راستہ اور آراستہ

کسی شہنشاہ سے تخت وتاج یاسیاستدان سے اس کا اقتدارچھیننا ،چہروں کی تبدیلی یامفادات کیلئے کشت وخون کو انقلاب کہنا ہرگزدرست نہیں ۔انقلاب انسان کی سوچ اورانسان کے بنائے نظام کی تبدیلی کانام ہے،لہٰذادین فطرت اسلام اورسراپارحمت حضرت محمد رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے سواکوئی ا س انقلاب کے معنی اورمعیار پرپورانہیں اترتا ۔اسلام کے ظہور اورسرورکونین حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے نورسے اندھیرا روشنی میں بدل گیا،جہالت کے سیاہ بادل چھٹ گئے ،مغلوب طبقہ غالب آگیا جبکہ آقااورغلام کافرق باقی نہ رہا ۔اسلام معاشرے کوتقسیم نہیں کرتابلکہ انسانوں کے درمیان تقویٰ کی بنیاد پر تفریق اورتعظیم کادرس دیتا ہے ورنہ اسلام کی آمدسے قبل جابراورمجبورمیں فرق نہیں کیا جاتاتھا۔حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کابتایاہواراستہ بلاشبہ کٹھن ہے مگراس کے سوادوسراکوئی راستہ کامیابی وکامرانی سے آراستہ نہیں ۔جولوگ بھی راہ حق پرچلے وہ سرفرازہوئے اوراپنے اعلیٰ کرداروافکار سے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑگئے ۔جوبھی سچے دل سے راہ حق پرچلتا ہے لوگ اس کی راہوں میں پلکوں کوبچھاتے چلے جاتے ہیں ۔ باباجی حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ کاآج دنیا بھرمیں جونام اورمنفرد مقام ہے وہ بجاطورپراس کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے دین اسلام کیلئے انتھک کام کیا ہے اورجوبھی اﷲ تعالیٰ کے دین کی آبیاری اورسر بلندی کیلئے ''امتحانات'' سے گزرا وہ کندن بن گیا ۔ حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی ؒ نے بھی شبانہ روز محنت اورمحبت سے دنیا بھرمیں پھیلے اپنے عقیدت مندوں کے نیم مردہ اورشرمندہ قلوب کو ذکرالٰہی اوردرو د وسلام کی ضرب سے زندہ اورہرقسم کے زنگ سے پاک کردیا ۔ آپ ؒسے براہ راست ملنے کاشرف توراقم کونصیب نہیں ہوا مگرآپ ؒ کے مزارپرکئی بارحاضری کی سعادت ضرورملی تاہم آپ ؒکے عقیدت مندوں ٹریڈرلیڈر چودھری عظمت علی،شاہ پورکانجراہ کے ملک شکیل اعوان اور مانچسٹر برطانیہ میں مقیم محمدامین خان کی وساطت سے مجھے کافی روح پرورمعلومات ملی ہیں جس سے میں باباجی کامزیدگرویدہ ہوگیا ہوں۔پچھلے دنوں چودھری عظمت علی کے ہاں ایک ایمان افروزمحفل ذکر میں باباجی کی تصنیف''تذکرہ حسین شہزادہ کونین علیہ السلام''کے چنداوراق کامطالعہ کرنے کی سعادت ملی ۔ بابا جی کی تحریرکے اسلوب میں ایک خاص تاثیرہے جس سے کتاب کا قاری اس دلخراش واقعہ کاایک جیتا جاگتا کرداربن جاتا ہے۔اس کتا ب کاوہ باب جومحفل میں پڑھتے ہوئے مجھ سمیت دوسرے شرکاء پھوٹ پھوٹ کرروئے اس کی چندسطور آپ کے ذوق مطالعہ کی نذرکررہا ہوں ۔

