آزادی، ایک انمول تحفہ، ایک داستان خون رنگ

انسان اپنی فطرت سے ایک آزاد مخلوق ہے۔ اور اﷲ نے اس کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اور اس کی منشا یہی ہے۔ کہ وہ آزاد رہے۔ دیگر مخلوقات میں اسے اعزاز بخشا ہے اور سب سے مکرم ومعزز قرار دیا ہے۔ اس لیے اﷲ رب العزت نے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی صورت میں عنایت فرماء۔ جس کا آغاز برصغیر پاک وہند میں ہندوؤں کے متعصبانہ رویے سے شروع ہوا اور مسلمانوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی۔ اﷲ نے ان کی جدوجہد کو کامیاب بنا دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور کی اور پھر برصغیر کے مسلمانوں کا الگ ملک کا قیام ایک جنون بن گیا۔ جس کی تکمیل دس لاکھ سے زائد شہیدوں کے لہو سے 14 اگست 1947ء کو ہوء۔ جس میں ھجرت کے وقت نہ ہی بچوں کو معافی ملی اور نہ ہی بوڑھوں کو معافی ملی۔ بلکہ جو بھی ان ظالموں کے ہاتھ لگ جاتا اس کو نشانہ عبرت بنا دیتے۔

کیا تم بول گئے ہوں؟ ہمارے بڑوں نے اس قیام پاکستان کے لیے کیا کیا قربانیاں دی۔ ہندوستان سے مہاجر بن کر آئے ہوئے پاکستانی جس میں دس لاکھ شہیدوں کا خون شامل ہے۔

(داستان ھجرت۔صفحہ نمبر 40 پر لکھا ہے)
بلکہ انگریز مورخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ؛ 1862 سے 1867ء تک کے تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال تھے۔ ان تین سالوں میں چودہ ہزار علمائے دین کو انگریزوں نے تختہ دار پر لٹکایا۔ ڈاکٹر ٹامس لکھتے ہیں کہ دہلی کی چاندنی چوک سے پشاور تک کوء درخت ایسا نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں لٹکی ہوء نظر نہ آتی تھیں۔ علماء کو خنزیر کی کھالوں میں بند کر کے جلتے ہوئے تنور میں ڈالا جاتا۔ لاہور کی شاہی مسجد کے صحن میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا۔ اور انگریزوں نے ایک ایک دن میں 80۔80 علماء کو پھانسی پر لٹکایا؛
یہی انگریز ڈاکٹر ٹامس لکھتا ہے کہ۔ میں دہلی کے ایک خیمے میں ٹہرا تھا کہ مجھے مردار کے جلنے کی بدبو محسوس ہوئی میں نے خیمے کے پہچے جا کر دیکھا کہ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں۔ اور ان انگاروں پر چالیس مسلمان علماء کو کپڑے اتار کر ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈالا گیا اور میرے سامنے ہی ان کے کپڑے اتار لیے گئے۔ ایک انگریز افسر نے ان کی طرف دیکھ کر کہا: اے مولویو! جس طرح ان کو آگ میں جلا دیا گیا۔ تم کو بھی اس طرح آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ اگر تم میں سے کوء ایک آدمی بھی کہہ دے کہ ہم 1857ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے۔ تم کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ٹامس کہتا ہے کہ: مجھے پیدا کرنے والے کی قسم! میں نے دیکھا کہ چالیس علماء آگ پر پک گئے اور پھر ان چالیس علماء کو بھی آگ میں جھونک دیا گیا۔ لیکن کسی ایک مسلمان عالم نے بھی انگریزوں کے سامنے گردن نہ جھکاء اور نہ ہی معافی کی درخواست کی۔

شاعر لکھتا ہے۔
سر کٹا دیں گے ہم تیرے نام پر
تیرے اعزاز پر،تیرے پیغام پر
تیرے اقبال پر، تیرے انعام پر
جاں لٹا دیں گے دین اسلام پر

