یونانی زبان مین صوفیہ کے معنی دانائی ہیں۔ جب لفظ ہاگیا
صوفیا کا ترجمہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب بنتا ہے کہ مقدس خدا کا مقبرہ۔ھاگیا
صوفیا لوگوس کے نام منسوب ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ ثلاثہ میں دوسرا نمبر
ہے۔ اس کے علاوہ دو اور چرچ بھی اسی جگہ اس سے پہلے ہولی وزڈم کے نام سے
تعمیر ہو چکے تھے جو تباہ ہو گئے یا کر دیے گئے۔
ہاگیا صوفیہ، ترکی میں ایاصوفیا، لاطینی سانکٹا صوفیا، جسے چرچ آف دی وزڈم
یا چرچ آف ڈیوائین وزڈم بھی کہا جاتا ہے، چھٹی صدی عیسوی میں قسطنطنیہ
(استنبول، ترکی) میں تعمیر کیا گیا گرجا جو بازنطینی شہنشاہ جسٹینین 1 کی
ہدایات پر سن 537 میں تعمیر کیا گیا۔ اس عمارت کے معمار اور نقشہ نویس این
تھی می ایس اور ازی ڈورس آف میلیٹس ہیں۔ یہ دونوں ماہر تعمیرات کے ساتھ
ساتھ سائنسدان اور ماہرین ریاضی بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہاجیہ صوفیہ کے
مقام پر واقع اصل چرچ کو 325 میں ایک کافروں کے مندر کے طور پر
کانسٹینٹائین اول نے تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بیٹے، کانسٹینٹیس دوم نے اسے آگ لگا دی۔ یہ پھر 404 میں آگ لگنے سے
خراب ہو گیا۔ اسے کانسٹانس اول کے زمانے میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ چرچ
نیکا انسرکشن جنوری 532 میں دوبارہ جلا دیا گیا۔ اس کے بعد ہی جسٹینیئن اول
کو اس کی ازسر نو تعمیر کا خیال آیا۔ اسے 1204 میں اورصلیبی حملہ آوروں نے
چوتھی صلیبی جنگ کے وقت لوٹ لیا۔
ہیگیا صوفیا کی چالیس کھڑکیاں ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ پر اسرار روشنی منعکس
کرتی ہیں۔ پتھر کے وہ گولے جو سلطان محمد فاتح نے ترکی کو فتح کرنے کے لئے
استعمال کیے تھے انہیں اس کے قریب ہی نمائش کے لئے رکھا گیا ہے۔ ترکی کی
نیلی مسجد اور مسجد سلطان احمد اس چرچ کے فن تعمیر سے بہت مشابہت رکھتی
ہیں۔
جولائی 2020 کے جمعہ کے مقدس دن کو اس مسجد کے تالے کھول دیے گئے اور اسے
بند میوزیئم سے دوبارہ مسجد بنا دیا گیا۔ مغرب کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں
اور وہ ترک عوام کو جو کہ اب جانتی ہے کہ مغرب اس کا ستحصال کرتا ہے اتاترک
کے اصولوں کی خلاف ورزی کہہ کر بھڑکانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اسی لئے مغربی پریس اور میڈیا اس بات کو اچھال رہا ہے کہ ہاگیا صوفیہ کے
خطبہ کے دوران جدید جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے خلاف عمل کیا گیا
اور اس کے تالے لگانے کے فعل کو ختم کرنے کے عمل کو ایک جارحانہ عمل قرار
دیا جا رہا ہے۔ ۔ دینیائٹ کے نام سے جانے جانے والے اعلی مذہبی ادارہ کے
سربراہ علی ارباس نے جمعہ کے روز اس تقریب میں صدر رجب طیب اردگان اور
ہزاروں دیگر افراد نے شرکت کی۔ صدر رجب طیب نے خود اس کی صدارت کی۔
مغرب کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ارباس کی مذمت کرتے ہوئے کہا
کہ ان کے تبصروں نے اتاترک کو واضح طور پر نشانہ بنایا ہے حالانکہ چند مغرب
پسند لا دین عناصر کے علاوہ سب نے جناب طیب اردگان کے اس نیک عمل کو سراہا
ہے۔
مغرب کانٹوں پر لوٹ رہا ہے کہ اس اللہ کے بندے نے یہ کیسا قدم اٹھا دیا ہے۔
