دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے
حقوق انسانی کی بنیاد رکھی اور اسلام میں انسان کے جو حقوق ہیں، وہ خدا کی
طرف سے ودیت کردہ ہیں۔ دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز اور حکومت ان کے اندر
رد و بدل و ترمیم کرنے کی مختار و مجاز نہ ہے اور نہ ہی ان انسانی حقوق کو
واپس لینے یا منسوخ کر دینے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ہمارا دین
ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں
کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور تمام لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق بلا
امتیاز رنگ و نسل ملیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حقوق انسانی کا تذکرہ فرمایا ہے پیغمبر الزمان
نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا‘ وہ خطبہ، انسانی حقوق
کا میگنا کارٹا کہلاتا ہے ۔ یہ خطبہ حقوقِ انسانی کا پہلا بین الاقوامی
چارٹر تھا‘اقوام متحدہ کی تمام قرار دادیں اور UDHR کے تمام قوانین صرف
کمزور ممالک کے لئے ہیں‘ طاقتور ممالک اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور
انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کی کوئی پرواہ نہیں کررہے۔انسانی حقوق
کا عالمی ڈیکلریشن ان تمام اہم روایتی، سیاسی اور شہری حقوق کا احاطہ کرتا
ہے جو قومی و ساتیر اور قانونی نظاموں میں قانون کے سامنے برابری، یک طرفہ
گرفتاری سے تحفظ، منصفانہ مقدمے کیلئے عدالتی چارہ جوئی اور ماورائے عدل
فوجداری قوانین سے آزادی، جائیداد حاصل کرنے کا حق، خیال و ضمیر اور مذہب
کی آزادی، رائے اور اظہار کی آزادی پر امن اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی
پر محیط ہیں۔ اس میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق بھی گنوائے گئے ہیں
جیسے کام کرنے کا حق کام کے انتخاب کا آزادانہ حق، برابر کے کام کیلئے
برابر کی اجرت کا حق، ٹریڈ یونینوں کو بنانے اور ان میں شمولیت کا حق، آرام
و فراغت کا حق، مناسب و موزوں معیار زندگی کا حق اور تعلیم کا حق وغیرہ۔
سترہویں صدی سے پہلے اہل مغرب میں حقوق انسانی کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔
سترہویں صدی کے بعد ایک مدت تک مغربی فلسفیوں نےضرور اس خیال کو پیش کیا
مگر عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے
دستوروں میں ملتا ہے۔ آج دنیا کے اکثر ملکوں کے دساتیر میں انسانی حقوق کی
آئئنی گارنٹی دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے
احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اﷲ رب العزت نے
نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ
وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ
مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً.
’’اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی
شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا
اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات
پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا ‘‘
بنی اسرئيل، 17 : 70
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد
فرمایا :
يا ايها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد ولا فضل لعربي علي عجمي ولا
لعجمي علي عربي ولا لأحمر علي أسود ولا لأسود علي احمر الا بالتقويٰ.
’’اے لوگوں! آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم
علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عربی کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عجمی پر
کوئی فضیلت نہیں اور کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید
فام پر فضیلت حاصل ہے۔ سوائے تقویٰ کے۔‘‘
طبرانی، المعجم الاوسط، 5 : 86، رقم : 4749
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان،
حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں
پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں
یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہو یا عورت اور
چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ حضور سلم کا
یہ خطبہ حقوقِ انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو کسی وقتی سیاسی مصلحت
یا عارضی مقصد کے حصول کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے جاری
کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کو حقوق انسانی سے متعلق دیگر تمام
دستاویزات پر فوقیت اور اولیت حاصل ہے۔ جو آج تک انسانی شعور نے تشکیل دیں۔
اسلام نے بنیادی طور پر انسان کو چھ (6) حقوق فراہم کیے ہیں :
(1) جان کا تحفظ-
(2) عزت وآبرو کا تحفظ-
(3) مال کا تحفظ-
(4) اولاد کا تحفظ-
(5) روزگار کا تحفظ-
(6) عقیدہ ومذہب کا تحفظ-
یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کے ذریعہ انسان معاشرہ میں پرامن زندگی گزارسکتا
ہے-
اولین چیز زندہ رہنے کا حق، اور انسانی جان کے احترام کا فرض ہے۔ قرآن مجید
