گزشتہ ہفتہ ملائشیا نیشنز کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان اپنا فائنل میچ
نیوزی لینڈ سے 2/6 اسکورز سے ہار گیا جبکہ اس ٹورنامنٹ میں ٹاپ ٹیمیں
آسٹریلیا، ہالینڈ، انڈیا، اسپین، ارجنٹینا اور انگلینڈ نہیں کھیل رہی تھیں
(جس سے ہمیں یہ پتہ چلتا کہ ہماری ٹیم کی کارگردگی کئی دہائیوں کے بعد کچھ
تبدیلی آئی ہے کہ نہیں) جب کہ نظر یہی آرہا ہے کہ ایک دو کے علاوہ تمام
یورپی ٹیموں نے تین چیزوں میں مہارت حاصل کر لی ھے ایک سپیڈی روٹیشن دو
سپیڈی اٹیک اور تین پرفیکٹ سٹاپج ان تینوں چیزوں کا آج کل تمام یورپین ٹیمز
انکا خوب استعمال کا مظاہرہ کررہی ہیں.
جب کے ہماری ہاکی ٹیم 1994 سے ہماری ٹیم سست اور پیچھے رہ کر کھیلنے کی
کوشش کر رھے ھیں اور گزشتہ ہفتے ملائشیا نیشنز ٹورنامنٹ کے فائنل میں ٹیم
نے دفاعی کھیل کھیل کر برابری کی حکمت عملی اپنائی جو کامیاب نہ ہو سکی ہار
جیت کھیل کا حصہ ہے مگر2/6 سے ہار یقیناً اچھی نہیں تھی اس پہ ستم یہ کہ
چار گول تو پہلے دس منٹ میں ہی ہو گے یہ اس بات کی غمازی ہے کہ کھلاڑیوں کا
مورال نہ صرف ڈاؤن تھا بلکہ وہ مقابلے کے لیے تیار ہی نظر نہیں آرہے تھے .
ہمارے مُلکی کوچز کی اپروچ کچھ نظر نہیں آتی کہ اس نے فائنل میں اُترنے کے
لیے لڑکوں کو کیا پلان دیا تھا ہمارے مُلکی کوچز زبردستی کے کوچز بنے ہوئے
ہیں ہر ٹورنامنٹ میں ہارنے کہ بعد ان کے یہی بیانیہ جو ہر ادوار میں
اخباروں کی زینت بنتے ہیں کہ لڑکوں نے خوب محنت کی آنے والے ٹورنامنٹ میں
اس سے اچھی کارگردگی دیکھائینگے اس فائنل میں بھی ہماری ٹیم اٹیک کے بجائے
دفاع پر ہی رہی اسمیں کھلاڑیوں کا قصور اتنا زیادہ نہیں جتنا ہمارے ہاکی
کوچز اُس ہی پیٹرن ہر رواں دواں ہیں جن سے ہماری ٹیمز کو دنیائے ہاکی میں
پے درپے شکست ہورہی ہیں. جبکہ ماڈرن ہاکی میں آپ گاھے بگانے اٹیک کر کے
اچھے رزلٹ کچھ وقت تو دے سکتے ہیں پر ہمیشہ نہیں مگر اس وقت ملائشیا
ٹورنامنٹ میں جو لڑکے نظر آرہے ہیں ان میں کچھ لڑکے بہت با صلاحیت نظر آئے
ہیں. وہ اس وقت ایشین اسٹائل میں جان ڈال سکتے ھیں خرابی صرف تیکنیک اور
فٹنس کی ھے. کچھ عرصہ پہلے ( پاکستان کے سابق سینیر کپتان شہباز احمد نے
اپنے ایک انٹرویو میں ایک بات کہی تھی کہ میں جب کھیلتا تھا اور گیند میری
ہاکی پہ ھوتی تھی تب بھی سارا میدان میری نگاہ میں ھوتا تھا ) یہی صورتحال
ہمارے سابق کھلاڑیوں جیسے اصلاح الدین، سمیع اللہ، حنیف خان ، منظور جونیر،
حسن سردار ، کلیم اللہ، صفدر عباس ،سلیم شیروانی جونیر، وغیرہ میں تھی جب
گراونڈ میں گیند لیکر بھاگتے تھے تو ایسا لگتا تھا ان کے پاس گیند اب مختلف
ٹیم کے گول پوسٹ کے جال میں جاکر ہی دم لیگی ان کے قدم گیند سے تیز نکلتے
تھے یہی چیز ہمیں اپنے نئے نوجوانوں لڑکوں میں صلاحیت نظر آرہی ھے ہاکی
کوچز کو ان نئے لڑکوں کو تفویض کرنی ھے ۔ اگر ہماری ہاکی ٹیم کو آگے بڑھنا
ھے ان ہی لڑکوں کے ساتھ پروفیشنل غیر مُلکی کوچز لگانا چاہیے .
