دنیا کا پہلا قتل ہابیل کا تھا جسے اسی کے سگے بھائی
قابیل نے انجام دیا تھا۔بیچارے قابیل کو یہ بھی پتہ نہیں تھااسے مارنے کے
بعد کیا کرنا چاہئے وہ تو اپنے بھائی کی لاش کو پیٹھ پر لادے تین دنوں تک
ٹہلتا رہاپھر دو کووں نے لاش کو دفنانے کا گُر سکھایااسی طرح قابیل نے
ہابیل کو دفن کیا۔قابیل تو قتل کرنا بھی نہیں جانتا تھا یہ ہنر شیطا ن نے
سکھایا کہ ایک بڑا پتھر اُٹھا کر ہابیل کے سر پر مار دو وہ مر جائے گا۔یہاں
مقدمہ چلانے کے لیے ہر چیز موجود تھی، آلہ قتل موجود تھا، قاتل بھی تھا جسے
جرم قبول بھی تھا،قاتل کو اکسانے والا (شیطان) بھی تھا، لاش بھی موجود تھی،
ہر چیز موجود تھی لیکن قانون نہیں تھا۔
اسلام سے پہلے عرب قوم میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔کیسے ظالم
لوگ تھے کہ باپ اپنی بیٹی کو ہی مارتا تھا۔اسلا م نے اس پر پابندی لگائی
اور یہ جرم پہلی بار قانون کے دائرے میں آیااور قتل کی سزا قتل نافظ ہوا۔
مقتول کے وارثان کچھ رقم کے اعوض قاتل کومعاف کر دیتے ہیں تو اس کو خون بہا
کہتے ہیں۔
بھارت میں اب ہر طرح کا قانون موجود ہیں یہاں تک کہ بالغ عورت مرد رضامندی
کے ساتھ جسمانی تعلقات بناتے رہیں تو کوئی جرم نہیں اور اگر یہی عورت ساتھ
میں رہنے و الے مرد کے خلاف یہ کہہ دے کہ اس شخص نے اس کے ساتھ زبردستی کی
تو یہ ’سنگین جرم‘ بن جائے گا۔یہاں تک بیوی اگر شوہر پر الزام لگا دے کہ اس
نے میرے ساتھ کسی طرح کی زورو زبردستی کی ہے تو یہ بھی سنگین جرم کے دائرے
میں آتا ہے تو پھر شو ہر پر آیٔ․پی․سی․ اور سی․آر․پی․سی․ کی دفعات کی یلغار
ہو جائے گی اورشوہر کی پریشانی کا دور شروع ہو جائے گااور مزہ وکیل اُٹھائے
گا۔
میں یہاں’ آیٔ․پی․سی․ اور سی․آر․پی․سی․‘کے بارے میں تھوڑی معلومات فراہم
کرانا چاہتا ہوں جس کے تحت کوئی بھی پولیس سے سوال پوچھ سکتا ہے۔آپ کا حق
ہے ، آپ سوال پوچھتے رہیں، ہو گا وہی جو پولیس اور حکومت چاہے گی۔
۱۔ انڈین پینل کوڈ یعنی تعزیرات ہند(IPC): یہ قانون کی کتاب ہے جس میں کیے
جانے والا جرم اور اس میں دی جانے والی سزاکا اندراج رہتا ہے۔اس کے 23حصوں
میں 511 دفعات کے جرائم وسزاؤں کی تفصیل درج ہیں۔
۲۔ فوجداری طریقہ کار کوڈ(Cr.PC) : یہ قانون IPCکو نافذکرنے میں مدد کرتا
ہے۔مثا ل کے طور پر کسی گھر میں چوری ہو گئی تو 378 IPCکی دفعہ لگائی گئی،
اس میں تین سے پانچ سال کی سزاہو سکتی ہے۔
سی․آر․پی․سی․ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح پولیس تفتیش کریگی، کس طرح ملزم کو
عدالت میں پیش کیا جائے گا، مجسٹریٹ کا کیا کام ہے،پولیس کی کیا ذمہ داریاں
ہیں،وکیل کی کیا ذمہ داری ہے، ضمانت کا کیا طریقہ ہوگا یہ سب چیزیں سی․آر․پی․سی․میں
بیان کی جاتی ہیں۔سی․آر․پی․سی․ یہ بھی بتاتی ہے کہ چوری کی غرض سے گھر میں
گھسنے والے اگر چار لوگ تھے تو یہ لوٹ کا مقدمہ ہو گا اور پانچ لوگوں نے
چوری کی واردات انجام دی ہے تو یہ ڈکیتی کا مقدمہ ہوگا۔
فوجداری طریقہ کار کوڈ(Cr.PC)میں اس بات کی بھی سہولت ہے کہ ملزم کو کس طرح
سے آسانی فراہم کرائی جائے۔اسی سلسلہ میں کچھ نقات ذیل میں درج کیے جا رہے
ہیں:
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 46: اس دفعہ کے تحت آفتاب غروب ہونے کے بعد اورآفتاب
طلوع ہونے سے پہلے بھارت کی پولیس کسی بھی عورت کو گرفتار نہیں کر سکتی،جرم
کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو۔ اگر پولیس ایسا کرتی ہے تو گرفتار کرنے والے کے
خلاف شکایت درج کی جا سکتی ہے۔اس سے پولیس افسر کی نوکری بھی خطرے میں
آسکتی ہے۔اگر کسی عورت کی گرفتاری ضروری ہے تو مجسٹریٹ کی اجازت لینی پڑے
