ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
ہمارے ہاں عمومی طور پر عوام الناس سرکاری محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے
شکوہ کناں رہتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں انہیں جن اداروں سے پالا پڑتا ہے، ان
میں سے بہت سوں کی کارگزاری کے ضمن میں انہیں شکایات رہتی ہیں۔ کہیں بجلی
گیس کے اضافی بل ۔کہیں ناقص اور غیر معیاری تعلیم کے مسائل۔کہیں میرٹ کی
خلاف ورزی کا رونا۔ کہیں سرکاری افسران کے رویے کا گلہ۔ کہیں اپنے ساتھ
ہونے والی ناانصافی کا نوحہ۔کوئی نہ کوئی مسئلہ انہیں گھیرے رہتا ہے۔ اگر
متعلقہ محکمے کی طرف سے شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا تو عام طور پر عوام
کسی بارگاہ انصاف کا رخ کرنے کے بجائے، ادارے اور اس کے ملازمین کو برا
بھلا کہہ کر یا اپنی قسمت کو کوس کر خاموش بیٹھ رہتے ہیں۔ ایسی باتیں بھی
اکثر و بیشتر سننے کو ملتی ہیں کہ اس نظام کی اصلاح ممکن نہیں ۔ بے بس عوام
کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سفارش اور رشوت کے بغیر عوام کی شنوائی نہیں۔
وغیرہ وغیرہ ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں قائم عوامی ادارے شہریوں کی
خدمت اور سہولت کیلئے ذیادہ تحرک اور گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ عوام
کو بجا طور پر ان سے شکایات رہتی ہیں۔ریاستی نظام سے مایوسی کے باعث مجموعی
طور پر ہمارا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے یا اپنی شکایت متعلقہ فارم
پر درج کروانے کے بجائے ہم لوگ خاموش اور بے نیاز رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات ہم ان اداروں سے لاعلم ہوتے ہیں جو وفاقی
اور صوبائی سطح پر شہریوں کی شکایات سننے اور انکا ازالہ کرنے پر معمور ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آگہی رکھنے کے با وجود ہم ان اداروں سے رجوع کرنے
کی زحمت نہیں کرتے۔ یا تو ہماری روائتی سستی آڑے آجاتی ہے۔یا یہ خیال ہمیں
دامن گیر رہتا ہے کہ ہماری ایک شکایت سے بھلا اس نظام پر کیا فرق پڑ جائے
گا؟اکثریت یہ بھی سوچتی ہے کہ کسی تگڑی سفارش یا حوالے کے بغیر ہماری فریاد
کس نے سننی ہے؟
مثال کے طور پر کئی برسوں سے میرا مشاہدہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان میڈیا کو
تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خصوصی طور پر شعبہ صحافت اور ابلاغیات کے
طالبعلم پاکستانی ڈراموں ، اشتہارات اور حالات حاضرہ کے پروگراموں سے متعلق
اپنا مشاہدہ اور تنقیدی نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا کے
منفی پہلووں سے متعلق بہت سے قابل غور اور قابل اعتراض نکات کی نشاندہی
کرتے ہیں۔جب بھی مجھے اس قسم کی بحث سننے کا موقع ملتا ہے، میں سوال کرتی
ہوں کہ کیا آپ نے کبھی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا پریس
کونسل آف پاکستان یا سائبر کرائم ونگ میں کوئی تحریری شکایت بھجوائی؟ جواب
ہمیشہ نفی میں آتا ہے ۔ ذیادہ تر پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان اداروں اور
شکایات کے طریقہ کار سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی۔ یا پھر روائتی کاہلی آڑے
آجاتی ہے کہ کون بیٹھ کر پیمرا یا پریس کونسل کو چٹھی لکھے، اس کے ساتھ
شناختی کارڈ کی کاپی لف کرئے ، ڈاک خانے جا کر درخواست پوسٹ کرئے ، پھر
بلاوے پر دفتر جا کر حاضری دے اور اپنا موقف بیان کرئے ۔ یہ سوچ بھی اکثر
کے پیش نظر رہتی ہے کہ شکایت کے اندراج کے باوجود ہماری شنوائی بھلا کیسے
ہو گی؟۔ کوئی سفارش ہے نہ حوالہ۔لہذا نظام کی اصلاح احوال میں حصہ ڈالنے کے
بجائے اکثریت اسے برا بھلا کہنے تک ہی محدود رہتی ہے۔ یہ باتیں مجھے اس وجہ
سے یاد آئیں کہ چند روز قبل وفاقی محتسب کی کارگزاری کی بابت کچھ تفصیلات
مجھے موصول ہوئیں۔ ادارے کی عمدہ کارکردگی سے متعلق جان کر خوشی ہوئی اور
حیرت بھی۔ خیال آیا کہ عوام الناس کی خدمت اور سہولت کیلئے قائم اس معتبر
ادارے کی تشہیر ہونی چاہیے۔ تاکہ سرکاری اداروں اور افسران سے شاکی افراد
محتسب کی خدمات سے مستفید ہو سکیں۔
یہ قومی ادارہ 1983 میں قائم ہوا تھا۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے
ماتحت کام کرنے والے تمام اداروں کی کارکردگی پر نگاہ رکھی جائے۔ شہریوں کو
مختلف محکموں میں تعینات افسران اور عملے کی کارکردگی کے ضمن میں جو شکایات
