سولی پر لٹکتی بیٹی کی پکار

پاکستان کے گلی کوچوں میں جرائم کی داستا نیں ہر روزر قم ہو تی ہیں ۔کہیں پر یہ بر رضاء و رغبت وقوع پذیر ہوتی ہیں جبکہ کہیں پر ان کا ارتکاب بالجبر کیا جاتا ہے۔میری اپنی آنکھوں نے رضا و رغبت اور افعالِ بالجبر کے کئی واقعات دیکھے ہیں جس پر انسانیت ماتم کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ زور آور وں کی شہ زوریوں کے سامنے بھلا کوئی کہاں زبان کھول سکتا ہے؟زور آور ہمیشہ سے محروموں کا شکار کرتے آئے ہیں اور جب تک اس دنیا پر آخری انسان کا وجود باقی رہے گا ان کی شہ زوریوں کا سلسلہ جا ری رہے گا ۔آسان لفظوں میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں پر جرائم ظہور پذیر نہ ہوتے ہوں اورخواتین مردوں کی اندھی ہوس کا نشانہ نہ بنتی ہوں۔معاشرے میں بے راہ روی اور بے حیائی اس حد تک سرائیت کر چکی ہے کہ جرائم کی مکمل بیخ کنی اب ممکن نظر نہیں آتی ۔عورت اور مرد کا ازلی تعلق اور جذباتی رشتہ کی بے باکی نے معاشرے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے ۔ عورت کا نمائشی انداز ،بناؤ سنگھار اور سرِ عام بے حجابانہ پن ایک کلیدی وجہ ہے جو مرد کے اندر شہوانی جذبات کو ہوا دیتا اور اسے مشتعل کرتا ہے۔ انٹر نیٹ،موبائل ،فیس بک اور دوسرے ذرائع ابلاغ نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اپنے والدین کے سامنے جوان بیٹیاں اور بیٹے دوستوں اور چاہنے والوں سے فون پر محوِ گفتگو ہوتے ہیں لیکن والدین انھیں روک نہیں پاتے کیونکہ آزادی نے اوالاد کو جوابدہی سے آزاد کر دیا ہے ۔شرم و حیا کی پیکر، عفت باز، پاکیزہ اور روائیت پسند لڑکیوں کے لئے جینا دوبھر ہو گیا ہے کیونکہ اب آزادی کی دیوی نے انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے ۔انھیں ایسے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ وہ بھی وقت کے دھارے میں بہتی نظر آتی ہیں۔اپنے گھروں سے فرار ہو نا ، عدالتوں میں شادی کر لینا ، انٹر نیٹ اور فیس بک پر اپنے من پسند لڑکوں کا انتخاب کر لینا اب عام سی بات ہو چکی ہے جسے کوئی قابلِ مذمت نہیں گردانتا ۔ جس معاشرے میں مائیں خود اپنی بیٹیوں کو امیرلڑکوں سے راہ و رسم بڑھانے اور انھیں پھانسنے کی ترغیب دیتی ہوں اس معاشرے کے بانجھ پن میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ شرفاء گھرانوں کے اہلِ خانہ کس کس بات کا خیال رکھیں اور کہاں کہاں کنٹرول قائم کریں کیونکہ موبائل نے ہر بات کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے ۔ سکول، کالج اور یونیور سٹیاں نشے کے اڈے بنتے جا رہے ہیں ۔نشوں کی نت نئی اقسام نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہیں اور والدین سوائے خون کے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے گھروں اور محلوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہم نے ذہنی طور پر قبول کر کے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں ۔روز مرہ کے مشاہدات ،انہونے واقعات اور اخلاق سوز حرکات نے انسانی حسیات کا خون کر دیا ہے لہذا عوام بے حیائی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات پر واویلا نہیں کرتے کیونکہ معاشرے کا عمومی چلن بدل گیا ہے۔جب گھر گھر کی ایک ہی کہانی ہو گی تو احتجاج کون کرے گا؟جب ہر گھر میں بے حیائی ،بے باکی،بے شرمی ڈیڑے ڈال لے گی تو معاشرے کا اجتماعی ضمیر مردہ ہو جائیگا ۔،۔

