تربیت میں ادب کا فقدان

بچے کی تربیت میں ادب و آداب کا اضافہ ہمارے کل کی اہم ضرورت ہے

اسلام وعلیکم قارئین:-
فرزانہ جبین ایک بار پھر حاضر ہے ایک اور عنوان کے ساتھ۔مجھے کچھ سال ایک نجی سکول میں کام کرنے کا موقع ملا تو اس وقت شدت سے احساس ہوا کہ ہم والدین کا فریضہ سر انجام دیتے ہوے اپنے بچے کے معاملے میں اتنے حساس ہو جاتے ہیں کہ باقی ہر انسان کی طرف سے بے حس ہو جاتے ہیں ۔ ادب و آداب کی جو تربیت ہمارے والدین نے ہمیں دی تھی ہم اس امانت کو اپنی اولاد تک پہنچانے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ ہمیں اپنی اس غلطی کا احساس ہی نہیں ۔ آج ہمارہ بچہ جب چھوٹی عمر میں ہی ہماری بات کو رد کرتے ہوے جواب دیتا ہے تو بجاے اس کی اصلاح کر نے کے اور اسے یہ سکھانے کہ بیٹا بڑوں کو ایسے جواب نہیں دیتے یہ بری بات ہے ۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارہ بچہ کونفیڈنٹ ہے ۔ ہمیں خود یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بدتمیز ہونا اور کونفیڈنٹ ہونا دو الگ باتیں ہیں۔ معاملات کی شروعات وہاں سے ہوتی ہے ۔ جب بچہ چلنا اور بولنا شروع کرتا ہے۔ اور ہم اس کو گائیڈ کرنے کے بجائے اس سے گائیڈ لائن لینا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہم اس کو بتاتے نہیں ہیں کہ اس کے کھانا کھانے کا وقت ہو گیا ہے ۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا میرا بچہ کھانا کھائے گا۔ ہم اس کو بتاتے نئیں ہیں کہ آج اس کے لیے کھانے میں فلاں چیز بنائی گئی ہے بلکہ اس سے پوچھتے ہیں آج ہمارہ بچہ کیا کھائے گا۔ ہم اس کو کہتے نہیں ہیں کہ اب آپ کا سونےکاُوقت ہو گیا ہے بلکہ ہم اس سے اجازت لیتے ہیں کہ کیا میرا بچہ تھوڑی دیر سوئے گا۔ اگر بچہ گھر کے کسی بڑے کہ بارے میں آ کر کچھ بولتا ہے کہ فلاں نے مجھے ڈانٹا ہے یا وہ مجھے کوئی کام کرنے منع کر رہے ہیں تو بجاے اس بچے کو سمجھانے کے کہ بیٹا وہ آپ کا بڑا ہے اگر آپ کو منع کیا ہے تو آپ اس کی بات سنو ۔ یا یہ کہ بیٹا بری بات شکایتیں لگانا بری بات ہے ۔ بلکہ ہم اس انسان سے پوچھنے پہنچ جاتے ہیں ۔ پھر ہی بچہ یہ گمان لے کر سکول پہنچ جاتا ہے کہ میں کچھ بھی کروں مجھے کوئی کچھ نہیںُ کہہ سکتا ۔ اس کو کسی کی بات سننے کی ،سمجھنے کی اور ماننے کی تربیت ملی ہی نہیں ہوتی۔ مزید کسر ہم روزانہ کی بنیاد پر سکول سے گھر آنے پر پوچھ کر پوری کر دیتے ہیں کہ بیٹا مزا آیا سکول میں ؟ ٹیچر نے مارا تو نہیں ؟ اگر مارے تو مجھے بتانا ۔ اتنا ہی نہیں اگر استاد نے کوئی روک ٹوک کی ہو گی تو اگلے دن سکول جا کر ہم اس استاد کو حسبِ توفیق سرزرش کرتے ہیں اور سکول مینجمنٹ کو یہ بھئ جتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم اتنی فیس اس لیے نہیں دیتے کہ ہمارے بچے کو مارا جاے اگر بچے نے آئندہ شکایت کی تو ہم میڈیا پر آپ کی شکایت کریں گے۔ اور بچے کا سکو ل بھی بدل دیں گے۔

میں یہاں پر اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کرنا چاہوں گی ۔ میری والدہ پڑھی لکھی خاتون نہیں ہیں ۔ صرف قرآن کریم کو اردو اور عربی میں پڑھ سکتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب میں نے سکول جانا شروع کیا تو ایک دن گھر آ کر شکایت کی کہ امی مجھے ٹیچر نے بلاوجہ سزا دی میرا کوئی قصور نہیں تھا ۔ معزز قارئین آج مجھے آپ کو بتاتے ہوے فخر ہو رہا ہے کہ میری والدہ نے اس بات پر ایسا ردِعمل ظاہر کیا جیسا مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہو ۔ انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور کہا کہ اگر تمُ سکول جا کر اتنا بھی نہیں سیکھ سکی کہ استاد کا رتبہ کیا ہے ۔ اور استاد کبھی غلط نہیں ہوتا تو کل سے سکول جانا بند کر دو ۔ اس دن میں سارا دن امی مجھ سے نا ارض رہی ۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ شام کو ابو آیں تو میری بھی شکایت لگانا کہ امی نے بھی تمہیں بلا وجہ ڈانٹا ہے ۔ میں اتنی شرمندہ تھی کہ آج تک سوچتی ہو تو شرمندہ ہو جاتی ہوں ۔ ایک بار بھائی نے ذکر کیا کہ قاری صاحب کان مروڑتے ہیں تو والدہ بولی نہ موقعہ دیا کرو ان کو کہ وہ سزا دیں۔ تم توجہ سے سبق یاد کرو گے تو وہ کیوں سزا دیں گے ۔

معزز قارئین جس بچے کو کھانا کھانے سے لے کر پیشاب کرنا تک ہمُ خود سکھاتے ہیں اسے ادب کرنا بھی ہمیں ہی سکھانا ہے ۔ جو چیز ہم نے اسے سکھائی ہی نہیں بڑا ہونے پر ہمُ اس کی توقع کسے کر سکتے ہیں ۔ بڑوں کی اور استاد کی ڈانٹ ڈپٹ اور سزا اسے آگے چل کر زمانے کی ڈانٹ سے اور زندگی کی مار سے محفوظ رکھے گی ۔ یقین جانئیے زندگی کا سفر بہت کٹھن اور طویل ہے ہم اور آپ نہیں ہوں گے ہر جگہ اس کے ساتھ۔ علم ۔ ادب ۔ تمیز اور تہذیب کا دامن تھام کر ہی ہمارا بچہ زندگی کا ہر امتحان پاس کر لے گا ۔ غور ضرور کیجئے گا ۔
 

Maryam Sehar
About the Author: Maryam Sehar Read More Articles by Maryam Sehar : 48 Articles with 58401 views میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں ۔ معلوم نہیں میرے لکھے ہوے کو پڑھ کر کسی کو اچھا لگتا ہے یا نہیں ۔ پر اپنے ہی لکھے ہوئے کو میں بار بار پڑھتی ہوں اور کو.. View More