ان لوگوں نے قیام پاکستان کے لیے اپنی جان کو قربان کر دیا۔ پر کس کے سامنے گردن نہی جھکاء۔ ہمیں یہ ملک اتنی آسانی سے عطا نہی ہوا۔ لاکھوں شہداء نے اپنے مقدس لہو اس ارض پاک کے وجود کی خاطر نذر کیا۔ بے شمار خواتین اسلام نے اپنی عصمتوں کے آبگینے پاکستان کی عظمت پر نثار کر دئیے۔
یہ وہ لوگ تھیں۔
جن کی امیدیں قلیل تھی۔
جن کے مقاصد جلیل تھیں۔
جن کی نگاہ دل فریب تھیں۔
اور جن کی عدا دل نواز تھی۔

آئیے میں آپ کو ایک رولا دینے والا واقعہ سناتا ہوں۔

ہیلو پاپا کہاں ہیں آپ؟؟؟
گڑیا: میں آفس میں ہوں کیوں کیا ہوا؟؟؟؟
گڑیا: پاپا آپ جلدی گھر آجائیں مجھے اپنے فرینڈ عامر کے ساتھ 14 اگست کی شاپنگ کرنے جانا ہے گھر کوئی بھی نہیں ہے آپی تو کالج سے ہی اپنے فرینڈ کے ساتھ شاپنگ کرنے چلی گئی ہے مجھے وائٹ شرٹ اور ٹراؤزر لینا ہے تاکہ کل جب میں گال پر دل دل پاکستان لکھواؤں تو جو دیکھے وہ دیکھتا رہ جائے
پچھلے سال کی طرح اس بار بھی ہم خوب انجوائے کریں گے عامر نے تو 14 اگست کے لیے نئی بائیک بھی لے رکھی ہے
پاپا: اوکے بیٹا میں آتا ہوں

سامنے ہاتھ میں گن پکڑے ایک ریٹائرڈ فوجی جو بڑھاپے کی کئی مسافتیں طے کرچکا ہے اسکی نم آنکھوں نے ماڈرن بابو کو حیران ہوکر سوال پوچھنے پر مجبور کردیا کہ بابا جی خیر تو ہے کیا ہوا آپکی آنکھیں نم کیوں ہیں؟؟؟؟
بابا: صاحب کچھ نہیں مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے جب میں نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ باجی مجھے بھی جھنڈا چاہیے مجھے بھی جھنڈا لہرانا اور آواز لگانی ہے لے کہ رہینگے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان

صاحب میری بہن چپکے سے اندر گئی اور اپنی سبز قمیض کا دامن پھاڑ کر مجھے کہتی ہے جاؤ بھائی لکڑی کا ڈنڈا لے آؤ پھر میری بہن نے پہلی مرتبہ میرے ہاتھ میں جھنڈا دیا اور میں بہت خوش تھا آج معلوم ہوا کہ وہ خوشی کس بات کی تھی
وہ خوشی اس بات کی تھی کہ میں نے پاک سرزمین کو اپنی بہن کے دامن سے پہچان دی تھی

صاحب آپکو معلوم ہے پھر کیا ہوا؟؟؟؟؟؟؟
ہمارے محلے پر ہندؤں نے حملہ کردیا اور میری بہن کی عزت لوٹ لی اور اسے ساتھ لے گئے دو دن بعد ہمیں اپنی بہن کھیتوں سے ملی تو وہ زہنی توازن کھو بیٹھی تھی اور اسکی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا بن کے رہے گا پاکستان ہم لے کے رہیں گے پاکستان
صاحب میں چھوٹا تھا میں ساری رات اپنی بہن سے لپٹ کر روتا رہا اور رات کو کسی پہر ہمارے ماموں لوگ آئے اور میری بہن کو کہیں لے گئے میں اور میرے چاچو صبح ہونے سے پہلے ہی اپنا گھر چھوڑ چکے تھے میرے ہاتھ میں صرف ایک جھنڈا تھا جسے میرے چاچو نے جب صبح دیکھا تو اسے سینے سے لگا کر بہت رویا اور کہتا رہا کہ تمھاری خاطر ہم نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لٹوادی ہیں نہ جانے تم ہم سے اور کتنی دردناک قربانیاں لوگے میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ چاچو بار بار اس جھنڈے کو یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ تم اور کتنی قربانیاں لو گے

صاحب میں چاچو سے پوچھتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں تو چاچو کہتے معلوم نہیں بیٹا تم بس چلتے رہو اس وقت تک جب تک موت نہیں آجاتی یا پھر ہم اپنے ملک نہیں پہنچ جاتے