باباجی رقم طراز ہیں ،قومیں پیداہوتی ہیں،مٹ جاتی ہیں ۔بستیاں آبادہوتی ہیں ،اجڑجاتی ہیں۔تہذیبیں نکھرتی ہیں ،دھندلاجاتی ہیں ۔شخصیات پیداہوتی ہیں ،مرجاتی ہیں ۔داستانیں مرتب ہوتی ہیں ،محوہوجاتی ہیں ۔یہ عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اورمسلسل جاری رہے گا۔لیکن ایک داستان الم ہے ،جوتاریخ کے صفحات میں آج بھی اسی طرح روشن اورتابندہ ہے جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے تھی ۔امتدادِزمانہ کی گردش اورانقلابات روزگارکی ہزاروں گردشیں اس داستان الم کونہ مٹاسکیں اورنہ رہتی دنیا تک مٹاسکیں گی ۔کیونکہ اس داستان عظیمہ کولکھنے والی مقدس شخصیت نے اسے اپنے خون جگر سے لکھا اوردشت کرب وبلا کے دمکتے ہوئے ذروں نے اس تحریر کواپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ۔تاریخ عالم کے صفحات اس داستان عظیمہ کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔اگرکسی میں حوصلہ ہے تواس آفتاب کے سامنے اپنا دیاجلاکرتودکھائے ۔حضرت بی بی فاطمہ ؓ کے جگرگوشے نے اپنے ناناکے مقدس دین کے احیاء کیلئے قربانی کاجوبینظیر معیارقائم کیا ،کوئی اس کی مثال توڈھونڈ لائے ۔قتیل جادہ حق وصداقت نے کمال صبرواستقامت سے ان آزمائشوں کوطے کیا جواﷲ رب العزت ّ نے اپنے ابدی پیغام میں متعین کیں اوربیان فرمائیں۔اﷲ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے،''اﷲ تعالیٰ تمہیں آزمائشوں میں ڈالے گا۔وہ حالت خوف وہراس ،بھوک اورپیاس ،نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد واقارب میں مبتلا کرکے تمہارے صبرواستقامت کوآزمائے گا۔پس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے ان لوگوں کیلئے جن کے ثبات واستقامت کایہ حال ہے کہ جب مصائب میں مبتلا ہوجاتے ہیں تواپنے تمام معاملات ''اناﷲ واناالیہ راجعون''پڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے سپردکردیتے ہیں''۔

اب میدان کربلاکی سمت آ ئیے اورقرآن مجیدفرقان حمید کے آئینہ میں اس بہت بڑے سانحہ کامنظرملاحظہ کیجئے ۔خوف وہراس کایہ عالم ہے کہ حد نگاہ پھیلے ریگزاروں میں خاندان رسالت ؐ کایہ مختصر مگر مقدس قافلہ درندہ صفت سفاک حیوانوں کے حصارمیں ہے ۔سورج کی گرم شعاعیں پڑتی ہیں توزمین کے ذرات شرارے بن جاتے ہیں ۔دشمن کے نیزوں اوربھالوں کی چمک سے آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں ۔بے نیام تلواریں اس مقدس قافلہ پرکوندی پڑتی ہیں ۔ہرنگاہ سفاک ،ہرآنکھ گستاخ اوربیباک دکھائی دیتی ہے ۔شرکے اس طوفان بدتمیزی میں کسی ایک زبان سے بھی خیر اورمروت کی آوازسنائی نہیں پڑتی ۔شریرلشکر کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے رات کے اندھیرے اوربھی خوفناک بن جاتے ہیں ۔سلامتی کے تمام دربند ہیں لیکن کچھ پاک سر ہیں جوایسے ماحول میں بھی جھکے ہوئے بزرگ وبرتر اﷲ پاک کی حمد وثناء بیان کررہے ہیں ۔

بھوک اورپیاس کایہ عالم ہے کہ فرات کے کنارے گھوڑوں اورگدھوں کیلئے آزاداورکشادہ ہیں لیکن دوش رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کاسوار،جوانان جنت کاسردار،مسافر کرب وبلا ،مظلوم نینوا،اپنے قبیلے کے ساتھ پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہے ۔اہل بیت کے خیموں سے العطش العطش کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ننھے بچے پیاس کی شدت سے نڈھال ہوئے جارہے ہیں لیکن یذیدکاحکم ہے کہ امام حسین علیہ السلام اوراس کے اہل بیت تک فرات کے پانی کی ایک بوند بھی نہ پہنچنے پائے ۔