گی۔ عورت کو مہلا پولیس ہی گرفتار کر سکتی ہے مردانا پولیس ہاتھ بھی نہیں
لگا سکتی ہے۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 50: اس دفعہ کے تحت یہ حق دیا گیا کہ گرفتار کیے جانے
والا شخص گرفتار کرنے والے افسر سے یہ پوچھ سکے کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا
رہا ہے؟اور پولیس کو وجہ بتانی ہی پڑے گی۔گرفتاری کے لیے جو افسر آیا ہے
اُسے وردی میں ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی وردی پر اس کے نام کی تختی بھی ہونی
چاہۓ۔نام کی تختی پر اس کا نام صاف حروف میں لکھا ہونا چاہئے۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہA 50: اس دفعہ کے مطابق گرفتار کیے گئے شخص کا یہ حق ہے
کہ وہ اپنی گرفتاری کی جانکاری اپنے خاندان کو دے سکے اگر وہ نہیں دے پا
رہا ہے یا اس کو جانکاری نہیں ہے تو اطلع دینے کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی
ہے۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 41B: اسکے مطابق پولیس کو ایک گرفتاری میمو(Arrest
memo)تیار کرنا رہتا ہے ۔ اس میمو میں گرفتار کرنے والے افسر کا نام، عہدہ،
گرفتار کرنے کا وقت اور پولیس افسر کے علاوہ وہاں موجود گواہوں کے دستخط
ہوتے ہیں۔ اس میمومیں گرفتار کیے گئے شخْص کے دستخط بھی ضروری ہیں۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 54: اسکے مطابق گرفتار کیا گیا شخص اگر میڈکل جانچ کرانے
کی مانگ کرتا ہے تو پولیس کو اس کی میڈکل جانچ کرانی ہوگی۔طبی معائنہ کرانے
کا یہ فائدہ ہے کہ اگر گرفتار کیے گئے شخص کے جسم میں کوئی چوٹ نہیں ہے
اورپولیس تحویل میں کوئی چوٹ لگتی ہے تو اس کی ذمہ داری پولیس کی ہوگی اور
یہ گرفتار کیے گئے شخص کے پاس ثبوت ہوگا۔گرفتار کیے گئے شخص کی ہر 48گھنٹہ
کے بعدطبی معائنہ کرنا چاہئے۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 57: اسکے مطابق پولیس کسی شخص کو 24گھنٹے سے زیادہ حراست
میں نہیں رکھ سکتی اسے سی․آر․پی․سی․کی دفعہ56کے مطابق مجسٹریٹ کی اجازت
لینی پڑے گی۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 41D: اسکے مطابق گرفتار کیے گئے شخص کاحق ہوتا ہے کہ
پولیس جانچ کے دوران کبھی بھی وہ اپنے رشتے داروں یا وکیل سے بات کر سکتا
ہے۔
اگر جرم سنگین نہیں ہے تو گرفتار کیے جانے والے شخص کوگرفتاری وارنٹ دیکھنے
کا حق ہے لیکن اگر جرم سنگین ہے تو پولیس بغیر وارنٹ ہی گرفتار کر سکتی ہے۔
اگر گرفتا کیا گیا شخص غریب ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کو مفت
قانونی مدد دی جائے گی یعنی اس کو مفت میں وکیل دستیاب کرایا جایگا۔
اگر کسی شخص کی گرفتاری سے متعلق کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پولیس کرتی ہے
تو گرفتاری غیر قانونی مانی جائے گی اور اس کے لیے پولیس کے خلاف قانونی
کاروائی کی جا سکتی ہے۔
سی․آر․پی․سی․ دفعہ 55(A): اس دفعہ کے مطابق گرفتار کیے گئے شخص کی صحت اور
حفاظت کا خیال پولیس کو رکھنا ہوتا ہے۔
٭ سی․آر․پی․سی․ کے علاوہ آئین نے بھی بنیادی حقوق دیے ہیں۔ اگر کسی شخص کو
غیرقانونی طریقے سے گرفتار کیا جاتا ہے تو آئین کے پیرا20،21اور 22 میں دیے
گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
٭ آئین کے پیرا20کے مطابق ایک شخص کو ایک جرم کے لیے ایک بارسزا ہوگی۔مجرم
کو جرم کرتے وقت جو قانون ہے اُسی کے حساب سے سزا ملے گی۔جرم کے بعد اگر
کوئی نیا قانون بنا ہے تو اس کے حساب سے سزا نہیں ہو سکتی۔
٭ پولیس کسی بھی شخص کو کسی کے خلاف گواہی دینے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔
٭ آئین کے پیرا 21کے مطابق کسی بھی شخص کو قانون کے ذریعہ موجودہ عمل کے
