دنیا میں عصر و زمان و اور علاقوں میں وبائی امراض جنم
لیتے رہے۔ لوگ اس وبا سے بچنے کی تدابیر بھی اختیار کرتے رہے اور ہلاک بھی
ہوتے رہے۔ مگر آخرکار معاشرے وبا کو کمزور ثابت کرکے اسے ختم کرنے میں
کامیاب ہوتے رہے۔ اسپینش فلو میں بھی لوگ بہت تیزی کے ساتھ اس مباحثے ہلاک
ہوتے نظر آرہے تھے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ والا اس دنیا میں انسانیت کے
نام کو مٹانے کے لیے آئی ہے۔ مگر بیسویں صدی کے ماہر لوگوں کی ہدایت کے
مطابق لوگوں نے احتیاط کی تو پھر کہیں جا کر لوگوں نے اسے مادی اور جن
لوگوں نے احتیاط نہیں کی ان لوگوں کو اس نے وبا نے ماد دے دی۔
گزشتہ 6ماہ سے ہمارے معاشرے میں بھی کورونا بھی وفا دندناتی پھر رہی ہے آج
ہم بے حد ترقی یافتہ ہونے کے باوجود اس وائرس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا
رہے۔ سائنس کی اس بے حد ترقی اور ہمارے رابطوں کو انتہائی تیز اور آسان ہو
جانے کی اور دنیا کے ایک گلوبل آئزیشن میں تبدیل ہو جانے کی وجہ سے یہ
وائرس اب صرف چند علاقوں میں ہی نہیں، کچھ سرحدوں تک ہی نہیں، بلکہ پوری
دنیا میں اپنا دھونس جما چکا ہے۔ پوری دنیا جو بے حد ترقی یافتہ اور وسیع و
عریض ہونے کے باوجود اس وبائی مرض کا شکار ہے اور آپنی آسمان کو چھوتی ہوئی
معیشت کو زمین دوست ہوتا دیکھ رہی ہے۔
اس وقت دنیا 2کیٹیگری کے ممالک میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک طرف وہ معاشرے اور
وہ ممالک ہیں نہوں نے وبا کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہ احتیاطی تدابیر
اختیار کیا جو ماہر امراض و صحت نے اس کو وبا کو ماد دینے کے لیے ہمارے
سامنے پیش کی تھیں۔ تو پھر وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اپنے ممالک کو اس
بات سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی پرانی زندگی
کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
ہیں۔ مگر دوسری طرف وہ مالک اور معاشرے ہیں جنہوں نے ان ماہر صحت کی بتائی
ہوئی احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کر کے اپنی غیر مہذب ہونے کا ثبوت دیا
اور خود اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو جانی، مالی، ذہنی اور وقت نقصان
پہنچانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔
اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں جو بری طرح سے اس وبا میں جکڑا ہوا ہے
تو وہ دوسرے نمبر کے ملکوں کی فہرست میں آگے نظر آرہا ہے۔ پاکستان ان ممالک
میں بھی شامل ہے جو دنیا کی نظر میں اسلامی معاشروں کی فہرست میں صف اول
میں نظر آتے ہیں مگر کیا اسلامی معاشرے ایسے ہوتے ہیں کہ جو بالکل غیر مہذب
ہونے کا ثبوت دیں اپنے حکام اور وزرا کی باتوں کو سمجھنے کے باوجود ان پر
عمل نہ کریں دوسروں کی مشکلات سے فائدہ اٹھائیں یا پھر ان راستوں کو اختیار
کریں جو دنیا کی نظر میں بہت خراب اور ناقابل تصور ہوں۔
نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ دین اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہم اسلامی
تعلیمات پر غور کریں تو ہم اس بات سے بخوبی آگاہ ہو جائیں گے کہ دین اسلام
تو آیا ہی بد تہذیبی، نافرمانی، بدکاری، لوٹ مار اور فساد جیسے برے معاشروں
کو ختم کرنے تھا۔ اسلام میں تو ہمیں صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک،
سونے کے بعد دوبارہ اٹھنے تک، ماں کی گود سے قبر کی گور تک، بیت اﷲ سے بیت
الخلا تک ہر ہر پہلو میں پیش آنے والے معاملات کے طور طریقے اور آداب
سکھائے ہیں۔ مگر ہم لوگ جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کیا ان
اسلامی طور طریقوں پر عمل کرتے ہیں؟ اگر ہم ان طریقوں پر عمل کر رہے ہوتے
تو آج نہ تو ہم غیر مہذب ہوتے، نہ ہی غیر ترقی یافتہ اور نہ ہی وبائی امراض
گھرے ہوئے۔
میری نظر سے وبائی امراض سے متعلق ایک حدیث گزری تھی جس کو میں آپ کے سامنے
بیان کرتا ہوں۔ حضرت سعد رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں
سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں
ہو تو اس سے نہ نکلو‘‘ (بخاری، مسلم) اس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہمیں
احتیاط کرنی چاہیے اور اپنے گھروں اور علاقوں میں رہنا چاہیے جو ہمیں حکومت
بھی کہہ رہی ہے۔ اسلام میں صفائی کا خاص خیال رکھنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ (ترمذی)۔
اسلام میں ہمیں باوضو ہو کر عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں غسل
کرنے (نہانے)کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
اگر ہم آج اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزاریں تو ہم روزانہ کورونا
مریضوں کی تعداد میں ریکارڈ نہ توڑیں اور نہ ہی ہر جگہ ہجوم کی صورت میں
گھومتے نظر آئیں اور نہ ہی لوگوں کو ماسک مہنگا کر کے فروخت کریں۔ ہم نے تو
اسلامی تعلیمات کا پاس بھی نہیں رکھا۔ ہمیں چاہیے تھا کہ تھوڑا تو ان
تعلیمات پر عمل کر لیتے۔
خدارا اس وقت کو سمجھیں آج آپ لوگوں کی ضروریات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ایسا نہ ہو کہ جب کبھی آپ تکلیف میں ہو تو لوگ آپ کی ضروریات سے فائدہ
اٹھائیں یا ہو سکتا ہے آپ کو منہ بھی نہ لگائیں۔ اگر آپ ایسا کرتے رہیں گے
تو آپ اپنی آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیاوی زندگی بھی خراب کر لیں گے ہمیں
چاہیے کہ ہم اﷲ سے رجوع کرکے اس مشکل حالات میں اس سے پناہ مانگی اور اپنے
گناہوں کی معافی مانگیں کیونکہ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ معاف کرنے والا
ہے۔ |