تعلیمی خدمات کے عوض انہیں دنیا بھر کی بہت سی تنظیموں نے
اعزازات سے بھی نواز رکھا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں تعلیم میں کس
قدر دلچسپی ہے۔
فیفا عالمی کپ کے انعقاد سے ایک تو قطر مزید ترقی کا موقع ملے گا دوسرا
دنیا کو عرب کلچر اور مسلمانوں کی میزبانی کے اعلی معیار کا بھی اندازہ ہو
سکے گا۔یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مجھے یہاں رہتے ہوئے اس بات کا اندازہ
ہے کہ یہ لوگ میزبانی کے لئے اپنے دل وجان پیش کرنے سے بھی گریزاں نہیں
ہوتے۔ایک لحاظ سے دنیا کے سامنے مسلمانوں کا مثبت پہلو بھی سامنے جائے
گا۔لاکھوں افراد کی سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات بھی اس بات کی انشا اﷲ
دلیل ہوں گے کہ ہم امن پسند مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ہمارا کسی قسم کی تخریب
اور تخریبی عوامل سے کوئی تعلق نہیں۔قطر کو میزبانی سونپ کر فیفا نے بھی اس
بات پہ مہر ثبت کر دی ہے کہ مڈل ایسٹ کے لوگ اس بات کے قابل ہیں کہ یہاں فٹ
بال کو فروغ دیا جائے۔اس بات کا سہرا بھی قطر کے شاہی خاندان کے سر جاتا
ہے۔فیفا 2022 کا قطر میں انعقاد اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قطری شاہی خاندان
کو کھیلوں کے فروغ میں کس قدر دلچسپی ہے۔
|