فی میل کے ساتھ معاشرتی رویہ

یہ آرٹیکل فی میل کے ساتھ پیش آنیوالے رویوں کے جائزہ سے متعلق ھے

غیرمساویانہ رویہ

معاشر کا وجود عورت اور مرد سے مرکب ھے جو اس معاشرہ کو شکل دیتے ھیں اگر مرکب میں ایک عنصرکو الگ رکھ دیا جائے تو بننے والی شکل ادھوری ھوگی بلکل اسی طرح جس معاشرہ میں مرد یا عورت کا کردار کم کردیا جائے تو ایسا معاشر اس گلوبل ویلج میں ادھوری نشوونما لے کر آگے بڑھ رھا ھوتا ھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ھوگا کہ غیرفعال افردی قوت تیار ھوگی
 
اگر اپنے اس معاشرہ میں نگاہ ڈالی جائے تو یہاں خواتین کے ساتھ رویہ ایساھے کہ عورت گھر کی چاردیواری میں اچھی لگتی ھےیہ ظاھر ھے کہ یہاں ان کو وہ مواقع اورسرگرمیاں میسر نہیں جو لڑکوں یا مردوں کے لے ھیں اوریہ
بھی حقیقت ھے کہ ھم بیٹوں کو تو انکی سوشل زندگی میں بڑھاوا دیتے ھیں لیکن لڑکیوں کو نہیں بہت کم ایسے ھیں جن میں یہ حوصلہ ھے کہ وہ بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کو بڑھا وا دیتے ھیں
 
غصہ، نفرت، انتقام، مارنا چھپٹنا ایسی حیوانی جبلتیں ھیں جو انسان بننے پر پیچھا چھوڑتی ھیں لیکن یہ حقیقت ھے کہ میل غالب معاشرہ اپنی اس حیوانی جبلت کو کسی نہ کسی طرح پورا کررھا ھے جسے وہ عام طور پر فی میل کے ساتھ روا رکھے اپنی اس غیر شعوری عادتوں کو رام کرنے کا سامان بنائے ھوئے ھے اور ان کا سستا ٹول ان کو نفسیاتی طور پر حراساں کرنا ھے جو معمول کا کا م ھے باقی جنسی طور پر حراساں کرنا تو ایک سنگین حقیقت ھے

کوئی بھی درپیش مسئلہ اپنے اندر اختلافات یا تنازعات کی بنیاد پر پیش آتا ھے جسکی وجوہات تاریخی، مذھبی، سماجی ھو سکتی ھیں اب اگر فی میل کے ساتھ اس برتنے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی اس کی تاریخی، مذھبی، سماجی وجوہا ت کار فرما نظر آتی ھیں۔

یہ ایک حقیقت رھی ھے کہ فی میل کو جنسی، نفسیاتی دھچکا اس وقت لگا ھے جب اسے لڑکی کی پیدائش کا کہا گیا ھے یہ ایک حقیقت ھے لڑکی کا ھونا شرمساری سمجھا جاتا ھے حتی کہ اکثر تو لڑکی کو گھرمیں بوجھ سمجھتے ھیں جو اسکے جوان ھونے کے منتظر رھتے ھیں تاکہ اس بوجھ کو رخصت کر کے اتار ا جائے۔

تاریخ سے بڑا سچ اور کیا ھوگا جو ھمیں اس وقت کی منظر کشی دیتاھے جس سے ھم جڑے ھوتےھیں بچہ بڑا ھو کے جوان ھوتا ھے اور پھر بوڑھا۔ کل بچے کی حقیقت اور تھی اور اب بڑھا پے میں اس کی حقیقت اور ھے پر سچ تبدیل نہیں ھوتا جو کل تھا وھی آج ھے اور آنیوالے کل میں بھی وہ سچ ھی ھوگا اور یہ ایک سچ اور حقیقت ھے کہ اس معاشرے میں عورت کا کردار مرد کی نسبت کافی محدود رکھا گیا ھے اسے صنف نازک کہا گیا ھے اسے گھر کی زینت کہا گیا ھے حالانکہ یہ ھماری آبادی کا نصف حصہ ھیں اور جہاں تک لڑکیوں کی تعلیم کا تعلق ھے تو دیہاتوں میں ان کو گھر میں بٹھا دیا جاتا ھے یا اپھر انہیں پرائمری کی تعلیم تک محدود رکھاجاتا ھے

 

Ghulam Shabir
About the Author: Ghulam Shabir Read More Articles by Ghulam Shabir: 10 Articles with 17033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.