علاوہ اس کی زندگی کی نجی آزادی سے محروم نہیں کیاجا سکتا ۔
٭ آئین کے پیرا 22کے مطابق اگر کسی شخص کو حراست میں لیا گیا ہے تو اسے
مندرجہ ذیل آزادی ملنی چاہئے:
۱․ حراست میں لینے کی وجہ بتانی ہوگی۔
۲․ 24گھنٹے کے اندر اُسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔
۳․ گرفتار شخص کو اپنی پسند کا وکیل چننے کا حق ہوگا۔
ٍ پولیس آفسرکسی کی شکایت درج کرنے سے منع نہیں کر سکتا جیسا کہ
166A,IPCمیں درج ہے۔اگر وہ ایسا کرتا ہے تو بڑے افسر سے شکایت کی جاسکتی
ہے۔اگر پولیس آفسر خطاوار پایا جاتا ہے تو چھ ماہ سے ایک سال تک جیل ہو
سکتی ہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی سہولیات ہیں وہ بھی ہماری معلومات میں ہونی چاہئے
جیسے:
۱) گیس سلنڈر پھٹنے سے جان و مال کے نقصان پر40,00000.00(چالیس لاکھ) تک کا
انشیورنس کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔اگر کمپنی دعوی دینے سے منع کرتی ہے تو اس
کی شکایت کی جا سکتی ہے۔
۲) کوئی ہوٹل چاہے وہ پانچ ستارہ ہی کیوں نہ ہووہاں مفت میں پانی پی سکتے
ہیں اور واش روم کا استعمال کر سکتے ہیںIndian Sarius Act 1887کے مطابق آپ
ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جا کر پانی مانگ کر پی سکتے ہیں اور اس ہوٹل کا
واش روم بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ہوٹل والے آپ کو ایسا نہیں کرنے دیتے
تو آپ اس کی شکایت کر سکتے ہیں، ہوٹل کا لائسنس ختم ہو سکتا ہے۔
۳) حاملہ عورتوں کو نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔ MaternityBenifit Act
1967کے مطابق حاملہ عورت کو اچانک نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔پہلے مالک
کو تین ماہ کی نوٹس دینی پڑے گی اورحمل کے دوران ہونے والے خرچ کا کچھ حصہ
بھی دینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو سرکار میں شکایت درج کرائی جا
سکتی ہے، اس سے کمپنی بند بھی ہو سکتی ہے یا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
مندرجہ بالا سہولیات کے باوجود اﷲ ہم سب کوپولیس کے مکڑ جال سے بچائے
رکھے۔اگر کوئی پولیس کے ہتھے لگ گیاتو وہ آئی․پی․سی․، س․آر․پی․سی․ اور آئین
کی دہائی دیتا رہ جائگا،اس کی ایک بھی نہیں سنی جائگی، اور پولیس جو چاہے
گی کر ڈالے گی۔یہیں لکھنؤ کے ایک تھانے پر میں نے دیکھا تھا کہ ایک انسپکٹر
پولیس(سادے کپڑوں میں) تھانہ انچارج(جو انسپکٹر سے چھوٹے عہدے کا افسر یعنی
سب․ انسپکٹر) کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ ایک سبکدوش ڈی․جی․ اور ان کا
بیٹا تھانے پر کئی گھنٹے بیٹھے رہے جبکہ ان سے کوئی جرم بھی سرزد نہیں ہوا
تھا۔ تو آپ سمجھ لیں کہ عام آدمی کی کیا حیثیت ہوگی۔یہ بات بھی مناسب نہیں
ہے کہ پولیس کی منمانی کے آگے ہم معلومات ہی نہ رکھیں۔
پولیس کی کارکردگی کے سلسلہ میں ایک لطیفہ مجھے یاد آرہا ہے،’’ایک صاحب نے
تھانے پر فون کیا اور رپورٹ لکھائی کہ ان کی گائے جو اس ہولیہ کی تھی،
دروازے سے چوری ہو گئی ہے۔تھوڑی دیر کے بعد ان صاحب نے تھانے میں دوبارہ
فون کیا اور کہا کہ ’گائے کی چوری کی رپورٹ جو انہوں لکھائی تھی اسے کینسل
کر دی جائے کیونکہ گائے مل گئی ہے‘۔
داروغہ جی ناراضگی جتاتے ہوئے بولے’آپ لوگوں نے تماشہ بنا رکھا،کبھی رپورٹ
لکھاتے ہیں، کبھی کینسل کراتے ہیں اور یہاں میں نے آپ کی گائے کی چوری کاجو
ملزم گرفتار کر رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟
پولیس کی کارکردگی کے سلسلہ میں حضرت شوقؔبہرائچی کا ایک شعر یاد آگیا،آپ
بھی لطف لیں:
ستم نصیبوں کی فریاد ہائے کون سنے
پولیس کی چوکیاں بہری ہیں، گونگے ہیں تھانے |