امیرالمومنین حضرت سیدنا
عمرفاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ ان
جید صحابہ میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوبﷺ نے اپنی ظاہری
حیات مبارکہ میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی۔
جب حضور نبی کریم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو بہت ہی کم لوگوں نے
اسلام کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس دعوت پر کفار مکہ نے نبی کریمﷺ اور مسلمانوں
پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ حضرت عمر بھی انہی لوگوں میں شامل تھے۔ جو
مسلمانوں کی شدید مخالفت کرتے تھے۔
اسی مخالفت کی وجہ سے آپ نے نبی کریمﷺکو (نعوذباللہ) قتل کرنے کا ارادہ
بنایا اور اس ارادے کی تکمیل کیلیے چل پڑے ۔ راستے میں آپ کی ملاقات ایک
صحابی سے ہوئی۔ پوچھنے پر اپنا ارادہ بتایا تو صحابی نے فرمایا تمہاری بہن
اور بہنوئی بھی اسلام قبول کرچکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا وہ
سیدھے اپنی بہن کے گھر گئے۔ گھر میں آپ رضی اللہ عنہ کی بہن اور بہنوئی کو
قرآن شریف پڑھنا سیکھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے اپنی بہن اور بہنوئی کو خوب
مارا یہاں تک کہ خون نکال دیا۔ اس پر آپ کا دل پسیج گیا آپ نے بہن سے کہا
کہ اچھا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناﺅ جب انہوں نے قرآن کی آیات سنیں تو
یک لخت قسمت کے باغ میں بہار آگئی اور آپ کا دل اسلام کے لیے کھل گیا اور
فرمایا مجھے بھی اس ہستیﷺ کے پاس لے چلو جس پر تم لوگ ایمان لے آئے ہو تاکہ
میں بھی مشرف بہ اسلام ہو سکوں۔ اسطرح حضور نبی کریمﷺ کی مراد پوری ہوئی
اور حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ داءرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا اَسْلَمَ عُمَرُ
نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ اِسْتَبْشَرَ اَھْلُ
السَّمَاءِ بِاِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاہُ ابْنُ مَاجَہَ
حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ
عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یقیناً اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے
اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیں دی ہیں)۔ ( اس حدیث کو ابن
ماجہ نے روایت کیا ہے۔)
(ابن ماجہ في السنن، 1 / 38، في المقدمہ، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و
ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم
الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الہيثمي في موارد الظمان، 1 / 535،
الحديث رقم : 2182).
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نہایت بہادر اور دلیر انسان تھے اور کفار مکہ
پر آپ رضی اللہ عنہ کا رعب و دب دبہ بھی تھا۔ جس کی وجہ سے مسلمان پہلے چھپ
کر نماز پڑھتے تھے اور کھل کر اپنے ایمان کا اظہار کرنے لگے۔ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہوا۔ آپ
رضی اللہ عنہ نےغزوات اور دیگر جنگوں میں بہت بہادری کے کارنامے انجام دیے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا دورخلافت بہت ساری فتوحات پر مشتمل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ
کے بارے میں کسی کا قول مشہور ہے کہ جتنی دیرے آپ نے حکومت کی اتنی دیرے
اگر اور حکومت کرپاتے یا مسلمانوں میں ایک عمر اور ہوتا تو دنیا میں کوئی
بھی غیرمسلم نہ رہتا۔
حضرت عمر کا عدل و انصاف بہت مشہور ہے۔ آپ نے انتہائی سادگی کے ساتھ زندگی
گزاری۔ جس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مختصر سے دورخلافت میں بہت سی گراں قدر
خدمات انجام دیں جن میں ۔آزاد عدلیہ، پولیس کا نظام،جیل خانوں کا قیام
،محاصل کے حصول کا نظام، مختلف آمدنیوں کا حساب ،آب پاشی کا نظام ، ضابطے
تعلیم اور قرآن و حدیث کا باضابط آغاز کیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
یتیم خانے بنوائے،سماجی بہبود کے مراکز قائم کئے۔آپ کے دور میں اسلامی فوج
کو منظم شکل دی گئی اور خبر رسانی اور جاسوسی کیلئے علیحدہ شعبے قائم کیے
گئے۔ اپنے دورِ خلافت میں آپ نے تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں عظیم اسلامی
فلاحی ریاست کے لیے جو زریں اصول وضع فرمائے ان سے فیضیاب ہوکر تاریخِ
انسانی کے مختلف ادوار میں ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو خوشحالی سے
ہمکنار کر چکے ہیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کو ایرانی غلام ابولولو فیروز مجوسی نے ستائیس ذی الحج سن
تیئس ہجری کو فجر کی نماز کے وقت مسجد میں داخل ہو کر خنجر سے حملہ کر کے
شدید زخمی کر دیا ،بعد ازاں یکم محرم الحرام سن چوبیس ہجری کو تریسٹھ برس
کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ زخموں کی تاب نہ لا کر خالق حقیقی سے جا ملے۔
آپ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن
کیا گیا۔
آج بھی جو عاشقان رسولﷺ مدینہ منورہ تشریف لے جاتے ہیں وہ جہاں حضور نبی
کریمﷺ کے روضہ مبارک کی زیارت کرتے ہیں وہیں وہ خلیفہ بلافصل امیرالمومنین
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوئم امیرالمومنین حضرت عمر فاروق
رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فیوض و برکات بھی حاصل کرتے ہیں۔
میری اللہ تعالی کی ذات پاک سے دعا ہے کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو حج بیت اللہ
اور زیارتِ روضہ نبویﷺ کی توفیق عطافرمائے ‘‘آمین’’- |