شاید یہیں سے مسلمانوں کے احیا کی تحریک جنم لے رہی ہے۔ طیب اردگان کے بہت
سے اقدامات اسے مسلمانوں کا عالمی رہنما ثابت کر رہے ہیں۔ اس نے غیر مسلموں
کے ہر اسلام دشمن اورمسلم دشمن بات کا جواب دلیری سے اور جوانمردی سے دیا
ہے۔ مغربی میڈیا مسجد ایا صوفیا کے معاملے کو ایک پروپیگنڈا کے طور پر
استعمال کر ہا ہے۔ جدید ترکی کے بانی مصطفے کمال کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا
ہے کہ طیب نے اس کے بنیادی اصول توڑے ہیں۔
اس اتاترک کے جو کہ اسلامی حوالے سے ایک متنازعہ شخص تھا جس نے بہت سارے
ایسے قوانین بنائے جو یکسر اسلامی اقدار کے منافی تھے۔ عورتوں پر پردہ نہ
کرنے کی پابندی یہاں تک کہ سر بھی نہیں ڈھانپ سکتی تھیں۔ مردوں کا لباس
مغربی۔ عربی رسم الخط کا خاتمہ اور عورتوں کو مردوں سے میل ملاپ کی کھلی
آزادی۔ اور اسی ایا صوفیا مسجد کو تالا لگوا دیا تاکہ عیسائی خوش ہو جائیں۔
اب اگر طیب ایسے اقدامات کا مداوا کرتا ہے تو مغرب کو مرچیں لگتی ہیں اوروہ
اس مرد قلندر کی مخالفت کرنے کے لئے ترکی کے بنیادی آئین کا حوالہ دیتے
ہیں۔ حالانکہ اس نے عدالت سے اجازت لے کر سب کچھ کیا ہے۔
کیا مغرب والے بتا سکتے ہیں کہ انسانی ہڈیوں سے بنا ہوا گرجا گھر کیسے بنا؟
سپین میں ساری کی ساری مساجد کا کیا ہوا؟ اٹلی میں مسجدوں سے کیا سلوک کیا
گیا، ہماری وہ مساجد تو اس گرجا گھر کی مسجد میں تبدیلی سے صدیوں پہلے
تعمیر ہو چکی تھیں۔ انہیں گرجا گھروں اور اصطبلوں میں کیوں تبدیل کر دیا؟
جب ان سے یہ پوچھتے ہیں تو اس وقت ان کے اخلاقی اور قانونی اور دینی جذبات
کہیں دفن ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو بغداد کی تباہی کا جشن مناتے ہیں
ہلاکو خان کے ہاتھوں سے ہوئی ہو یا اور ماضی قریب کے ہلاکو امریکی صدر بش
کے زیر صدارت اٹھارہ ملکوں نے جو اسے تباہ کیا اس کا بھی۔ سپین میں مسلم
حکومت کے خاتمے کا دن مناتے ہیں۔
یہ صرف اپنے مفادات پٌر ضرب پڑنے پر اصول اور حقوق کا ذکر شروع کر دیتے ہیں
جب خود یہ دوسروں پر ظلم کرتے ہیں تو اسے ترقی اور آزادی کانام دے لیتے
ہیں۔ انگریز نے ساری دنیا کو مہذب بنانے کے نام پر ساری دنیا کے وسائل ہڑپ
کیے ہر جگہ قبضہ کیا اور وہاں کے وسائل برطانیہ منتقل کرتا رہا۔ اس کو گورے
کی پریشانی سمجھ کر دوسروں کا استحصال کرتا رہا۔ آج برطانیہ کے پاس کون سی
سونے کی کانیں ہیں جو اب بھی اس کی کرنسی کی اتنی قیمت ہے۔ ہمارے ایک صوبے
جتنے رقبے پر مشتمل ملک اب بھی دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہر
سازش کا تان بانا اب بھی وہاں پر ہی جا ملتا ہے۔
فرانس مسلمان بچیوں کو پردہ نہیں کرنے دیتا۔ اس وقت ان کا دین کہاں ہوتا
ہے؟ پورا یورپ مسلمانوں کو انسان اور انسانیت کا دشمن ثابت کرتا رہا ہے۔
اسلامی مقامات اور اقدار کی توہین ان کا وتیرہ رہا ہے۔ ہمیں ہماری ہی تلوار
سے کاٹنے کا فن وہ عرصہ دراز سے استعمال کر رہے ہیں اور پتہ نہیں کب تک
کرتے رہے گے۔ مغرب ترکی کے اس اچھے قدم کو جس میں ان کی آزاد سوچ اور اپنی
مرضی کی پالیسی سے اپنا ملک چلانا نظر آتا ہے بہت نالاں ہے۔ آخر میں ہمیں
اس عہد کی پاسداری کا وعدہ کرنا ہو گا جس کی بنیاد پر سلطان محمد فاتح نے
اس عمارت کو مسلمانوں کو عبادت کے لئے دیا تھا کہ آخرت تک اس میں نماز ہی
ادا ہو۔
|