جی ہاں! یہ سوال ہر انسان کو خود سے کرنا چاہیے جو
مہنگائی سے تنگ ہے کہ کیا وہ مہنگائی کو کنٹرول کر سکتا ہے یا نہیں یا پھر
میں مہنگائی کے بارے میں حکومت کی مدد کا محتاج ہوں۔کہ وہ میرے لئے آسانیاں
پیدا کرے کہ ریٹ کم کر دے یا بڑھا دے۔تواس بات کے پیش نظر آپ کا جواب یہ ہے
کہ آپ مہنگاہی کو کنٹرول کر سکتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو وہ کس طرح ۔اس
مسئلے کا حل بتانے سے پہلے آپ کو اس مہنگائی کے بارے میں بتاتا چلوں کہ
مہنگائی دنیا کی واحد چیز ہے جو ختم نہیں ہو سکتی۔ آپ یہ پڑھ کر حیران و
پریشان ہو رہے ہوں گے کہ ہماری حکومت اور دوسرے ممالک کی حکومتیں اس
مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنے کے لئے مختلف قسم کے پروگرام اور منصوبے
بناتی ہیں اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں تو میں اس کو نہ
ختم ہونے والی چیز کیوں کہہ رہا ہوں۔وہ یوں کہ مہنگائی افورڈ بیلٹی یعنی
استطاعت کا نام ہوتی ہے اگر ایک چیز جس کو آپ خریدنے کی طاقت واستطاعت
رکھتے ہیں تو وہ آپ کے مطابق اور آپ کے لیے نہایت ہی سستی ہوتی ہے۔اور جس
چیز کو آپ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ آپ کے لیے مہنگی ہوتی ہے کیونکہ جس
چیز کو آپ افورڈ کر سکتے ہیں وہ سستی ہے اور جس کو افورڈ نہیں کر سکتے وہ
مہنگی ہے۔ان دنوں کی صورتحال کے پیش نظر جو مہنگائی کی شرح میں اضافہ
ہواہے۔ یا آئندہ ہوگا ۔اس سے امیر طبقے کے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا
اور غریب طبقے کے لوگوں کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے گی۔اور اس صورتحال سے امیر
لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ان کا اچھی طرح سے گزر بسر ہو جائے گا ۔ہم
لوگ تو پہلے ہی یہ کہتے ہیں کہ غریب بھوکے مر رہے ہیں اور امیر آرام سے کھا
رہے ہیں تو بات یہاں بھی افوڑبیلٹی یعنی استطاعت کی ہے۔ امیر یا غریب کی
نہیںں۔ امیر غریب بھی افوڈبیلٹی(استطاعت)کا ہی نام ہے۔ جو کائنات کی تخلیق
سے اب تک رہا ہے۔اور بعد میں بھی استطاعت کے لحاظ سےیہ فرق باقی رہے گا۔ وہ
ایک الگ موضوع ہے کہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ کیوں ہوتا ہے اور مہنگائی کی
شرح میں کمی کیوں آتی ہےاور اس کا مستقل حل کیا ہےاور اس طرح اس غربت میں
خاطر خواہ کمی کیسے رونما ہو سکتی ہے وغیرہ۔اس موضوع پر ہم پھر کبھی کالم
لکھیں گے۔ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک ملازم شخص
جو اگر پچاس ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے تو اگر اس کا حساب لگایا جائے تو آج
کے دور کی تمام ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو اس کے ساتھ وہ گزارہ تو
کر سکتا ہے آسانی سے لیکن اس سے لطف نہیں اٹھا سکتا جو لاکھوں میں کھیلنے
والے اٹھا سکتے ہیں۔ ابھی آپ اپنے صرف ماہانہ راشن کا حساب کریں۔تو آپ یہ
دیکھ کرحیران رہ جائیں گے کہ اتنی مہنگاہی۔دراصل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات وہی
لوگ ہی ںسوچ رہے ہوں گے جو اس خرچے کوبرداشت نہیں کر سکتے۔اور دوسری طرف
دوسرے لوگوں کے چہرے پر ذرا بھی ملال نہیں آیا ہوگا اور وہ مسکرا رہے ہوں
گے ۔وجہ صرف یہی ہوگی کہ وہ اس خرچے کو بآسانی برداشت کر سکتے ہیں۔ تو یہاں
بھی افورڈ بیلٹی کا ہی فرق ہے ۔جوآپ میں امیر اور غریب کا فرق پیدا کیے ہوا
ہے ۔زیادہ تر لوگ وہی معاشرے میں خوشحال ہو تےہیں جو کاروبار سے منسلک ہوں
۔کیوں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مفہوم کے مطابق "دس میں سے
نو حصے رزق کاروبار میں ہے" ۔تو باقی جو ہے ایک فیصد وہ آپ کو ملازمت وغیرہ
میں ملے گا۔تو یہ ہے کاروبار کا فائدہ ۔تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا طرز عمل
تبدیل کریں اور خود کو کاروبار کی طرف راغب کرے ۔ہماری حکومت بھی اس بات کو
اچھی طرح سے سمجھ چکی ہے ۔اس لئے"کامیاب نوجوان پروگرام"اور اس طرح ہنر
سکھانے کے پروگرام بنائے گئے۔اس لئے ہمیں اب خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا اور اس
بات کو ماننا ہوگاکہ ہمارے ملک میں نوکریاں نہیں ہیں۔ اس کا ثبوت آپ کو اس
بات سے مل سکتا ہے کہ جب تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے لوگوں کو
ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تو حکومت میں آنے کے بعد انہیں اس بات
کا خیال ہو گیا کہ نئ نوکریاں پیدا نہیں کی جاسکتیں۔ کیونکہ عوام کو
نوکریاں دینے کے لیے بہت سے غیر ضروری اور فضول محکمے ان سے پہلے بنائے
گئے۔جو حکومت پر بوجھ ہے۔ تو بات ظاہر ہے کہ نوکریاں نہیں ہیں۔ہمیں اپنی
سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا" کیوں کہ سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا۔" تو
ہمیں اپنا طرز عمل اور مقصد بھی بدلنا ہو گا اور اپنی سوچ کے دھارے کو
کاروبار کی طرف لے جانا ہوگا۔ ہمیں نوکریاں ڈھونڈنے کے بجائے نوکریاں پیدا
کرنے پر دھیان دینا ہوگا ۔ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کسی کو
نوکری مہیا تو کر سکتے ہیں۔ہم باہر نوکری کرنے کے لیے جاتے ہیں صرف اسی وجہ
سے کہ وہاں نوکریاں موجود ہیں تو اس لئے ہی جاتے ہیں ۔ آپ یہ بھی بات اچھی
طرح سے جانتے ہیں کہ وہاں نوکریاں پرائیویٹ کمپنیز کی طرف سے ہوتی ہیں۔ نہ
کہ گورنمنٹ کی طرف سے ۔ہم کاروبار کریں گے نہیں تو کمپنیز کیسے بنیں گی اور
نوکریاں کیسے پیدا ہوں گی۔ آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور کاروبار کی طرف
مائل ہوں آپ خود آگاہی حاصل کریں۔ آپ صرف خود مچھلی کھانےنہیں بلکہ اور بھی
لوگوں کو کھلانے کی طرف متوجہ ہوں۔ آپ اپنی خودی سے آگاہ ہوں اور اس سے خود
آگاہی حاصل کریں۔اور اپنا فرض نبھائیں اور اپنے وطن کی ترقی میں اپنا حصہ
ڈالیں۔ (ختم شدہ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
|