یہ کبھی کسی نے نہیں کہاکہ بھینس نے گائے کابچہ کیوں نہیں
دیا۔۔؟یہ بھی کسی نے نہیں کہاکہ گائے نے انڈہ اورمرغی نے دودھ کیوں نہیں
دیا۔۔؟اوریہ بھی ہم نے آج تک کسی سے نہیں سناکہ سکولز۔۔ کالجز اور
یونیورسٹیزنے
ڈاکٹرز۔۔انجینئرز۔۔بینکار۔۔بیوروکریٹ۔۔پولیس۔۔نرسز۔۔سیاستدان۔۔صنعتکار۔۔صحافی۔۔کالم
نگار۔۔حکیم۔۔کھلاڑی۔۔پہلوان۔۔فنکاراورگلوکارتوپیداکئے مگرہمیں حافظ
قرآن۔۔شیخ الحدیث۔۔مفسر۔۔،مبلغ۔۔خطیب ۔۔قاری۔۔عالم اورمفتی کیوں نہیں دیئے۔
لیکن اس کے برعکس بات جب ایک مسجد،مدرسے اورایک مولوی کی آتی ہے تووہاں
پھرسارامعاملہ الٹ اورہماری کالی آنکھیں بھی سرخ ہوجاتی ہیں ۔ہمارے جیسے
دنیاداروں سے توکسی کوکوئی گلہ نہیں لیکن ایک مسجد،مدرسے اورمولوی سے یہ
گلہ سب کوہے کہ ان مساجد،مدارس اورمولویوں نے حافظ قرآن،قاری ،عالم
اورمفتیوں کے ساتھ ہمیں ڈاکٹرز، انجینئرز،
بینکار،بیوروکریٹ،پولیس،نرسز،سیاستدان،صنعتکار،صحافی،کالم
نگار،حکیم،کھلاڑی،پہلوان ،فنکاراورگلوکارکیوں نہیں دیئے۔؟آنکھیں کھلتے ہی
ہماراپہلاسامنابھی اس مولوی سے ہوتاہے اوراس دنیاسے ہمیشہ کیلئے جاتے ہوئے
بھی ہماری آخری نظریں اسی مولوی پرپڑتی ہیں۔شادی بیاہ سے ہٹ کربھی
دنیاکاکوئی کام ہویاآخرت کے لئے کوئی انتظام۔وہ اس مولوی کے بغیرکل بھی
ادھوراتھااورآج بھی ادھوراہے اوربطورمسلمان تاقیامت ادھوراہی رہے گا۔مولوی
کان میں اذان دے گااورکلمہ یادکروائے گاتومسلمانی کا سرٹیفکیٹ ملے گا۔مولوی
نکاح پڑھائے گاتوزندگی کانیاسفرشروع ہوگا۔پھریہی مولوی جنازہ پڑھائے
گاتوآخرت کاسفرشروع اوراگلی منزلیں آسان ہونگی۔نہیں تونہ نکاح کے بغیرہماری
شادیاں ہوسکتی ہیں اورنہ ہی جنازے کے بغیرتدفین۔نکاح اورجنازہ تودوراس
مولوی کے بغیرتوہم پانچ وقتہ نمازکے ذریعے اﷲ سے ملاقات بھی نہیں
کرسکتے۔یہی مولوی امامت کیلئے آگے بڑھے گاتواﷲ سے ہماری ملاقات کی سبیل بنے
گی۔۔سب سے بڑھ کراس مولوی کی برکت سے ہمارے بچے آج اس ملک میں مسلمان بنے
پھرتے ہیں۔۔ماناکہ اس مولوی نے ہمیں
ڈاکٹرز،انجینئرز،بینکار،بیوروکریٹ،پولیس،نرسز،سیاستدان،صنعتکار،صحافی،کالم
نگار،حکیم،کھلاڑی،پہلوان ،فنکاراورگلوکارتونہیں دیئے لیکن اﷲ کامبارک دین
تودیا۔ مسلمان اوردین اسلام پرکاربندبچے تودیئے۔یہ مولوی نہ ہوتاتوکیا۔؟ہم
اس طرح حاجی،نمازی اوردینداربنے پھرتے اورہمارے یہ بچے اس طرح مسلمان
کہلانے کے لائق اورقابل ہوتے۔۔۔؟کیاکوئی سیاستدان، ڈاکٹر، انجینئر، کھلاڑی،
فنکار،گلوکار،بینکار،بیوروکریٹ،پولیس،نرسز،صحافی،کالم نگار،حکیم یاکوئی
