اکثر لوگ جانتے ہیں کہ ترکی اور پاکستان کے
باہمی تعلقات قابل رشک حد تک بہتر ہیں اور یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ
ترکی کے سربراہ طیب اردگان کی شخصیت ایسی ہے کہ جس کی قدر و منزلت دنیا بھر
کے مسلمانوں میں بالعموم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص بہت ہی
شاندار ہے ،امید کی جانی چاہیے کہ عالم اسلام کے دوسرے ممالک کے مابین بھی
ایسے ہی بردارنہ تعلقات قائم ہوں گے ۔آیا صوفیہ کی شاندار عمارت کو ایک بار
پھر مسجد بنانے کے فیصلے پرشدت پسند مسیحی اور کچھ نام نہاد ’ترقی پسند‘
مسلم تاریخ کوسمجھنے کے باوجود اپنی متعصبانہ سوچ کوآگے بڑھاتے ہوئے تلملا
اور طعن وتشنیع کے تیر برسا رہے ہیں۔آیا صوفیہ کے حوالے بہت کچھ لکھا جا
چکا ہے۔ یاد رہے کہ جب 1453ء میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو
فتح کیا اور عیسائیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماوں اورپکے
عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت
پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مگر یہ سب خام خیالی اور بہلاوہ تھا، واضح
رہے کہ انکا یہ بھی عقید ہ تھا کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے
قریب پہنچ جائینگے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور
اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دیگا جو
اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔‘‘لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی
آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئی، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے
نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع
عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک باطل عقیدے کے مطابق کسی غیبی امداد کا منتظر
رہا۔ بالآخر سلطان اندر داخل ہوگئے اور فتح مکہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے سب
کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد
سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا ''ان شاء اﷲ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ
میں ادا کرینگے''۔ چنانچہ اسی دن شہرفتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز
ظہر ادا کی گئی، اسکے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا گیا۔بعد ازاں سلطان
فاتح نے یہ عمارت اور آس پاس کی زمین کلیسا کے راہبوں سے ان کی منہ مانگی
قیمت پر اپنی جیب سے خرید لی۔بیت المال سے ایک پائی بھی نہیں لی گئی۔اسکے
بعد انہوں نے اسے اپنے محل،کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹریا سیکرٹریٹ میں تبدیل
کرنے کے بجائے مسجد کیلئے وقف کردیا۔ اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا
دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اسکے
میناروں میں بھی اضافہ کر دیا۔
اسکے بعد یہ مسجد ''جامع آیا صوفیہ'' کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت
عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک قائم رہی۔بعد میں پہلی جنگ
عظیم کے ختم ہونے کے بعد جب ترکی کی خلافت ختم کر دی گئی (یاد رہے کہ سلطان
عبدا لحمید آخری عثمانی خلیفہ تھے) اتاترک کی سیکولر سوچ کے خبط سے 1935ء
میں مسجد کو عجائب گھر میں بدل دیا گیا۔31 مئی 2014ء کو ترکی میں ''نوجوانان
اناطولیہ'' نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی
جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔اس تنظیم کا کہنا تھا کہ
انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے تائیدی دستخطوں کو جمع کر لیا ہے۔ اسکے ساتھ
ہی معاملہ ترکی کی اعلیٰ ترین عدالت میں گیا،جہاں سلطان محمد فاتح اور
راہبوں کے مابین معاہدے کی مصدقہ دستاویز پیش کی گئی جس پر10 جولائی 2020ء
کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ
دیدیا۔اس پر طیب اردگان نے وہی کیا جو ایک اہل ایمان کو کرناچا ہئے۔انہوں
نے بلا تاخیر آیا صوفیہ مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دئیے۔عدنان مندریس
بھی اتاترک کے نقوشِ منحوس مٹانا چاہتے تھے، اس کوشش پر ان کو پھانسی لگا
دیا گیا۔ طیب اردگان کے نشاۃِ ثانیہ کے فیصلوں پر عدنان مندریس کو سزائے
موت سے ہمکنار کرنیوالی قوتوں کا کھولاؤ کس درجے پر ہو گا۔ اردگان کے ایسے
فیصلے آسان نہیں۔ وہ بہرحال ترکی کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے پرعزم ہیں۔جس
سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی فرد یا گروہ میں عزم و حوصلہ ہو تو وہ اپنی
منزل پا لیتا ہے مگر اس کے لیے ارادے کی پختگی ضروری ہے بقول اقبال
یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں
اس پس منظر میں امید کی جانی چاہیے کہ پاکستانی قوم اتحاد و یگانیت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ساری مشکلات پر قابو پا لے گی اور کامیابی کی منزلیں طے
کرتے ہوئے آگے بڑھے گی تاکہ ملک و قوم کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہ
ملے کہ
کوئی کارواں سے ٹوٹا ،کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کاروں میں نہیں خوئے دل نوازی
|