وہ دیکھو ! حضرت عباس رضی اﷲ عنہ علمدار مشکیزہ کندھوں پرڈالے کس جرأت وپامردی سے لڑتے بھڑتے فرات کے کنارے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ پیاسے بچوں کابلکنادیکھا نہیں جاتا،مشکیزہ بھرلیا ہے ،چونکہ خود بھی پیاسے ہیں چاہا کہ پیاس بجھالی جائے لیکن یہ کیا اپنے چُلّومیں پانی بھرکرپھرکیوں اچھال دیا ،ہاں وفاداری ،صبرواستقامت اوررفاقت کی پاسداری پیاس کی شدت پرغالب آگئی ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام پیاسے ہیں ،ان کے بچے پیاسے ہیں ،پردہ دار بیبیاں پیاسی ہیں ،حضرت سکینہ رضی اﷲ عنہا پیاسی ہیں ،بیمار حضرت عابدرضی اﷲ عنہ پیاسے ہیں ،زہرائے ثانی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کے لخت جگر حضرت عون رضی اﷲ عنہ اورحضرت محمد رضی اﷲ عنہ پیاسے ہیں،ایسے میں حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے حلق سے یہ چُلّوبھرپانی کس طرح اترسکتا ہے ۔بھرکراچھال دیا اورمشکیزہ سنبھال ،علم تھامے خیمہ گاہ سادات کی طرف روانہ ہوگئے ۔دشمن نے یلغار کی ،گھمسان کارن پڑگیا ہے ۔وہ دیکھو حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کا دایاں بازوکٹ کردورجاپڑا ہے ،لیجئے ان کابایا ں بازوبھی کاٹ دیا گیا ،مشکیزہ تیروں سے چھلنی ہوگیا ہے ،دانتوں میں تھاماہوا علم بھی گراجارہا ہے ۔اس سے پہلے کہ امام حسین علیہ السلام بھائی کی مددکوپہنچیں ،صدق وصفاکایہ پیکر حق رفاقت اداکرکے جام شہادت نوش کرگیا ۔خیموں سے اب بھی تسبیح وتہلیل کی صدائیں بلندہورہی ہیں۔نقصان جان ومال اورہلاکت اولاد اوراقارب کی تفسیر جو نواسہ رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم نے میدان کربلا کے سینے پرتحریر کی اس کی مثال کون پیش کرسکتا ہے ۔

ذراقدم آگے بڑھائیے ،میدان کارزارکارنگ بھی قابل دیدہے جہاں ہرطرف خون شہیداں بکھراپڑاہے ۔بے برگ وگیاہ صحرا اس گل پاشی سے رشک چمن بناہواہے گویاجگہ جگہ لالہ ٗ صحرائی اُمڈپڑے ہیں ۔اے خاک ِ کربلا ! اپنی اِس سُرخروئی پرنازکرکہ توخونِ مقدس کی امین بنی ۔نواسہ رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے غیوراورنڈرجانثاروں نے تیرے سینے پرتاریخ کے انمٹ نقوش بناڈالے ہیں ۔حبیب بن طاہررضی اﷲ عنہ ،حُر بن یزید ،بربربن حصین ،عبداﷲ بن الکلبی ،مسلم بن عوسجہ ،زہیر بن القین ،حظلہ بن اسعد کے لاشے جرأتوں اورعظمتوں کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔یہ محترم خاتون اُم وہب کاجسدخاکی بھی اِدھر پڑا ہے ،جواپنے شہید شوہرعبداﷲ بن الکلبی کے چہرے سے گردصاف کررہی تھیں کہ کسی شقی القلب کی تلوار نے انہیں وہیں کاٹ کرڈھیر کردیا۔ٹھہر اے چشم فلک مجھے ان شہیدوں کوہدیہ ٗ عقیدت اورسلام شوق پیش کرنے دے ،میرے قدم ڈگمگا رہے ہیں ،مجھ میں ابھی آگے بڑھنے کی طاقت ہے اورنہ کسی دلخراش منظر کودیکھنے کی تاب۔تُونے اِس دھرتی پرلاکھوں قافلے لٹتے دیکھے ہوں گے ،لاکھوں مظلوم قتل ہوتے دیکھے ہوں گے ۔شایداسی لئے تیری آنکھیں پتھر ہوچکی ہیں کہ ان سے اشک جاری نہیں ہوتے ۔لیکن بتاتوسہی تونے کسی کو جرأ ت وپامردی سے آگے بڑھ کر موت کویوں گلے لگاتے دیکھا۔کسی نے یوں رسم وفانبھائی اوریوں حق رفاقت اداکیا ،کسی نے یوں بے سروسامانی میں ،بھوک اورپیاس کی شدت کے باوجودایسی جرأت اورشجاعت کامظاہرہ کیا ،اِدھرگنتی کے چندنفوس ہیں ،اُدھرہزاروں کالشکر!