پہلوان ہمارے کسی ایک بچے کوبھی اسلام کے سانچے میں ڈال سکتاہے۔گستاخی معاف
ہمارے حکمرانوں سمیت اکثر سیاستدانوں،ڈاکٹرز،انجینئرز،گلوکاراورفنکاروں
کوتوخودنہ چھ کلمے یادہوتے ہیں اورنہ ہی یہ قرآن مجیدفرقان حمیدکوروانی کے
ساتھ کوئی پڑھ سکتے ہیں ۔جن کوخودسورہ اخلاس اورسورہ کوثرتک زبانی یادنہ
ہوبھلاوہ ہمارے بچوں کوکیادین سکھاسکتے ہیں۔یہ اگردین کے اتنے ماہرہوتے
توکیاہمارے ان سکولز، کالجز،یونیورسٹیزاورسیاسی ایوانوں وبالاخانوں سے
ڈاکٹرز،انجینئرز،سیاستدان اورلیڈروں کے ساتھ حافظ قرآن،قاری ،عالم اورمفتی
نہ نکلتے ۔یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہونے کے باوجودکہ آج تک کسی
سیاستدان،ڈاکٹر،انجینئر،پولیس،بینکار،بیوروکریٹ،فنکاروگلوکارنے ہمیں نہ
کوئی حافظ قرآن دیا۔نہ کوئی قاری دیا۔نہ عالم اورنہ ہی کوئی مفتی۔اس کے
باوجودہم نے آج تک نہ کسی سیاستدان سے ،نہ کسی ڈاکٹرسے،نہ کسی بیوروکریٹ سے
اورنہ ہی کسی فنکاروگلوکارسے یہ گلہ اورشکوہ کیاکہ آپ نے ہمیں کوئی حافظ
قرآن،کوئی قاری ،کوئی عالم اورکوئی مفتی کیوں نہیں دیا۔لیکن ایک بے چارہ
مولوی ہے کہ جن کی سترسال سے ہمارے ان گلوں اورشکوؤں سے جان نہیں چھوٹ رہی
کہ آپ نے ہمیں کوئی ڈاکٹر،کوئی انجینئراورکوئی فنکاروگلوکارکیوں نہیں
دیا۔بحیثیت مسلمان یہ ہماراایمان ہے کہ دین ہی دنیااورآخرت میں ہماری
کامیابی کاضامن ہے۔یہ بھی ہم مانتے ہیں کہ اس دین کے بغیرنہ اس دنیامیں
ہماری کوئی کامیابی ممکن ہے اورنہ ہی آخرت میں اس کے بغیرکوئی چارہ اور
گزاراہے ۔اس حقیقت کوماننے اورسمجھنے کے باوجودہم پھربھی دینی مدارس
اورمساجدسے نکلنے والے طلباء کوپسماندہ،دقیانوس،جاہل اورنہ جانے کیاکیاکہتے
ہیں۔اپنی توہمیں فکرنہیں کہ چھ کلمے ،نمازاورقرآن مجیدکی آخری چھوٹی سورتیں
یادکرلیں لیکن دینی مدارس اورمساجدسے نکلنے والے طلباء کی ہمیں اتنی فکرہے
کہ ان کوکارآمدشہری بنانے کے لئے فیکٹریاں اورکارخانے ہم جیبوں میں لئے
پھرتے ہیں۔جہاں بھی ہمیں دینی مدرسے کاکوئی طالب علم یاکوئی مولوی نظرآئے
توفوراًہمیں ان کو کارآمدبنانے کاخیال ذہن میں ابھرآتاہے ۔مولوی
کوکارآمدبنانے کی ہماری گردان سنتے سنتے دنیاسمجھ رہی ہے کہ شائدہمیں جان
سے کہیں زیادہ اس بے چارے مولوی کی فکرہے مگرحقیقت اس کے باالکل برعکس
ہے۔ہمیں نہ کل مولوی کی کوئی فکرتھی اورنہ ہمیں آج اس مولوی کاکوئی خیال
ہے۔ہم پیار،محبت،عقیدت واحترام کی آڑمیں کل بھی مولوی کی ٹانگیں کاٹتے تھے
