محسن انسانیت نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کا لقب‘‘اُمّی’’ہے اُمّی کے دو معنی ہیں یا تو یہ ’’اُم القریٰ
’’کی طرف نسبت ہے۔‘‘اُم القریٰ’’مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا‘‘اُمی’’کے معنی
مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا‘‘اُمّی’’کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی
انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا
بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو نہیں پڑھایا
لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ
اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ پر ایسی کتاب نازل
ہوئی جس کی شان ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘ (ہر ہر چیز کا روشن بیان)
ہے حضرت مولانا جامی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ یعنی
میرے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ کبھی مکتب میں گئے، نہ لکھنا سیکھا
مگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سی مدرسوں کو سبق پڑھا دیا۔
ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس
کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ اعلیٰ حضرت فاضل
بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ َایسا امی کس لئے منت کش استاذ
ہو
َکیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے
امی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خدا وند علام الغیوب کے سوا
اور کون بتا سکتا ہے لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے
ہیں۔
اوّل۔ یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم ہوں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا استاد صرف خداوند
عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتا کہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ
پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
دوم۔ یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے
زیادہ علم والا ہو گا۔
سوم۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے
کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے
انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن
انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔
چہارم۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ساری دنیا کو کتاب و حکمت کی
تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی ۔ کتابوں کو دیکھ دیکھ
کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کر رہے
ہیں۔
پنجم۔ اگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو
اس کی تعظیم کرنی پڑتی، حالانکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خالق
کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ
وسلم کی تعظیم کرے، اس لیے حضرت حق جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ
میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استاد ہو۔ (واﷲ
تعالیٰ اعلم)ملک شام کاایک یہودی عیص مکہ سے کچھ فاصلے پر رہتا تھا۔وہ جب
بھی کسی کام سے مکہ آتا، وہاں کے لوگوں سے ملتا تو ان سے کہتا: 'بہت قریب
کے زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا، سارا عرب اس کے راستے پر
چلے گا۔ اس کے سامنے ذلیل اور پست ہوجائے گا۔وہ عجم اور اس کے شہروں کا بھی
مالک ہوجائے گا۔یہی اس کا زمانہ ہے۔جو اس کی نبوت کے زمانے کو پائے گا اور
اس کی پیروی کرے گا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔جس خیر اور بھلائی کی وہ
امید کرتاہے، وہ اس کو حاصل ہوگی اور جو شخص اس کی نبوت کا زمانہ پائے گا
مگر اس کی مخالفت کرے گا، وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔''
مکہ معظمہ میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ یہودی اس بچے کے بارے میں تحقیق
کرتا اور کہتا، ابھی وہ بچہ پیدا نہیں ہوا۔آخر جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو عبدالمطلب اپنے گھر سے نکل کر اس یہودی کے
پاس پہنچے۔اس کی عبادت گاہ کے دروازے پر پہنچ کر انہوں آواز دی۔عیص نے
پوچھا: کون ہے؟ ''انہوں نے اپنا نام بتایا۔پھر اس سے پوچھا:'تم اس بچے کے
بارے میں کیا کہتے ہو؟ ''
اس نے انہیں دیکھا، پھر بولا: 'ہاں! تم ہی اس کے باپ ہوسکتے ہو، بیشک وہ
بچہ پیدا ہوگیا ہے جس کے بارے میں، میں نے تم لوگوں سے کہا کرتا تھا۔وہ
ستارہ آج طلوع ہوگیا ہے جو اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے... اور اس کی
علامت یہ ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے، یہ تکلیف اسے تین دن رہے
گی، اور اس کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گا۔''راہب نے جو یہ کہا تھا کہ بچہ تین
دن تک تکلیف میں رہے گا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے تین دن تک دودھ نہیں
پیا تھا اور یہودی نے جو یہ کہا تھا کہ ہاں! آپ ہی اس کے باپ ہوسکتے ہیں،
اس سے یہ مراد ہے کہ عربوں میں دادا کو بھی باپ کہہ دیا جاتا ہے، اور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک بار خود فرمایا تھا:
''میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔''یہودی نے عبدالمطلب سے یہ بھی کہا تھا: 'اس
بارے میں اپنی زبان بند رکھیں، یعنی کسی کو کچھ نہ بتائیں، ورنہ لوگ اس بچے
سے زبردست حسد کریں گے، اتنا حسد کریں گے کہ آج تک کسی نے نہیں کیا اور اس
کی اس قدر سخت مخالفت ہوگی کہ دنیا میں کسی اور کی اتنی مخالفت نہیں
ہوئی۔''پوتے کے متعلق یہ باتیں سن کر عبدالمطلب نے عیص سے پوچھا: اس بچے کی
عمر کتنی ہوگی؟ '' یہودی نے اس سوال کے جواب میں کہا:
''اگر اس بچے کی عمر طبعی ہوئی تو بھی ستر سال تک نہیں ہوگی۔بلکہ اس سے
پہلے ہی 61 یا 63 سال کی عمر میں وفات ہوجائے گی اور اس کی امت کی اوسط عمر
بھی اتنی ہوگی، اس کی پیدائش کے وقت دنیا کے بت ٹوٹ کر گر جائیں گے۔''
یہ ساری علامات اس یہودی نے گزشتہ انبیاء کی پیش گوئیوں سے معلوم کی تھیں
اور سب سب بالکل سچ ثابت ہوئیں۔
قریش کے کچھ لوگ عمرو بن نفیل اور عبداﷲ بن حجش وغیرہ ایک بت کے پاس جایا
کرتے تھے۔یہ اس رات بھی اس کے پاس گئے، جس رات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
پیدائش ہوئی۔انہوں نے دیکھا وہ بت اوندھے منہ گرا پڑا ہے۔ان لوگوں کو یہ
بات بری لگی، انہوں نے اس کو اٹھایا، سیدھا کردیا مگر وہ پھر گرگیا۔انہوں
نے پھر اس کو سیدھا کیا، وہ پھر الٹا ہوگیا۔ان لوگوں کو بہت حیرت ہوئی، یہ
بات بہت عجیب لگی۔تب اس بت سے آواز نکلی۔
''یہ ایک ایسے بچے کی پیدائش کی خبر ہے، جس کے نور سے مشرق اور مغرب میں
زمین کے تمام گوشے منور ہوگئے ہیں۔''
بت سے نکلنے والی آواز نے انہیں اور زیادہ حیرت زدہ کردیا۔
اس کے علاوہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایران کے شہنشاہ کسریٰ نوشیرواں کا
محل ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے۔نوشیرواں کا یہ محل نہایت مضبوط
تھا۔بڑے بڑے پتھروں اور چونے سے تعمیر کیا گیا تھا۔اس واقعے سے پوری سلطنت
میں دہشت پھیل گئی۔شگاف پڑنے سے خوفناک آواز بھی نکلی تھی۔محل کے چودہ
کنگرے ٹوٹ کر نیچے آگرے تھے۔
آپ کی پیدائش پر ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ فارس کے تمام آتش کدوں کی وہ آگ
بجھ گئی جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو بجھنے نہیں دیتے تھے، لیکن
اس رات میں ایک ہی وقت میں تمام کے تمام آتش کدوں کی آگ آناً فاناً بجھ
گئی۔آگ کے پوجنے والوں میں رونا پیٹنا مچ گیا۔
کسریٰ کو یہ تمام اطلاعات ملیں تو اس نے ایک کاہن کو بلایا۔اس نے اپنے محل
میں شگاف پڑنے اور آتش کدوں کی آگ بجھنے کے واقعات اسے سناکر پوچھا:
''آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔''
وہ کاہن خود تو جواب نہ دے سکا، تاہم اس نے کہا:
’’ان سوالات کے جوابات میرا ماموں دے سکتا ہے، اس کا نام سطیح
ہے۔‘‘نوشیرواں نے کہا
’’ٹھیک ہے، تم جا کر ان سوالات کے جوابات لا۔‘‘وہ گیا، سطیح سے ملا، اسے یہ
واقعات سنا، اس نے سن کر کہا:’ایک عصا والے نبی ظاہر ہوں گے جو عرب اور شام
پر چھا جائیں گے اور جو کچھ ہونے والا ہے، ہو کر رہے گا۔‘‘
اس نے یہ جواب کسریٰ کو بتایا۔ اس وقت تک کسریٰ نے دوسرے کاہنوں سے بھی
معلومات حاصل کر لی تھیں، چنانچہ یہ سن کر اس نے کہا:’’تب پھر ابھی وہ وقت
آنے میں دیر ہے۔‘‘ (یعنی ان کا غلبہ میرے بعد ہو گا)
پیدائش کے ساتویں دن عبدالمطلب نے آپ کا عقیقہ کیا اور نام ’’محمد‘‘ رکھا۔
عربوں میں اس سے پہلے یہ نام کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ قریش کو یہ نام
عجیب سا لگا۔چنانچہ کچھ لوگوں نے عبدالمطلب سے کہا:
’’اے عبدالمطلب! کیا وجہ ہے کہ تم نے اس بچے کا نام اس ک باپ دادا کینام پر
نہیں رکھا بلکہ محمد رکھا ہے اور یہ نام نہ تمہارے باپ دادا میں سے کسی کا
ہے نہ تمہاری قوم میں سے کسی کا ہے۔‘‘عبدالمطلب نے انہیں جواب دیا:
’’میری تمنا ہے کہ آسمانوں میں اﷲ تعالیٰ اس بچے کی تعریف فرمائیں اور زمین
پر لوگ اس کی تعریف کریں۔‘‘(محمد کے معنی ہیں جس کی بہت زیادہ تعریف کی
جا?۔)
اسی طرح والدہ کی طرف سے آپ کا نام احمد رکھا گیا۔ احمد نام بھی اس سے پہلے
کسی کا نہیں رکھا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ ان دونوں ناموں کی اﷲ تعالیٰ نے
حفاظت کی اور کوئی بھی یہ نام نہ رکھ سکا۔ احمد کا مطلب ہے سب سے زیادہ
تعریف کرنے والا۔
علامہ سہیلی نے لکھا ہے آپ احمد پہلے ہیں اور محمد بعد میں۔ یعنی آپ کی
تعریف دوسروں نے بعد میں کی، اس سے پہلے آپ کی شان یہ ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ
کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔ پرانی کتابوں میں آپ کا نام احمد
ذکر کیا گیا ہے۔
اپنی والدہ کے بعد آپ نے سب سے پہلے ثوبیہ کا دوھ پیا، ثوبیہ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی باندی تھیں۔ ان کو ابو لہب نے آپ کی پیدائش
کی خوشی میں آزاد کر دیا تھا۔ ثوبیہ نے آپ کو چند دن تک دودھ پلایا۔ انہیں
دنوں ثوبیہ کے ہاں اپنا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو صرف نو دن
تک دودھ پلایا۔ انکے بعد ثوبیہ نے پلایا۔ پھر دودھ پلانے کی باری حضرت
حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنہا کی آئی۔
|