اﷲ کا ذکر جسم وروح کی غذا ہے ، اسی سے انسان کا جسم اور
اس کی روح زندہ وباقی رہتی ہے ۔ جو اﷲ کے ذکر سے غافل اور اس کی یاد سے دور
ہوجاتا ہے وہ نہ صرف بہت سارے دنیاوی اور جسمانی خسارے میں رہتا ہے بلکہ اس
کی روح تک مردہ ہوجاتی ہے ۔مومن ہمیشہ ذکر الہی میں رطب اللسان رہتا ہے ۔
عبداﷲ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اﷲ کے رسول! اسلام کے احکام
و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر
میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا:لا یزالُ لسانُک رطبًا من ذکرِ
اﷲِ(صحیح الترمذی:3375)
ترجمہ:تمہاری زبان ہر وقت اﷲ کی یاد اور ذکر سے تر رہے۔
اس لئے ہمیں سدا اپنے خالق ومالک کا گن گان اور اس کی حمد وثنا بجا لاتے
رہنا چاہئے ۔ یہ ہمارا لازمی فریضہ ہے ۔ ہم سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ،
چلتے پھرتے، کھاتے پیتے ہمیشہ اس کی مہربانی کے محتاج ہیں ، وہ جسم میں جان
،آنکھوں میں روشنی، ہاتھ وپیر میں حرکت وقوت ، دل ودماغ میں فکروصلاحیت ،
کام کاج کی توفیق اورروزی روٹی کیاسباب مہیا کرتا ہے ۔ آخر اسی کے دم سے
ہمارا وجود اور ساری کائنات ہے بھلا اس کا ذکر کئے بغیر خالق ومالک کے
بنائے ہوئے اعضائے جسم کو کیسے سکون مل سکتا ہے ؟ اے کاش! اس بات کو اکثر
مسلمان سمجھ لیتے ۔
آئیے میں آپ کو ایک عظیم ذکر بتاتا ہوں جس کے پڑھنے سے عظیم فائدہ حاصل
ہوتا ہے۔ وہ عظیم فائدہ گناہوں کی مغفرت اور جنت میں داخلہ نصیب ہونا ہے ۔
ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قالَ: رَضیتُ باللَّہِ ربًّا، وبالإسلامِ دینًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا،
وجَبت لَہُ الجنَّۃُ(صحیح أبی داود:1529)
ترجمہ: جو شخص کہے: «رضیت باﷲ ربا وبالإسلام دینا وبمحمد رسولا» میں اﷲ کے
رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر
راضی ہواتو جنت اس کے لیے واجب گئی۔
سبحان اﷲ یہ تین کلمے اور جنت کی ضمانت ؟ جنت کا حصول کس قدر آسان معلوم
ہوتا ہے ۔ ٹھہرئیے ! یہاں ایک بات اور ذکر کرتا چلوں ۔آپ کو معلوم ہوگا کہ
جس طرح ایمان کے لئے کلمہ کے اقرار کے ساتھ زبان سے اس کی تصدیق اور اعضاء
وجوارح سے اس کے تقاضے کو پورا کرنا ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی اس ذکر سے
حصول جنت کے لئے دل سے تصدیق کے ساتھ ان تین باتوں پر عمل کرنا بھی ضروری
ہے جن کا زبان سے اقرار کررہے ہیں ۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہی تین
کلمے مومن کے شب وروز اور اس کی زندگی ہیں اور قبرمیں انہی تین باتوں کے
متعلق سوال ہوگا ۔ تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ تمہارے رسول کون
ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ذکر " رَضیتُ باللَّہِ ربًّا، وبالإسلامِ
دینًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا"ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ جس طرح زبان سے یہ تین
کلمے کہے جائیں دل بھی ان باتوں کی تصدیق کرے اور عملا ان کا تقاضہ بھی
پورا کریں جیساکہ سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے تصدیقا وعملا اقرار کیا۔ ابوقتادہ
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے
بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا: رَضینا
باللَّہِ ربًّا، وبالإسلامِ دینًا، وبمحمَّدٍ رسولًا(صحیح النسائی:2382)
ترجمہ: ہم اﷲ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر، راضی ہیں۔
یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ہے ، میں نے الفاظ کے اختصار کی