آوازآئی ۔یہیں مت ٹھہرجانا! سینے کوتھام کرقدم ذراآگے بڑھا ،وہ دیکھ کچھ دورایک لاشہ پڑا ہے ۔سب سے الگ تھلگ اسے پہچاننے کی کوشش کر!مگراس کا سرتن سے کاٹ لیا گیا ہے اورلاشے کوگھوڑوں کی تاپوں سے یوں رونداگیا ہے کہ پہچان مشکل ہے ۔ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ ٹوٹ کرخمیدہ ہوچکی ہیں ۔جسم سے لباس نوچ کردہکتی ریت پرنیم برہنہ ڈال دیاگیا ہے ۔لیکن دیکھو اس تمام تربرہنگی اوربیچارگی کے باوجود لاشے سے ایک عظمت ،عصمت اورحشمت پھوٹی پڑتی ہے ۔یہ باوقاراوربارعب جسدخاکی یقیناکسی شہزادے کاہے ،کسی سردارکاہے ۔سنوسنو!یہ کیسی آوازہے صحراؤں کی وسعتوں اورخاموشی کوچیرتی ہوئی خلاؤں میں ابھررہی ہے ،جس نے کربلا کی فضاؤں میں ارتعاش پیداکردیا ہے ،پرندے بھی سہم گئے ہیں اور ہوابھی تھم گئی ہے ۔دھوپ کی رنگت زردپڑگئی ہے ۔غورسے سنواوراس کے ایک ایک لفظ کوذہن میں محفوظ کرلوکہ مستقبل کامورخ ان الفاظ سے تاریخ کوکچھ نئے عنوان دے گا۔لوگو!میرا حسب نسب یادکرو۔سوچومیں کون ہوں ،پھراپنے اپنے گریبان میں منہ ڈالواوراپنے ضمیرکامحاسبہ کرو!خوب غورکرو،کیا تمہارے لئے میراقتل کرناورمیری حرمت کارشتہ توڑنارواہے۔کیا میں تمہارے آقااوراﷲ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر محمد رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہ کابیٹا اور رسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے غمزادحضرت علی رضی اﷲ عنہ ؓکافرزندنہیں ہوں۔کیا سیّد الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ میرے باپ کے چچا نہیں تھے ۔

میں سمجھتا ہوں امام حسین علیہ السلام کی دین اسلام پر استقامت ،یذیدیت کی بیعت سے دوٹوک انکارکے ساتھ ساتھ اس کیخلاف بھرپورمزاحمت ،حق وباطل کے معرکے میں ان کی شجاعت اوران کی بینظیرشہادت پر بے شمارکتب لکھی گئی ہیں اورلکھی جاتی رہیں گی ۔ملعون اورپلید یذید نے جس بہیمانہ اوروحشیانہ اندازسے امام حسین علیہ السلام کاسرقلم کیا اس دردکی روداد کوسپردقرطاس کرنا ہمارے قلم کے بس کی بات نہیں۔ جس کسی کی حسینیت کے ساتھ نسبت وعقیدت نہیں اسے روحانیت اورطمانیت نصیب نہیں ہوگی۔

 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.