سکول‘ کتاب اور بچے سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں‘
ترقی یافتہ معاشروں میں زیادہ توجہ انہی پر دی گئی اور دی جا رہی ہے مگر
ہمارے ہاں سب سے زیادہ بے توقیری انہیں کے ساتھ برتی گئی اور برتی جا رہی
ہے۔ سکول تربیت گاہ ہوتے ہیں یہاں سے ملنے والا سبق عمر بھر ساتھ دیتا ہے۔
کتاب روشنی کی علمبردار ہوتی ہے۔ یہ بچوں کو علم و آگاہی سے روشناس کرواتی
ہے اور بچوں کو زندگی میں آگے بڑھنے میں رہنمائی دیتی ہے اور بچے ہر قوم کا
مستقبل ہوتے ہیں۔ ملک اور قومیں انہیں سے ترقی حاصل کرتی ہیں اور انہی کے
ہاتھوں مستقبل اور حال کی بھاگ ڈور ہوتی ہے۔
جو قوم ان تینوں پر توجہ دیتی ہے‘ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور جو ملت
ان سے روگردانی کرتی ہے وہ ہمیشہ غلامی اور ذلت کا شکار رہتی ہے۔
ترقی یافتہ اقوام میں دیکھا جائے تو ان کی کامیابی کا سہرا ان تینوں میں
توجہ دینے سے نظر آتا ہے اور جو ملک غلامانہ نظام میں جکڑے ہوئے نظر آتے
ہیں ان کی پستی میں ان تینوں سے بے توجدگی کا سبب نظر آتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کا راج ہے جو سکول اور کتاب پر قبضہ
جما رہے ہیں اور پیسے کی حرص میں پاکستان کے بچوں کا مستقبل تاریک کر رہے
ہیں۔ یہ لوگ ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں جن میں حکومتی اداروں کے افسران‘
منتخب عوامی نمائندے‘ سکول انتظامیہ اور کتابیں چھاپنے والے بڑے ادارے شامل
ہیں۔ یہ لوگ اس قدر دیدہ دلیر ہو چکے ہیں کہ کرپشن سرعام کرتے ہیں اور اس
قدر مضبوط ہیں کہ ان کی کرپشن پر ایکشن لینے والے بھی جب ساد ھ لیتے ہیں یہ
مافیا اتنے طاقتور ہیں کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین تک کو ایک کال کر کے
تبدیل کروا سکتے ہیں۔یوں نظر آتا ہے جیسے وہ ادارے اور افسران جن کا کام
پاکستان میں تعلیمی معیار بہتر کرنا ہے وہ ہی لوگ اس نظام کو تباہ کر رہے
ہیں‘ جن کے ذمےٰ سکول کی حالت زار بہتر کر کے بچوں کو صاف ستھرا ماحول
فراہم کرنا ہے‘ اپنی کرپشن سے بچوں کا مستقبل تاریک کر کے حکومتی سکول سسٹم
برباد کر رہے ہیں۔
سکول اور کتاب پر کرپشن کے یہ قصے اب تو ہر جگہ مقبول ہو رہے ہیں۔ باتیں ہو
رہی ہیں‘ خبریں بھی شائع ہو رہی ہیں۔ کالم لکھے جا رہے ہیں مگر ٹھہرے پانی
میں مدوجز نہیں ہو رہا۔ وہ ادارے چپ ہیں جن کو کرپشن پر ایکشن لینا چاہیے‘
قوم کے بچوں سے بڑھ کر جانے انہیں کیا عزیز ہے کہ سکول اور کتاب پر خرچ
ہونے والی رقم لوٹی جا رہی ہے اور سب آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔
برطانوی ادارے DFID کی طرف سے ملنے والی خطیر رقم گنتی کے چند لوگ اپنی
کتابیں محکمہ سکولز پنجاب کے اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے ڈکارنے والے ہیں
مگر نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔ شرمندگی کی انتہا دیکھئے کہ دوسری قوم کے
ادارے پاکستانی بچوں کی بہتری کیلئے امداد دے رہے ہیں اور ہم اپنے ہی بچوں
کی بہتری پر کام کی بجائے وہ پیسے ہڑپ کرنے پر تلے ہیں۔
DFIDنے پنجاب کے سکولز اور بچوں کی بہتری کیلئے پیسے دئیے۔ ہماری حرص
دیکھئے کہ ہم اپنے بچوں پر خرچ کرنے والی رقم کرپشن کی نذر کرنے لگے۔
جب اس پراجیکٹ کا آغاز ہوا توپہلے کی طرح اس مافیا سے وابستہ لوگ محکمہ
سکول ایجوکیشن پہنچے اور ان سے ملی بھگت کر کے اپنے اداروں کی کتابیں منظور
کروا لیں۔ ان میں ایسی کتابیں بھی شامل تھیں جو ہائی سکول کے طلبا کی ذہنی
استعداد سے ہی باہر تھیں مگر پیسے کے کھیل میں ایساکون سوچتا ہے۔
محکمہ سکول ایجوکیشن نے چھوٹے بڑے سب اداروں کو نظرانداز کیا اور اپنے
منظور نظر پبلشرز کو نواز دیا اور نوازا بھی ایسے شاہانہ انداز سے کہ تاریخ
میں مغلیہ بادشاہوں کی مثالیں بھی ایسی نہیں ملتی۔ مغل بادشاہ بھی کسی کو
جاگیر یا خطاب سے نوازنے سے پہلے سوچتے تھے مگر یہاں تو نوازتے ہوئے ذرا
سوچا بھی نہ گیا۔ایک بندے کے چار ادارے اور ہر ادارے کی سینکڑوں کی تعداد
میں کتابیں شامل کر دیں۔ کسی کے تین ادارے اور ہر ادارے کی سو سے زائد کتب‘
محکمے کے افسران سے اب کون پوچھے کہ ایک بندے کے نام پر تین تین ادارے کیوں
ہے؟ اور باقی بے چارے چھوٹے پبلشر جو تھوڑی سہی مگر معیاری اور اصلاحی
کتابیں چھاپتے ہیں وہ جو روز ایجوکیشن کے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں ان
پبلشرز کی شنوائی کیوں نہیں؟کیا یہ کرپشن سے ہونے والی تباہی کا کھیل منظم
ہیں؟ سوچا سمجھا منصوبہ ہے اگر ایسا نہی تو پھر خاموشی کیسی پاکستان میں جو
سکول‘ کتاب اور بچوں کی تباہی میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اسے کون روکے گا؟
کیا پاکستان بچے مافیا کی وجہ سے سکول اور کتاب سے دور ہوتے جائیں گے یا ان
کا مستقبل بھی کبھی روشن ہوگا۔
|