پیدا ہوتی ہیں، ان کا ازالہ کر کے عوام کیلئے سہولت اور آسانی پیدا کی جائے۔
کسی زمانے میں صرف ریٹائرڈ جج کو اس ادارے کا سربراہ مقرر کیا جاتا تھا۔ آج
کل ایک نیک نام ریٹائرڈ بیوروکریٹ سید طاہر شہباز بطور وفاقی محتسب تعینات
ہیں۔ادارے کی اہمیت اور طاہر شہباز صاحب کے تحرک کا اندازہ لگائیے کہ 2019
میں وفاقی محتسب کو کم و بیش 73 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں اور تمام
درخواستیں سماعت کے بعد نمٹا دی گئیں۔ ادارے کی تاریخ میں یہ ایک ریکارڈ ہے
۔ کرونا کے ہنگام ، وفاقی محتسب نے ایک اچھا فیصلہ یہ کیاکہ تمام علاقائی
دفاتر کو آن ۔لائن سماعت کی ہدایت جاری کی۔ یہی وجہ ہے کہ وبائی صورتحال کے
باوجود شہریوں کو گھر بیٹھے انصاف فراہم ہوتا رہا۔ ملک بھر میں وفاقی محتسب
کے 13 دفاتر قائم ہیں۔برسوں سے بلوچستان میں محتسب کا فقط ایک دفتر کوئٹہ
شہر میں قائم تھا۔ بلوچستان کے عوام کی مشکلات کے پیش نظر حال ہی میں
بلوچستان کے علاقے خاران میں ایک علاقائی دفتر کا افتتاح کیا گیا ۔ مقصد یہ
تھا کہ خاران جیسے دور دراز علاقے میں بسنے والوں کو انصاف کے حصول کیلئے
طویل سفر کی صعوبت نہ اٹھانا پڑے۔
مختلف محکموں کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا
تو معلوم ہوا کہ شہریوں کو سب سے ذیادہ شکایات بجلی فراہم کرنے والی
کمپنیوں سے ہیں۔ اس کے علاوہ جن اداروں کے بارے میں بکثرت شکائتی درخواستیں
موصول ہوتی ہیں، ان میں پاکستان پوسٹ، نادرا، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،
پاکستان ریلوے، پاکستان بیت المال، اسٹیٹ لائف انشورنس، اور ای ۔او۔بی۔آئی
جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جن سے ہزاروں لاکھوں شہریوں کو
واسطہ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شکایات کا تناسب بھی ذیادہ ہے۔ وفاقی محتسب
کو قانونی طور پر بہت سے اختیارات حاصل ہیں ۔ مگر روائتی طور پر کوشش یہ
ہوتی ہے کہ سرکاری افسروں اور ملازمین کی اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے افہام و
تفہیم سے معاملات کو حل کر لیا جائے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی عام
شہری کو کسی وفاقی محکمے یا افسر سے کوئی شکایت پیدا ہو تووہ اپنی درخواست
وفاقی محتسب کے دفتر بھجوا سکتا ہے۔ طریقہ کار نہایت آسان ہے۔ سادہ کاغذ پر
اپنی شکایت لکھیں۔ شناختی کارڈ کی کاپی لگائیں اور دفتر کو ارسال کر دیں۔
اس کیلئے کسی فیس کی ضرورت ہے، کسی سفارش یا حوالے کی، نہ کسی وکیل
کی۔درخواست موصول ہوتے ہی محتسب آفس کی طرف سے چوبیس گھنٹوں میں درخواست
کنندہ کو اطلاع کر دی جاتی ہے اور درخواست پر کام شروع ہو جاتا ہے۔ موصول
ہونے والی بیشتر درخواستیں 45 دن میں نمٹا دی جاتی ہیں۔ تاخیر ہو جائے تو
ذیادہ سے ذیادہ ساٹھ دن کے اندرشکایت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ وفاقی محتسب نے خود کو محض شکایات سننے تک محدود
نہیں کر رکھا۔ بلکہ مختلف اداروں اور شعبوں میں اصلاح احوال کی غرض سے
متعلقہ شعبوں کی معتبر شخصیات کی سربراہی میں 26 کمیٹیاں بھی قائم کر رکھی
ہیں۔ یہ کمیٹیاں متعلقہ اداروں کی کارگزاری اور عوامی شکایات کی روشنی میں
ٹھوس سفارشات پیش کرتی ہیں۔ ریلوے، نادرا، پاکستان پوسٹ، جیل خانہ جات،
قومی بچت، سرکاری ملازمین کی پنشن اور دیگر محکموں کے ضمن میں ان کمیٹیوں
نے جو سفارشات دیں، ان پر عمل درآمد یقینی بنا کر ان محکموں کی کارکردگی
میں بہتری لائی گئی ہے۔اس کے علاوہ وفاقی محتسب سیکرٹریٹ جیل میں بند
قیدیوں، عورتوں، بچوں، اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں کمی
لانے کیلئے بھی متحرک رہتا ہے۔
اگرچہ مجھے اس ادارے کے نام اور کام سے واقفیت تھی۔ تاہم ڈاکٹر انعام الحق
جاوید کا شکریہ جنہوں نے اس ادارے کا تفصیلی تعارف فراہم کیا۔ حقیقت یہ ہے
کہ عمدہ کارکردگی کے حامل اچھے ادارے اور عوامی خدمت کیلئے متحرک افسران
کسی تشہیر کے محتاج نہیں ہوتے۔ عوام الناس خود اچھی بری کارکردگی کا چلتا
پھرتا اشتہار ہوا کرتے ہیں۔ اسکے باوجود وفاقی محتسب جیسے معتبر ادارے کا
تذکرہ لازم ہے۔ کسی افسر یا ادارے کی نیک نامی میں اضافے سے قطع نظر، یہ
تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان کی شکایات سننے اور
ازالہ کرنے کیلئے ایک معتبر بارگاہ انصاف موجود ہے۔ اس سے رجوع کر کے مفت
اور بروقت انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
|