لائبریری کی افادیت

کتاب ، مکتب اور مکتبہ ، یہ تینوں چیزیں قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں ۔ ہر قسم کی ترقی کے دروازے انہیں کنجیوں سے کھُلا کرتے ہیں ۔ یہ تینوں حصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں ۔ علم ، نور ہے ۔ علم ، انسانیت کا زیور ہے ۔ علم ہی سے جائز و ناجائز میں فرق کیا جاتا ہے ۔ دین و دنیا کی ساری کامیابیاں اور بھلائیاں اسی علم پر موقوف ہیں ۔ علم ہی سے دنیا کو سنوارا جاسکتا ہے اور علم ہی کی بدولت آخرت کی سعادتیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ غرض کہ علم ، ترقی کا ذریعہ ، کامیابی کی کنجی اور دنیا کی حکومت و قیادت کا پہلا زینہ ہے ۔ اگر ہمارے پاس علم ہے تو سب کچھ ہے اور اگر علم نہیں تو سمجھو کچھ بھی نہیں ۔ آج کی اس اختلاف بھری دنیا میں جدھر دیکھیے اختلاف ہی اختلاف نظر آتا ہے ۔ ہر گھر ، ہر فرد اور ہر سماج میں اختلاف ہے ۔ غرض کہ کوئی شعبۂ حیات ایسا نہیں جہاں اختلاف نہ ہو ۔ لیکن دو چیزیں ایسی ہیں ، جن کی حقیقت اور فضیلت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور وہ ہیں :
(١) موت ، (٢) علم ۔ یہاں تک کہ ایک ملحد اور جاہل بھی موت اور علم کی اہمیت کا قائل ہے ۔
کتابوں سے دوستی ، علم سے محبت اور لائبریری قائم کر کے اسے آباد رکھنے کی فکری و عملی کوشش ، زندہ قوموں کی علامت ہے ۔ ہند و پاک سمیت دنیا کے اکثر برّ اعظموں پر مسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی ہے اور اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا ہے ، جس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ علم و تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی مضبوط گرفت ہے ۔ مسلمان جب تک علم کے زیور سے آراستہ رہے ، کتابوں کو اپنا دوست بنا کر مکتب اور مکتبہ سے اپنا علمی و وروحانی رشتہ جوڑے رکھا ، زندگی کے ہر میدان میں کامیاب رہے اور جیسے جیسے تعلیم سے دور اور درس و مطالعہ سے بیگانہ ہوتے گئے ، اس پر ترقی کے دروازے بند ہوتے گئے ۔

مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حصولِ علم پر بہت زور دیا ہے ۔ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ : اطلبوا العلم من المعھد الی اللحد ۔ یعنی ماں کی آغوش سے لے کر قبر میں جانے تک علم حاصل کرتے رہو ۔ علم ہی دینی و دنیاوی کامیابیوں کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ اس لیے عمر کا لحاظ کیے بغیر ہمیں بچپن ، جوانی اور بڑھاپے تک حصول علم میں کوشاں رہنا چاہیے ۔

تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں ۔ جہاں تعلیم کا انتظام ہو ، وہاں ایک اچھی سی لائبریری اور مختلف علوم و فنون کی کتابوں پر مشتمل کتب خانہ کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ ، لائبریری سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہوتی ۔ دیگر علمی و تحقیقی ضروریات کیے لیے اضافی کتابوں کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ معاشی اور تعلیمی اعتبار سے معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں ۔ عوام کی علمی بلندی ، ہر طرف تعلیم کا چرچا ہو ۔ تعلیمی اداروں میں کتب خانے اور لائبریریاں موجود ہوں ۔ علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے مدارس ، مکاتب ، اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں ۔ عوام کی رسائی ان تعلیم گاہوں تک بالعموم نہیں ہو پاتی ۔ اس لیے ملک کے مختلف حصوں میں فلاحی تنظیموں کے ذریعے لائبریری کے قیام کا اہتمام کیا جائے ۔ علم کا فروغ محض تعلیمی اداروں سے ہی ممکن نہیں ۔ تعلیمی ترقی اور علم کے فروغ کا ایک مضبوط ذریعہ لائبریری ہے ۔ اس آج لائبریری کے قیام و استحکام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ تعلیم کو عام کرنے کا جو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتا ہے ، وہ کتب خانوں میں آکر مل جاتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہی ملک اور معاشرے میں علم کا اجالا پھیلتا ہے ۔ لائبریریاں ، علوم و فنون اور معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ علم کے متوالوں کو یہاں ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے اور ہر شخص آسانی سے بقدر ظرف استفادہ کر سکتا ہے ۔

دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ قوم لائبریری سے بے نیاز نہیں رہ سکتی ۔ لائبریری کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ خاص طور سے تعلیمی و تدریسی زندگی میں تو لائبریری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ اس کے بغیر تعلیمی سفر کو منزل سے ہم کنار نہیں کیا جاسکتا ۔ " فن تعلیم و تربیت " ایک اہم اور مفید کتاب ہے جو جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے درجہ فضیلت کے نصاب میں شامل ہے ۔ میرے ناقص خیال کے مطابق والدین ، اساتذہ اور مربّی حضرات کو اس کتاب کا بار بار یا کم از کم ایک بار گہرائی کے ساتھ ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ لائبریری کی اہمیت و ضرورت اور لائبریری میں مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتب و رسائل کے حصول کے تعلق سے اس کتاب کا یہ پیراگراف ملاحظہ کریں :
درسی کتابیں چاہے کتنی ہی میں معیاری اور مفید ہوں ، بچوں کی معلومات میں وسعت ، ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ، مطالعہ کی سکت ، کتب بینی کا ذوق ، خیالات کی بلندی ، آدرش کی لگن ، اظہار خیال پر قدرت ، دوسروں کے خیالات و نظریات سمجھنے کی صلاحیت اور فرصت کے اوقات کے مناسب استعمال کے لیے مزید موزوں کتب اور اخبارات و رسائل وغیرہ کا مطالعہ ضروری ہے ۔ خود اساتذہ کو بھی اپنی تدریسی صلاحیت بڑھانے ، اپنی معلومات کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے ، توضیح و تشریح میں مدد لینے اور حوالہ جات کے لیے کتب و رسائل کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ظاہر ہے طلبہ اور اساتذہ کی ان ضروریات کی تکمیل کے لیے ہر مدرسے کی اپنی " لائبریری " ہونی چاہیے ۔ لائبریری میں اساتذہ اور ہر عمر ؛ ذوق اور صلاحیت کے بچوں کے لیے مفید اور ضروری کتب کا ذخیرہ ہونا چاہیے ، جس میں سال بہ سال اپنی بساط کے مطابق نئی کتب کا اضافہ بھی ہوتا رہے ۔ لائبریری کے ساتھ ایک " دارالمطالعہ " بھی ضروری ہے جس میں بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کے لیے اچھے اخبارات ورسائل رکھے جائیں ۔اگر وسائل محدود ہو تو کتب و رسائل کی فراہمی میں پبلک سے تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ جو صاحب ذوق اخبارات و رسائل منگاتے ہیں یا کتابیں خریدتے ہیں ، ان سے یہ چیزیں مدرسے کی لائبریری کے لیے عاریتًا لی جا سکتی ہیں یا ان میں سے جو چیزیں پڑھنے کے بعد عموما بے کار ہو جاتی ہیں اور وہ ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں انہیں مدرسہ مستقلاً حاصل کرسکتا ہے ۔ بعض گھروں میں پرانی کتب کا ذخیرہ پڑا پڑا دیمکوں کی نذر ہو جاتا ہے یا بچوں کی پڑھی ہوئی کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی رہتی ہیں تو مفت میں یا کم داموں پر انہیں مدرسے کی لائبریری کے لیے حاصل کر سکتے ہیں ۔
( فن تعلیم و تربیت ، ص : 342 - 345 )

جس طرح پاور پلانٹ اور بجلی ہاؤس سے ہر طرف بجلی سپلائی کی جاتی ہے ، اسی طرح لائبریری " علم کا پاور ہاؤس " ہے ، جہاں سے معاشرے کو علم کی روشنی فراہم ہوتی ہے اور مختلف علوم و فنون کی شعاعیں لوگوں کے ذہن و دماغ میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسانی تہذیب کے ارتقاء کی تاریخ کتاب اور لائبریری کے ذکر بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔

کتاب ، مکتب اور مکتبہ ہماری تعلیمی زندگی کے قیمتی سرمایہ ہیں ۔ معلم کائنات جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی ہے ، وہ لفظِ " اقرا " ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں تعلیم کو بڑی اہمیت و فضیلت حاصل ہے ۔ کتابیں پڑھنے کے لیے مکتب و مدرسہ کی ضرورت ہے اور مکتب و مدرسہ ، مکتبہ ( کتب خانہ - لائبریری ) کے بغیر ناقص اور ادھورا سمجھا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی علمی تاریخی اور مسلم حکمرانوں کے تمدنی کارناموں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر طرف " لائبریریوں " کا جھال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ دلیل کے طور پر یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
کتابوں اور لائبریریوں سے انسان کا رشتہ بہت قدیم ہے ۔ کتاب " مشرقی کتب خانے " کا یہ پیراگراف ملاحظہ کریں :
کتب خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابوں کی شکل میں انسانی خیالات ، تجربات اور مشاہدات کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ ایک شخص کے خیالات سے نہ صرف اس کی نسل کے ہزاروں افراد بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے افراد بھی استفادہ کرسکیں ۔ کتب خانوں کا وجود یعنی کتابوں کو ایک خاص جگہ اس طرح محفوظ رکھنے کا انتظام کہ وہ محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت بغیر کسی دشواری کے حاصل کی جا سکیں ، کسی نہ کسی شکل میں قدیم ترین زمانے سے ملتا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہی ہندوستان ، ایران ، یونان وغیرہ میں لائبریریاں قائم ہوچکی تھیں ۔
( مشرقی کتب خانے ، تقدیم ، ص : 5 )

مولانا عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں :
ہندوستان میں اگرچہ اس اسلامی فتوحات کا آغاز پہلی صدی ہجری سے ہوا لیکن اسلامی حکومت کی اصلی بنیاد سلطان محمود نے قائم کی جو ایک مذہبی اور علم دوست بادشاہ تھا اور اسی علم دوستی اور مذہب شیفتگی کا یہ اثر ہوا کہ جب وہ 490 ھ کے بعد قنوج کو فتح کرکے غزنی واپس آیا تو ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی جس کے پہلو میں ایک مدرسہ اور اس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا ۔۔۔۔۔۔۔
( مسلم سلاطین کے عہد میں ہندوستان کے تمدنی کارنامے ؛ ص : 171 )

اکبر اگرچہ معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا ، لیکن علمی ذوق میں وہ اپنے اسلاف سے کسی طرح کم نہ تھا ۔ اس نے محکمٔہ تراجم بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے سنسکرت کی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ہوا اور مستقل تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوا ، جس میں تاریخ کے علاوہ ہر فن پر کتابیں لکھی گئیں ۔ اکبر خود بھی کتابوں کا بڑا شوقین تھا ۔ اس کو جب کوئی نئی کتاب مل جاتی تو اس کو ضرور کتاب دار سے منگوا کر سنتا اور ایک رات میں جہاں تک سنتا وہاں نشان لگا دیتا ۔ دوسرے دن پھر اسی جگہ سے شروع کرواتا ، یہاں تک کہ کتاب ختم ہوجاتی ۔ اس کے پاس ایک بڑا عظیم الشان کتب خانہ تھا جو اپنے بزرگوں سے وراثت میں پایا تھا ۔ اس کے علاوہ گجرات ، جون پور، بہار ، کشمیر ، بنگالہ اور دکن کی فتوحات میں یہاں کے کتب خانوں سے جو کتابیں اس کو دستیاب ہوئیں ، ان کی بڑی تعداد اس نے اپنے کتب خانہ میں داخل کی ۔ اس طرح اکبر کا کتب خانہ نادر و نایاب کتابوں کا بیش قیمت خزانہ بن گیا ۔
( مسلم سلاطین کے عہد میں ہندوستان کے تمدنی کارنامے ؛ ص : 245 - 246 ؛ دار المصنفین ، اعظم گڑھ )