ممیں فرمایا گیا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ
فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا
أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً۔ (المائدہ 5:32)
جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، بغیر اس کے کہ اس سے کسی جان کا بدلہ
لینا ہو، یا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کا مجرم ہو، اس نے گویا تمام
انسانوں کو قتل کر دیا۔
اسلام میں کسی آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا یا اسے بیچ ڈالنا قطعی حرام
قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاف الفاظ یہ ہیں
کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف قیامت کے روز میں خود مستغیث ہوں گا۔ ان
میں ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد انسان کو پکڑ کر بیچے اور اس کی قیمت کھائے
۔
اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی عام ہیں۔ ان کو کسی قوم یا
نسل یا ملک و وطن کے انسان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔
اسلام کے دیے ہوئے حقوق میں سے ایک ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے۔ اللہ
تعالٰی کا ارشاد ہے کہ:
لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْلِ إِلاَّ مَنْ
ظُلِمَ ۔ (النساء 4:148)
اللہ کو برائی کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں ہے سوائے اس شخص کے جس پر
ظلم کیا گیا ہو۔"
یعنی اللہ برائی پر زبان کھولنے کو سخت ناپسند کرتا ہے، لیکن جس شخص پر ظلم
کیا گیا ہو، اس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ علی الاعلان ظلم کے خلاف آواز
اٹھائے۔
مذکورہ بنیادی حقوق اگر شرح وبسط کے ساتھ ذکر کئے جائیں تو ان کے تحت گئیں
شاخیں اور فروعی حقوق بنتے ہیں-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام افراد انسانی کو برابر ویکساں
قراردیا ، لہٰذا کوئی شخص بحیثیت انسان دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا،
رنگ ونسل ، قومیت و وطنیت،سیاست وحکومت، دولت وثروت کا کوئی فرق روا نہیں
رکھا گیا- اسلام نہ صرف یہ کہ کسی امتیاز رنگ و نسل کے بغیر تمام انسانوں
کے درمیان مساوات کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے ایک اہم اصول حقیقت قرار دیتا
ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ
عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۔ (الحجرات 49:13)
"اے انسانوں! ہم نے تمہیں ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا کیا۔" بالفاظ دیگر
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اصل میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک ہی ماں اور
ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ "اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر
دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانوں۔" یعنی قوموں اور قبیلوں میں یہ تقسیم
تعارف کے لئے ہے۔ اس لئے ہے کہ ایک قبیلے یا ایک قوم کے لوگ آپس میں ایک
دوسرے سے واقف ہوں اور باہم تعاون کر سکیں۔ اس لئے نہیں ہے کہ ایک قوم
دوسری قوم پر فخر جتائے اور اس کے ساتھ تکبر سے پیش آئے۔ اس کو ذلیل سمجھے
اور اس کے حقوق پر ڈاکے مارے۔ "درحقیقت تم میں سے معزز وہ ہے جو تم میں سب
سے زیادہ خدا ترس ہے۔" یعنی انسان پر انسان کی فضیلت صرف اخلاق اور پاکیزہ
کردار کی بنا پر ہے نہ کہ رنگ و نسل، زبان اور وطن کی بنا پر۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ارباب عقل ودانش اور اصحاب فکرونظر کو انسان کی
مظلومیت کا احساس ہوا تو اس وقت پہلی مرتبہ انسانی حقوق کے تعین اور اس کی
تدوین سے متعلق آواز اُٹھائی گئی اور اس اسلامی نظام کو بنیاد بناکر انسانی
حقوق مقرر کئے گئے اور عالمی سطح پر قانون انسانی حقوق کا اعلان کیا گیا ،
جب کہ محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری عالمی جنگ سے تیرہ سو سال
سے زائد عرصہ پہلے ہی ان تمام حقوق کو بیان فرمادیا اور ساری دنیا کو آفاقی
پیام عطا فرما دیا۔
اگر خطبہ حجۃ الوداع میں آنحضرت سلم کے بیان کردہ انسانی حقوق کو عالمی سطح
پر آئینی حیثیت دی جائی ،اس کو نافذ العمل قرار دیتے ہوئے بروئے کار لایا
جائے اور اس کی خلاف ورزی خلاف قانون قرار پائے تو دنیا سے ظلم واستبداد
ختم ہوجائے گا، امن وامان کی فضاء میں ایسے پھول کھلیں گے کہ اُس کی خوشبو
سے انسانی زندگی کے تمام گوشے مہک اُٹھیں گے –حجۃ الوداع کے اس خطبہ کو
فقہی، شرعی اور اسلامی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے کئی احکام
مستنبط ہوتے ہیں۔
خطبۂ حجۃ الوداع عالمی اور بین الاقوامی اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس
میں انسانی حقوق کی بابت ایسے اہم اور ضروری ارشادات ہیں جو قانون دان و
قانون ساز افراد کے لئے قانون مدون کرنے اور دستور وضع کرنے کے سلسلہ میں
مشعل راہ اور منزل مقصود کی حیثیت رکھتے ہیں۔ |