صاحب آج سمجھ آئی کہ میرے چاچو کس ملک کو اپنا ملک کہتے کہتے سفر میں مصروف رہے

راستے میں بہت لوگ مرے ہوئے تھے ایک مکان میں ہم چھپے ہوئے تھے کہ ایک دودھ پیتا بچہ رونے لگا تو اسکی ماں نے اسکا گلہ گھونٹ دیا تاکہ وہ ہمیں پکڑوا نہ دے
صاحب ہر طرف لاشیں بچھی تھی اور گدھ اور جانور انھیں کھانے میں مصروف تھے ہم کچھ لوگ رات کو وہیں رک گئے تاکہ اس جگہ رات گزار سکیں اور صاحب معلوم ہے آپکو ساری رات میرے چاچو کیا کرتے رہے؟؟؟؟؟
ساری رات میرے عورتوں کی لاشوں پر مردوں کے بدن سے کپڑے پھاڑ کر ڈالتے رہے اور روتے رہے اور جاگتے رہے کہ جانور مسلمان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرسکیں اور اسی دوران نہ جانے کب انکی آنکھ لگ گئی وہ تھوڑی دیر ہی سوئے کہ پھر رات کو اٹھ کر سفر شروع کردیا
جب میرے چاچو اس پاکستان میں پہنچے تو میری بہن کے دامن اور پاکستان کے سادے جھنڈے کو ہر وقت چومتے رہتے تھے یہاں تک کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے
معلوم ہے صاحب کہ ہمارے چاچو کیا کہا کرتے تھے؟؟؟؟
جب بھی کوئی شخص بھارت کی بات کرتا تو آپ رونے لگ جاتے اور کہتے کہ خدا کے لیے اس ملک کا نام مت لو جس نے پاکستان کی قیمت ہم سے ہماری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹ کر وصول کی

صاحب دیکھو نا جن عزتوں کو بچانے کے لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں انھیں ہماری آج کی بیٹیاں سرعام نیلام کرتی پھر رہی ہیں
انھیں کون بتائے کہ اس پاکستان کو حاصل کرنے کا مقصد اپنی عزتیں لٹا کر اپنی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ کرنا تھا
کاش میں انھیں اپنی بہن کا پھٹا دامن دکھا پاتا۔

حضرات محترم۔
اور دسری طرف ہم ہیں کہ جن کو یہ ملک ایک پلیٹ میں ملا اس لیے اس کی ہمیں قدر نہی۔ جاؤ جاکر کشمیر کے مسلمانوں سے پوچھو۔ برما کے مظلوم انسانوں سے پوچھو۔ فلسطین کے عوام سے پوچھو۔ آزادی کی قدر ان سے پوچھو۔ ہماری 14 اگست تو ناچ گانے میں گزرتی ہے۔ بلکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے اپنی گاڑی پر پرچم پاکستان کا لگایا ہوتا ہے اور گاڑی کے اندر انڈیا کے گانے لگائے ہوتے ہیں۔
تم تو 14 اگست ناچ کے مناتے ہو۔ تم 14 اگست گا کے مناتے ہو۔ تم 14 اگست ون ویلینگ کر کے مناتے ہو۔ کیا Celebration ہو رہی ہے۔ کہ جس رب نے تمہیں اتنا بڑا تحفہ دیا۔ تم اس رب کی بغاوت کر رہے ہو۔ اﷲ کو کیا جواب دو گئے؟ لعنت ہے ایسی آزادی پر کہ جس میں رب ناراض ہو جائے۔

خضرات! پاکستان محض ایک ملک کا نام نہیں بلکہ ایک عظیم نظریہ کی سر بلندی کا پیغام ہے۔ یہ فقط ایک خطۂ زمین نہیں بلکہ یہاں کا ذرہ ذرہ اسلامی غیرت کا امین ہے۔ یہ صرف ایک ریاست نہیں بلکہ خدائے قدوس کی عظیم امانت ہے۔

یہ مقدس سر زمین اﷲ کا احسان ہے
اس کی حرمت پر ہماری جان بھی قربان ہے
ملک وملت کے تحفظ کو یہی اعلان ہے
سب سے اعلی سب سے پہلے اپنا پاکستان ہے
 

Zohaib Asif
About the Author: Zohaib Asif Read More Articles by Zohaib Asif: 5 Articles with 5257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.