مغل دور حکومت سے پہلے مختلف مسلم حکمرانوں کے دور میں بھی لائبریریوں کے قیام کا بڑا اہتمام تھا ۔ اس دور کے مشہور علماء و مشائخ اور سلاطین اچھی خاصی رقم خرچ کر کے کتب خانے تیار کرتے اور لوگوں کو مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ۔ دہلی کے مشہور بزرگ حضرت نظام الدین اولیاء بدایونی علیہ الرحمہ کی خانقاہ میں ایک بڑا کتب خانہ تھا ۔ آپ کی خانقاہ دہلی ( قدیم ) کے محلہ غیاث پور میں تھی ۔ ان کا کتب خانہ ہر ایک کے لیے وقف تھا اور ہر صاحب علم بلا امتیار اس سے فائدہ اٹھا سکتا تھا ۔
( ایضاً ، ص : 240 )

افسوس کا مقام ہے کہ تعلیمی زندگی میں علم و مطالعہ اور لائبریری کی جتنی زیادہ اہمیت ہے ، آج اتنی ہی ان چیزوں سے متعلق ہمارے اندر غفلت پائی جا رہی ہے ۔ ہمارا تعلیمی نظام جمود و تعطل کا شکار ہے ۔ ہمارا علمی ذوق دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ مطالعہ کے بجائے لہو و لعب اور فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے ہم عادی ہوچکے ہیں ۔ ہمارے قیمتی اوقات موبائل اور انٹرنیٹ کی نذر ہو رہے ہیں ۔ والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے کام دھندہ اور مزدوری پر لگا رہے ہیں اور وقت سے پہلے اپنی اولاد کو دولت کمانے کے راستے پر ڈال رہے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ علم حاصل کرنے کے بعد دولت خود بخود انسان کے پیچھے بھاگتی ہے ۔ تعلیمی زوال نے ہم سے ہمارا ذوقِ مطالعہ اور لائبریری کی اہمیت کا احساس چھین لیا ہے ۔

آج جب کہ درس و مطالعہ سے دن بدن ہماری رغبت کم ہوتی جا رہی ہے ، ایسے میں لائبریری کی طرف بھلا کون توجہ دیتا ہے ۔ آج نہ ہم نئی لائبریریاں قائم کر رہے ہیں اور نہ پرانی لائبریریوں کی حفاظت کا کوئی انتظام کر رہے ہیں ۔ نتیجہ نگاہوں کے سامنے ہیں کہ بہت ساری اہم اور قدیم لائبریریاں تباہ و برباد ہوتی جارہی ہیں اور ہمارا بیش قیمت علمی سرمایہ کیڑوں مکوڑوں اور دیمکوں کی نذر ہوتا جا رہا ہے ۔ تعلیمی ترقی حاصل کرنے کے لیے لائبریریوں کا قیام و استحکام نہایت ضروری ہے ۔کیوں کہ تحقیق و ریسرچ اور مختلف علوم و فنون سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے کا بنیادی ذریعہ یہی لائبریریز ہیں ۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ :
اگر تمہارے اندر شک اور وھم کی بیماری پیدا ہوجائے تو یقین کی دولت حاصل کرنے کے لیے لائبریری کا رخ کرو ۔ عوامی فلاح و بہبود کے متعلق سب مسلمانوں کے اندر بے شمار تنظیمیں اور تحریکیں ہیں جو جو اپنے اپنے میدان میں مختلف اغراض و مقاصد کے تحت کام کر رہی ہیں ۔ لیکن نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہمیں کوئی ایسی کوئی فلاحی تنظیم نظر نہیں آتی جو خصوصیت کے ساتھ مسلم معاشرے میں تعلیمی فروغ کے لیے لائبریریاں قائم کرتی ہو یا قدیم لائبریریوں کو از سرِ نو زندہ کرتی ہو ۔ ہمیں اپنے اس رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ آج جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں ان کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اداروں میں مختلف علوم و فنون اور نادر ونایاب کتب و رسائل پر مشتمل لائبریری قائم کرے ۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کے بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے لائبریریوں کو آباد کرنا چھوڑ کیا ہے ہے اور ان سے ہماری رغبت اور دلچسپی کم ہو گئی ہے ۔

قوم و ملت کے ذمہ دار حضرات کو چاہیے کہ سماجی فلاح و بہبود سے متعلق وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں میں ( جہاں ضرورت ہو وہاں ) لائبریریوں کے قیام کو بھی شامل کریں اور ہماری وہ قدیم لائبریریاں جو آج دیمک کی نذر ہو رہی ہیں ، ان کی حفاظت کا انتظام کریں

 

Adeel Moavia
About the Author: Adeel Moavia Read More Articles by Adeel Moavia: 18 Articles with 23110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.