ہمیں دوسروں کی خامیوں کو سرِ بازار اچھالنے میں ایک خاص تسکین، لطف اور مزہ ملتا ہے لیکن جب یہی خامیاں ہمارے اپنے گھروں میں محوِ رقص ہوتی ہیں توزبا نیں گنگ ہو جاتی ہیں۔دوسروں کی عزت و آبرو کا ڈھنڈورا پیٹنے سے قبل اپنے گھر کا نقشہ نگاہوں میں گھوم جائے تو سب خاموشی کی چادر تان لیتے ہیں ۔یورپ کے بارے میں عمومی تصور یہی ہے کہ وہاں پر جنسی بے راہ روی ہے ۔مردو زن کے اختلاط نے معاشرے کوبے آبرو کر کے رکھ دیا ہے۔آزادانہ میل ملاپ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ خاندانی یونٹ افرا ط و تفریق کا شکار ہیں اور شادی کا رواج دھیرے دھرے دم توڑتا جا رہا ہے۔اب دوستیاں اور فرینڈ شپ کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ اسقاطِ حمل قانونی طور پر جائز ہے اور شادی کے بغیر بچوں کی پیدائش معمول کے واقعات ہیں جس پر حکومت کوئی سرزنش نہیں کرتی۔ایک ہی چھت کے نیچے رہنا اور کسی کو جوابدہ نہ ہونا وہاں کا چلن ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پر زنا بالجبر، اجتماعی زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں اور کسی خاتوں کی مرضی کے بغیر اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے ۔جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کا مقدر جیل ہوتا ہے۔ لیکن باعثِ حیرت ہے کہ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے ملک میں زنا بالجبر کے واقعات عام ہیں بلکہ اب تو اجتماعی زیادتی کے واقعات نے سارے ریکارڈ تو ڑ دئے ہیں۔ عورتوں کو برہنہ کرکے اپنی مردانگی کا اظہار کرنا عام ہے۔قانون منہ میں گنگنیاں ڈالے کھڑا رہتا ہے جبکہ علاقہ کا غنڈہ،چوہدری، جاگیردار ،سردار اور وڈیرہ ڈھٹائی سے قانون کو پاؤں تلے مسل رہا ہوتا ہے۔ قانون کے رکھوالے ایسے سفاک ا فراد کو تحفظ فراہم کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے مفادات ان کی ذات کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔

لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر سفاکیت کا جو نیا باب رقم کیا گیا ہے اس نے معاشرے کو مزید بے خوف بنا دیا ہے۔اب تواتر سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو اجتماعی زیادتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اجتماعی زیادتی کے اتنے بڑے واقعہ کے بعد قوم ہر قسم کی زیادتی سے توبہ کرتی اور دوسروں کی بہو بیٹیوں کی عزت و احترام کا عہد کرتی لیکن ایسا ہونے کی بجائے اس نے اجتماعی زیادت کے کھیل کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ انھیں علم ہے کہ پاکستان میں قانون نام کی کوئی شہ نہیں ہے۔عدالتیں شہادتیں ، گواہ اور ثبوت مانگتی ہیں جبکہ عوام گواہی اور شہادت دینے سے خائف رہتے ہیں۔ تگڑوں کے خلاف زبان کھولنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہو تا ہے اور ایسا کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ جب کمرہِ عدالت میں گواہ قتل ہو جائے تو گواہی دینے کی جرات کون کریگا؟ویسے بھی ہمارے ہاں تگڑوں کے پاس جھوٹے گواہ ہوتے ہیں ل جو انھیں سزا سے بچانے کا کارنامہ سر انجام دیتے ہیں۔ہمارے ہاں تگڑوں کے لئے ایک قانون جبکہ کمزوروں کے لئے دوسرا قانون ہو تا ہے۔ بد قسمتی سے ایسے گھناؤنے افعال میں پولیس کا کردار انتہائی شرمناک ہوتاہے۔جو کوئی بھی اپنی مدد کیلئے پولیس کو اطلاع دیتا ہے اجتماعی زیادتی کا شکار ہو جاتا ہے۔ فرانس سے آئی ہوئی وطن کی بیٹی کے ساتھ جس طرح کا بیہمانہ سلوک روا رکھا گیا وہ تصور سے ماوراء ہے ۔ اس نے بھی تو اپنی مدد کیلئے پولیس کو ہی آواز دی تھی لیکن اس کاجو حشر ہوااسے بیان کرتے ہوئے آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس واقعہ کو بیان کر سکے کیونکہ وہ انسانی درندگی کی بدترین مثال تھا ۔ قوم کی ایک بیٹی جو فرانس سے وطن کی انمت محبت کے پھول سجائے پاکستان وارد ہوئی تھی وطن کے بیٹوں نے اسی کی عزت کو تاراج کر کے رکھ دیا۔کیا وطن کے غیور بیٹے اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں؟دھرتی کی بیٹی کی بے کراں محبت کے ساتھ ہمارے معاشرے نے جو سلوک روا رکھا وہ انتہائی گھناؤنا اور قابلِ نفرت ہے ۔ پولیس کسی بھی ملک کا سب سے محترم ادراہ ہوتا ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ پولیس جرائم پیشے افراد کی سر پرست بنی ہوئی ہے۔عمران خان نے تو پولیس کو سیاسی دباؤء سے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ کیسی وعدہ ایفائی ہے کہ فرانس سے آنے والی قوم کی بیٹی اجتماعی زیادتی کی سولی پر لٹکا دی گئی ہے۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.