وجہ سے سنن نسائی کا حوالہ دیا ہے ، یہاں پر قول عمر بحیثت ذکر نہیں ہے
بلکہ تصدیق اور عمل کی حیثیت سے ہے کہ میں اﷲ کے حقیقی معبود ہونے پر ،
تمام ادیان میں دین اسلام کے برحق ہونے پر اورمحمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے
رسول ہونے پر راضی ہوا۔جو آدمی زبان سے اقرار اور دل سیاس طرح تصدیق کرے کہ
اﷲ اس کا خالق ومالک ہے ، اسی کی بندگی کرنی ہے ، وہی ساری کائنات کا حاکم
ومدبر ہے،اسلام ہی سیدھا راستہ ہے ، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی
باتیں حق ہیں ، آپ اﷲ کے آخری اور سچے رسول ہیں اورساتھ ساتھ نبی کی لائی
ہوئی اسلامی شریعت کے مطابق عمل اور اﷲ کی بندگی کرے یقینا اﷲ تعالی اپنے
فضل واحسان سے اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
اسی بات کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے سیدنا عباس بن
عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے
سنا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے تھے: ذاقَ طعمَ الإِیمانِ مَنْ رَضِیَ
باﷲِ ربًّا ، و بِالإسلامِ دِینًا ، و بِمُحمدٍ رسولًا(صحیح مسلم:34)
ترجمہ: ایمان کا مزہ چکھا اس نے جو راضی ہو گیا اﷲ کی حکمرانی پر اور اسلام
کے دین ہونے پر اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیغمبری پر۔
اس فرمان رسول سے مذکورہ ذکر کی حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ یہ عظیم ذکر
دراصل ایمان ہے اور ایمان کی حلاوت پانے کے لئے رب کی معرفت ،اس کی وحدانیت
، ربوبیت اور اسماء وصفات پر ایمان ،اسلام کے ماسوا سارے مذاہب کا بطلان
اور دین اسلام سے رضامندی اور محمد صلی اﷲ علیہ کی نبوت ورسالت پر ایمان
وسر تسلیم خم کرنا اس ذکر میں شامل ہے ۔ اسی طرح سیدنا ابوسعید خدری رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا أبا سَعِیدٍ، مَن رَضِیَ باللَّہِ رَبًّا، وبالإسْلامِ دِینًا،
وبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا، وجَبَتْ لہ الجَنَّۃُ، فَعَجِبَ لہا أبو سَعِیدٍ،
فقالَ: أعِدْہا عَلَیَّ یا رَسولَ اﷲِ، فَفَعَلَ، ثُمَّ قالَ: وأُخْرَی
یُرْفَعُ بہا العَبْدُ مِئَۃَ دَرَجَۃٍ فی الجَنَّۃِ، ما بیْنَ کُلِّ
دَرَجَتَیْنِ کما بیْنَ السَّماء ِ والأرْضِ، قالَ: وما ہی یا رَسولَ اﷲِ؟
قالَ: الجِہادُ فی سَبیلِ اﷲِ، الجِہادُ فی سَبیلِ اللَّہِ.(صحیح
مسلم:1884)
ترجمہ: اے ابوسعید جو راضی ہو اﷲ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے
اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے اس کے لیے جنت واجب ہے۔یہ سن کر
سیدنا ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ نے تعجب کیا اور کہا: پھر فرمایئے یا رسول
اﷲ! آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اور فرمایا کہ ایک اور عمل ہے جس کی
وجہ سے بندے کو سو درجے ملیں گے جنت میں اور ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک
اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان اور زمین میں ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اﷲ
عنہ نے عرض کیا وہ کون سا عمل ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد
کرنا اﷲ کی راہ میں، جہاد کرنا اﷲ کی راہ میں۔
حدیث رسول پہ غور کریں کہ ہم جس ذکر کی شروع سے بات کررہے ہیں وہ ذکر یہاں
بطور عمل مذکور ہے یعنی یہاں یہ مذکور نہیں ہے کہ جس نے " رَضیتُ باللَّہِ
ربًّا، وبالإسلامِ دینًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا"کہا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی
بلکہ کہا گیا ہے کہ جو راضی ہو اﷲ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے
اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے اس کے لیے جنت واجب ہے۔
اس بات کی وضاحت ہوجانے کے بعد کہ اس ذکر میں اقرار کے ساتھ تصدیق وعمل بھی
شامل ہے تبھی جنت کا حصول ممکن ہے اب یہ جانتے ہیں کہ کہاں کہاں اس کا ذکر
کر سکتے ہیں چنانچہ تین ایسے مقامات ہیں جہاں یہ ذکر کرناثابت ہے۔
پہلا مقام : یہ ذکر بغیر قید کے کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں جیساکہ مذکورہ
احادیث سے پتہ چلتا ہے ۔
دوسرامقام : اذان کے وقت یہ ذکر کہنا ثابت ہے تاہم اس بات میں اہل علم کے
درمیان اختلاف ہے کہ یہ ذکر شھادتین کے وقت کہا جائے گا یا اذان کے اختتام
پر۔شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین کا کہنا ہے کہ یہ شھادتین کے وقت کہا
جائے گا ان کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے :سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی
اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا :
مَن قالَ حِینَ یَسْمَعُ المُؤَذِّنَ أشْہَدُ أنْ لا إلَہَ إلَّا اللَّہُ
وحْدَہُ لا شَرِیکَ لہ، وأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ ورَسولُہُ، رَضِیتُ
باللَّہِ رَبًّا وبِمُحَمَّدٍ رَسولًا، وبالإسْلَامِ دِینًا، غُفِرَ لہ
ذَنْبُہُ.(صحیح مسلم:386)
ترجمہ: مؤذن کی اذان سن کر جس نے یہ کہا: «أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا
اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ
وَرَسُولُہُ رَضِیتُ بِاللَّہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا
وَبِالْإِسْلَامِ» میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی اور
دوسرا معبود نہیں ہے، اﷲ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اﷲ کی ربوبیت اور محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم کی رسالت سے مسرور خوش ہوں اور میں نے مذہب اسلام کو قبول کر
لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
یہاں اشھد آیاہے جبکہ روایتوں میں"وانااشھد" آیا ہے ۔ شیخ ابن عثیمین کہتے
ہیں کہ واو عاطفہ کا مطلب ہے کہ موذن کے کلام اشھد ان لا الہ الا اﷲ۔۔ کے
فورا بعد یہ ذکر کیا جائے ۔
تیسرا مقام : صبح کے وقت کہنا دخول جنت کا سبب ہے،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا:
من قال إذا أصبحَ : " رَضِیتُ باﷲِ رَبًّا ، و بِالإسلامِ دِینًا و بِمحمدٍ
نبیًّا " ، فَأنا الزَّعِیمُ ، لآخُذَنَّ بیدِہِ حتی أُدْخِلَہُ
الجنۃَ(السلسلۃ الصحیحۃ:2686)
ترجمہ: جس نے صبح کے وقت کہا:"رَضِیتُ باﷲِ رَبًّا ، و بِالإسلامِ دِینًا و
بِمحمدٍ نبیًّا"میں اﷲ کو رب مان کر اور اسلام کو دین مان کر اور محمدú کو
رسول مان کر راضی ہوں،میں ضامن ہوں اس بات کا کہ ضرور میں اس کو اپنے ہاتھ
سے پکڑوں حتی کہ اﷲ کی جنت میں داخل کردوں گا۔
یہ تین مقامات ہیں جہاں یہ ذکر کرنا ثابت ہے ، ان کے علاوہ دوسرے مخصوص
اوقات میں پڑھنے سے متعلق احادیث ضعیف ہیں ۔ ایک روایت میں نماز کے بعد
پڑھنے کا ذکر ہے ، ایک روایت میں شام کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے اور ایک روایت
میں صبح وشام تین تین دفعہ پڑھنے کا ذکر ہے یہ ساری احادیث ضعیف ہیں ۔
آخر میں رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں اس ذکر کا کثرت سے اہتمام کرنے اور
اس کا عملی تقاضہ پورا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
|