اماں جی کو بھولنا آساں نہیں

میں پچانوے سالہ اماں جی کا وہ پرسکون چہرہ کبھی نہیں بھول سکتی جن کی شخصیت زندگی کے لاتعداد تجربات کا مجموعہ تھی ۔ کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا مگر ان کی گفتگو عقل و دانش اور فہم و فراست سے بھرپور ہوتی ۔وقت کی قدر کا انہیں اس قدر احساس تھا کہ کمی ٔ وقت کو محسوس کرتے ہوئے وہ اسے اس طرح استعمال ( Utilize ) کرتی تھیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ۔

دوسروں کے لئے کچھ کرنے اور بنانے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ صحت کے مسائل ہونے کے باوجود ہر دم کچھ بنانے کی تگ و دو میں لگی رہتی تھیں۔مٹی سے اس قدر پیار کہ تھکے ماندے وجود کے ساتھ بھی گھر میں بنائی ہوئی ننھی منی کیاریوں کو اس طرح بناتی سنوارتی تھیں جیسے کوئی معصوم بچی اردگرد سے بے نیاز اپنی گڑیوں سے کھیل رہی ہو ۔

پودوں اور درختوں سے اسقدر پیار کہ ہسپتال میں صاحب فراش ہوکر بھی ان کی حفاظت کی ہدایات جاری کر رہی تھیں ۔ جانتی تھیں کہ پھل انہوں نے نہیں کھانا مگر دوسروں کے لئے کچھ بنانے کی خواہش بہت شدید تھی ۔

نئے موسم کا انتظار اب بھی آنکھوں میں تھا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب سانسیں بے وفائی کر رہی تھیں کئی لوگوں سے ملاقات کے بعد کہا کرتی تھیں کہ یہ آ خری ملاقات ہے مگر پھر بھی گھر کی چھوٹی چھوٹی اشیا ء کی حفاظت پہ زور دے رہی تھیں ۔ نئے سفر کی تیاری میں اندر ہی اندر مشغول ہوتے ہوئے اپنے استعمال کی بے شمار چیزیں غریبوں میں خاموشی سے تقسیم کر رہی تھیں مگر ہمارے حوصلے کے لئے نئے موسم اور نئے لباس کی بات کرتی تھیں کہ ہم کسی غمگین احساس سے آشنا نہ ہوں۔اخلاق کا ایسا اعلیٰ نمونہ تھیں کہ ہر آنے والے تیماردار کا دعاؤں اور شکریہ کے ساتھ استقبال اور اللہ حافظ کہنے کا خوبصورت انداز آنے والوں کو حیران کر دیتا کہ شدید بیماری کے باوجود تمام ہوش و حواس سلامت تھے ۔

تازہ ہوا ، درختوں کی چھاؤں اور سردیوں میں آنگن میں پھیلی دھوپ سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتیں اور ہمیں بھی ان سے مستفید ہونے کی ہدایت کرتیں ۔انتہائی غریب پرور تھیں کوشش کرتی تھیں کہ کوئی مسافر خالی ہاتھ نہ جائے ۔ گھر کے ملازمین کے لئے لئے بے انتہا شفیق اور ان کی مدد کرنے کے لئے ہروقت تیار رہتی تھیں ۔اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو بہت اہمیت دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ دوسروں پہ کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔مختصر یہ کہ وہ ایک ںیک خو، شفیق ، مہمان نواز اور غریب پرور خاتون تھیں یہ صرف چند خوبیاں ہیں جن کا میں نے نہایت اختصار سے ذکر کیا ہے ۔ ان کی شخصیت بے شمار خوبیوں کا مجموعہ تھی ۔اب وہ ہم میں موجود نہیں مگر ان کی خوبصورت یادیں اور باتیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گی ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔
میری آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں تجھے
جہاں تیرے پیار کی خوشبو بسی ہے
کبھی سحر کی ٹھنڈک میں
کبھی شام کی سرمئی میں
کبھی سرد ہواؤں کی خنکی میں
کبھی گھر کے اس کونے میں
کبھی آنگن کی کیاریوں میں
کبھی میرے گھر کی بکھری خوشیوں اور اداسیوں میں
(پیاری اماں کے لئے)
 

Shaista Aftab
About the Author: Shaista Aftab Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.