اس وقت ہماری ہاکی ٹیم کو پروفیشنل کوچز کی اشد ضرورت ہے ہمارے ہاکی کے
کرتا دہرتا ان مُلکی کوچز کو بار بار تجربے سے پاکستان ہاکی فیڈریشن اپنا
بھی اور پاکستان ہاکی ٹیم کے نوجوانوں کا بھی مُستقبل تباہ کررہے ہیں اور
بار بار کے مقامی کوچز کے تجربے سے کھلاڑیوں کا اعتماد بھی ختم ہوجاتا ہے ۔
آج کل جدید دور کی ہاکی کے ساتھ چلنے کے لیے غیر مُلکی پروفیشنل کوچ کی اشد
ضرورت نظر آرہی اس وقت دنیا بھر میں ہاکی کا پیٹرن بدل چکا ہے. اس وقت غیر
ملکی کوچز ہی ٹیم میں نکھار لاسکتے ہیں.
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور آج بھی پاکستانی عوام ایسے اپنا قومی کھیل ہی
کہتے ہیں اگر اس قومی کھیل پر ابھی سے خصوصی توجہ نہیں دی گئی تو ہماری
ہاکی کبھی اوپر نہیں آ پائیگی جبکہ ہاکی فیڈریشن کے حالات بھی ہاکی ٹیم سے
بھی ابتر نظر آہی رہے ہیں. پاکستان ہاکی فیڈریشن کا اپنا گراونڈ تک نہیں
اگر کھلاڑیوں کو جب پریکٹس کرنا ہو تو وہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کو خط لکھ
کر ان سے اجازت لینا پڑتی ہے.
دیکھا جائے تو پاکستان ہاکی کی تباہی کے ذمے دار بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن
کے موجودہ عہدیداران ہیں جو کھلاڑیوں کے ڈیلی الاؤنس پر بھی ڈاکہ مار کر ہر
دورے پر چلے جاتے ہیں۔اگر پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کو کامیابی کی راہ پر
گامزن کرنا ہے تو جونک کی طرح چمٹے ہوۓ ان بورڈ کے مافیاوں سے جان چھڑا کر
ایسے لوگوں کو لایا جائے جو اپنے اللے تللے کے بجائے ہاکی کی اپروج بڑھانے
پر توجہ دیں اور میرٹ پر کھلاڑیوں کو آگے لایں ،نوجوان کھلاڑیوں نے ثابت
کیاہے کہ ان میں ٹیلنٹ موجود ہے انھیں سہولتوں اور رہنمائی کی ضرورت ہے.
اس وقت پاکستان اسپورٹس فیڈریشن کو چاہیے کہ PSL کے علاؤہ باقی سپورٹس پر
بھی توجہ دینی چاہیے خاص طور پہ قومی کھیل ہاکی پر تاکہ اس کی ڈگمگاتی ہوئی
ناؤ کسی مضبوط کنارے لگ سکے۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان میں HSL ہاکی
سپر لیگ کا انعقاد ہونا چاہیے . تاکہ پاکستان کے قومی کھیل کو بھی فروغ مل
سکے۔۔۔۔
اس وقت یہ ٹیم بہت ھی اچھے کھلاڑیوب پر مشتمل ھے اس پر اور زیادہ محنت کی
جائے نیز پاکستان کے ادارے بھی ان کے روزگار کا بندو بست کرے جس کی وجہ سے
ان میں زیادہ اپنی کارگردگی دیکھانے کا نکھار آے گا پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ
سے اچھی ٹیم ھے۔ کھلاڑیوں کی ذہنی یکسوئی اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار
لانے کیلیے پریکٹس میچز کے ساتھ ان کی مالی مشکلات بھی دور کرنا چاہیے.
|