اوریہ کام آج بھی ہم بڑی ایمانداری اورخلوص کے ساتھ سرانجام دے رہے
ہیں۔ہماری نظرتومولوی کے سفیدکپڑوں پرہے لیکن مولوی کے چہرے سے غربت،بھوک
اورافلاس کے ٹپکنے والے قطرے نہ کل ہمیں نظرآرہے تھے اورنہ ہی یہ آج ہمیں
دکھائی دے رہے ہیں۔ہمیں اگرمولوی کاذرہ بھی کوئی خیال ہوتاتوپنجاب کے علاقے
پھالیہ میں قاری اسلم کی مکان نماجھونپڑی سے بیک وقت پانچ جنازے کبھی نہ
اٹھتے۔اس معاشرے نے اپنے ایک امام کے بچوں کیلئے مکان کے نام پرجوجھونپڑی
قاری اسلم کے حوالے کی تھی کیاہم اپنے بچوں کے ساتھ ایسی جھونپڑیوں میں
رہناپسندکریں گے۔۔؟موت کاتوایک ٹائم مقررہے۔قاری اسلم کے تین بیٹوں،ایک
بیٹی اوراہلیہ کاتووقت پوراہوچکاتھاانہوں نے توویسے ہی جاناتھالیکن اس
واقعہ نے مولوی سے ہماری محبت اورخلوص کے رشتے کاپول کھول کے رکھ
دیاہے۔جوچیزہمیں اپنی ذات کے لئے پسندنہیں ہوتی وہ ہم مولوی کے لئے
پسندکردیتے ہیں۔پھالیہ میں بارش سے کسی امیر،کبیر،کسی جاگیرداراورسرمایہ
دارکامکان نہیں گرامگرایک مولوی کامکان لمحوں میں زمین بوس ہوگیا۔آخرکوئی
وجہ توتھی کہکوئی اورمکان نہیں گرااورقاری اسلم والامکان گرگیا۔اس مولوی
کامکان بھی اگرہمارے مکانوں کی طرح ان کے اپنے ہاتھوں کابناہوتاتوکیایہ اس
طرح گرتا۔۔؟یہ مولوی ہماری نمازیں بھی پڑھاتے ہیں،نکاح اورجنازے بھی۔ہم ان
کے کندھوں کے ذریعے جنت کے بالاخانوں تک پہنچنے کے خواب بھی دیکھتے
ہیں۔لیکن جب ان مولویوں کے ان کے حقوق دینے کاوقت آتاہے توپھرہاتھ ہمارے
کانپنے لگتے ہیں۔شراب وکباب کی محفلوں اورمجروں میں ناچنے والوں پرنوٹ
نچھاورکرتے ہوئے ہمیں توتکلیف نہیں ہوتی لیکن جب کسی مسجدومدرسے کے باکس
یامولوی کے ہاتھ میں سودوسوروپے دینے کاوقت آتاہے توپھرہم پرغشی کے دورے
آناشروع ہوجاتے ہیں ۔ہم خودواٹرپروف مکانوں اوربلٹ پروف گاڑیوں میں زندگیاں
گزارتے ہیں لیکن جومولوی ہماری امامت کرتاہے،جوہمارارہبرورہنماء ہے اس
مولوی کے لئے ہمارے پاس مویشیوں کے مکان نما باڑوں،ماہانہ
چندہزارتنخواہ،زکوٰۃ اورصدقات سے زیادہ کچھ نہیں۔مولوی نے توسترسال میں
دین،ایمان،غیرت ،حمیت،اتحادواتفاق اورامن سمیت ہمیں بہت کچھ دیالیکن آپ ایک
منٹ کے لئے سوچیں ۔آپ نے ان سترسالوں میں مولوی کوگالیوں،بغض ،حسداورنفرت
کے سواکیادیا۔۔؟کیایہ مولوی جوسچ مچ میں تمہاراامام ،رہبرورہنماء ہے۔اس
کااتنابھی حق نہیں کہ یہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آپ کی طرح کسی محفوظ مکان
میں آرام وسکون سے زندگی گزارسکیں۔
|